“تقدیر” میں لکھے ہونے کے باوجود “”خودکشی”” حرام کیوں؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

تحریر: فیضان سرور مصباحی

رکن : روشن مستقبل ــ دہلی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Agar ye kaha jata he ke sbki maut phle he muqarrar he. to insan q suicide krta he. or usko haram karar q diya gaya he???

Qk sbki maut to phle se hi likhi he na. ke

kaise hogi?

kahan hogi?

to suicide se bhi likha hoga kisi ki mout. to q haram qarar diya jata he suicide ko. jb maut ka tarika or waqt phle se likha he.?

~~~~

Please answer. qk kisi ne pucha he.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ہمارے ایک درسی ساتھی محترم “”مولانا اسلم آزاد مصباحی {گڈا ـ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ} “” نے مسئلۂ تقدیر اور خودکشی سے متعلق اپنے کسی عزیر کا یہ سوال فارورڈ کیا ہے۔ جس کی وہ کچھ وضاحت چاہتے ہیں ۔ سوال کی مناسبت سے چند سطور جو ارتجالاً لکھے گئے۔ وہ حسب ذیل ہیں:

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

محدود علمِ انسانی _ اور _ فلسفۂ تقدیر

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

دنیا کا حال یہ ہے کہ جب کوئی حادثہ رونما ہوجاتا ہے ، تب جاکر اس حادثے کی باضابطہ رپورٹنگ شروع ہوتی ہے۔ اور پھر اسی کی روشنی میں تحقیق وتفتیش کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔

علمی دنیا نے اب تک کوئی ایسا پیمانہ دریافت نہیں کیا ہے. جس کے ذریعے بعد میں رونما ہونے والے حادثات کی تمام تر یقینی اور حتمی تفصیلات (ظنی نہیں۔) سے پہلے ہی آگاہ ہوا جاسکے۔ اور نہ ہی یہ انسان کے بس کی چیز ہے۔

قرآن کریم میں ہے :

﴿ وَمَاۤ أُوتِیتُم مِّنَ ٱلۡعِلۡمِ إِلَّا قَلِیلࣰا﴾ [الإسراء ٨٥] ـــــــ یعنی تمہیں بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔

یہی “” تھوڑا سا علم”” ہے، جو انسانوں کے مابین حصول یا عدم حصول کے فرق کے بعد ایک دوسرے پر برتری اور کمتری کے اظہار وإثبات کا اہم ذریعہ بنتا ہے ۔

مگر علم الہی کی طرف دیکھیں تو یہ “” تھوڑا سا علم”” بھی اس سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ہے، جتنا کہ سمندر کو قطرے سے نسبت ہوتی ہے ۔ بلکہ اس سے بھی کم، بلکہ کم تر ۔ بلکہ کم تر از کم تر

چہ نسبت خاک را باعالم پاک

۔ـــــــ آخر ، علم الہی جس کی کوئی حد وحساب نہیں ، اس کا “” علم انسانی”” جو محدود اور وضاحت قرآنی کے مطابق بالکل “”قلیل، تھوڑا سا”” ہے، کیا مناسبت ۔

یہ اسی محدودیت کا کرشمہ ہے کہ انسان اللَّهُ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوقات میں غور کرنے کے بعد ظن و تخمینے سے ایک رائے تو قائم کرلیتا ہے ۔ مگر اسی وقت خود صاحبِ رائے بھی اپنی رائے کی کمزوری کو اچھی طرح محسوس کررہا ہوتا ہے۔ مثلاً : سیلاب آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ وسائل کا سہارا لے کر انسان ایک دھندلا سا نقشہ تو پیش کردیتا ہے، مگر ٹھیک اسی کے مطابق وہ سوفیصد ظہور پذیر ہوجائے اس کی گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا۔ آخر یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ شک و وہم یقین کے درجے میں اتار لیا جائے۔؟

جب کہ اللہ تعالیٰ جو اس دنیا کا خالق و مالک ہے، اس کے یہاں ایسی کسی بھی طرح کی عاجزی وبے کسی کا وجود نہیں ۔ چیزوں کی پیدائش سے پہلے ہی ان کی تمام تر تفصیلات اور اس کی باریکیوں سے آگاہ، اس سے وابستہ تمام حقائق سے آشنا ہے ۔

ایک بندہ ابھی دنیا میں گیا نہیں، مگر جاکر وہاں کیا کرے گا، کن کن مصائب و مشکلات سے اسے دوچار ہونا پڑے گا۔ کیسی کیسی خوشیوں سے مالا مال ہوگا۔ غرض کہ زندگی کے تمام تر ڈیٹاز فرشتوں کے ذریعے ایک تختی میں لکھواکر محفوظ کردیئے گئے ہیں۔ جس کا نام قرآن مجید میں “” لوح محفوظ “” بتایا گیا ہے ۔

اسی “”لوح محفوظ”” میں یہ بات بھی درج ہوتی ہے کہ انسان کی موت کب اور کس طرح سے آئے گی !

یہ یقینی اور حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔ جہاں غلطی کا گزر نہیں ۔ کیوں کہ فیصلے میں غلطی اور امکان کا تصور وہاں ہوتا ہے۔ جہاں باریک جزئیات اور دقیق اشارات نگاہوں سے اوجھل ہوں ۔ اور اللہ علیم وخبیر کی شان اس سے بہت بلند ہے ۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اب چند مثالوں کی طرف بڑھتے ہیں :

پہلی مثال :

ـــــــــــــــــــ

ایک بچہ جو سرخ رنگ کے کھلونے کو بے حد پسند کرتا ہے۔ اچانک آگ کے دہکنے ہوئے سرخ انگارے کی طرف (کھلونا سمجھ کر) بڑھ رہا ہے ۔

پاس میں موجود اس بچے کا باپ ـــــ جو بائک چالو کیے ہوئے کسی سفر پر نکل رہا ہے ـــــ کہتا ہے : بچے کو روکو ورنہ اپنی شوق کی چیز سمجھ کر انگارے کو پکڑ لے گا۔

باپ یہ کہ کر اپنے کام کی طرف نکل پڑتا ہے۔ اور پھر چند منٹ میں اچانک رونے چلانے کی آواز آنے لگتی ہے۔ جی، لیجیے ، مُنا کا ہاتھ انگارے میں جُھلَـس چکا ہے ۔

اب فیصلہ آسان ہے :

یہاں پر یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ باپ کے کہہ دینے کی وجہ سے بچہ انگارہ پکڑنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ ورنہ وہ ایسا نہیں کرتا ۔

بلکہ بچے نے اپنی سمجھ کے مطابق اپنی پسند کا انتخاب کیا تھا ۔ جو کہ فی الواقع غلط نکلا اور نقصان ہوگیا۔

اسی طرح بندہ دنیا میں جاکر اپنے پسند اور اختیار کے ذریعے کیا کرنے والا ہے. اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے۔ اسی علم ازلی کی بنیاد پر اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔

کسی کی تقدیر میں اگر یہ لکھا کہ وہ دنیا میں جاکر شراب نوشی کرے گا، تو یہ اس وجہ سے کہ وہ دنیا میں جاکر قرآن و حدیث اور انبیاء کرام کی تمام تر تعلیمات کے باوجود اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے “”شراب نوشی”” کرے گا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کردیا. بلکہ بندہ جیسا کرنے والا تھا. ویسا ہی لکھا ہے ۔

دوسری مثال :

ــــــــــــــــــــــ

نیک اور دین دار گھرانے کے ایک خوش حال باپ نے اپنے دوبیٹوں کو (جو شرارت میں بڑے مشہور تھے۔) بلاکر سمجھایا اور پھر الگ الگ “”بائک”” کی چابی دیتے ہوئے کہا کہ :

آج جمعہ کا دن ہے۔ اپنی اپنی بائک سے جمعہ کے لیے چلے جانا ہے ۔ خبردار ! کوئی “”شراب خانے”” کی طرف نہ نکل جائے.

پھر دونوں جگہوں کی خوبیاں اور خامیاں بھی اچھی طرح بتادیا . اور یہ بھی واضح کردیا کہ میری خوشی مسجد کے ساتھ ہے۔ پھر انعام کا بھی اعلان کردیا کہ مسجد جانے والے کو بطور انعام ایک “” فورویلر”” ملے گا۔ جب کہ شراب خانے کا انتخاب کرنے والے کو ہمیشہ کے لیے گھر سے نکال دیں گے۔

میں اپنی مرضی کا اظہار کرچکا. اب تم دونوں بااختیار ہو جو چاہو کرو، مگر یاد رکھنا ” جیسی کرنی ویسی بھرنی” کا مقولہ نہ بھولنا ۔

مسلسل پانچ جمعہ ایسا ہی ہوا اور ہر بار ایک بیٹے نے مسجد کا اور دوسرے نے شراب خانے کا رخ کیا۔

مسجد جانے والے بیٹے سے باپ کا دل بے حد خوش ہوا، اور وعدے کے مطابق ایک فور ویلر کا انتظام کردیا ۔

جب کہ دوسرے بیٹے سے بے حد ناراض ہوکر اسے گھر سے باہر کردیا۔

فلسفۂ تقدیر

ــــــــــــــــــــــ

ان تفصیلات کی روشنی میں اسلام کے نظریۂ ” تقدیر” کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہےکہ :

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک طرح کا اختیار دیا ہے۔ اسی اختیار کی بنیاد پر اپنی ذاتی پسند و ناپسند کا وہ انتخاب کرتا ہے۔ اور اسی کے مطابق اپنا کام کرتا ہے ۔

دوسری طرف آسمانی کتابوں کے ذریعے، اور انبیاء کرام ورسولان عظام کو بھیج کر، یوں ہی دنیا میں علماء کرام کا وجود قائم فرماکر زندگی کا مقصد واضح فرمادیا ہے۔ صحیح اور غلط راستے کو ممتاز کردیا ہے . کس کام سے اللہ تعالیٰ کی خوشی متعلق ہے. اور کس کام سے ناراضی؛ سب بتادیا ۔ اچھے کام پر جنت کی بشارت اور برے کام پر جہنم کی سزا سب کچھ کھلے انداز میں پیش کردیا ہےـ

ان تمام انتظامات، و ہدایات کے باوجود اللَّهُ تعالیٰ کے عطا کردہ کردہ اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے، تو پھر اسے کس چیز کا حقدار ہونا چاہیے ۔؟؟؟

ــــــــــــــــــــــــــ

آمدم بر سر مطلب

ـــــــــــــــــــــــــــ

دنیا میں جاکر بندہ کس طرح زندگی گزارے گا ۔ کب؟ کس کو؟ اور کیسے؟ موت آئے گی ۔ یہ سب لوح محفوظ میں درج ہے ۔

ـــــــ

خودکشی ایک فعل حرام ہے۔ جس کا مرتکب آخرت میں سخت سزاؤں سے دوچار ہوگا۔ ان کی تفصیلات قرآن واحاديث میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔

ـــــــ

یہ دونوں قابلِ قبول باتیں ہیں. جن کو سامنے رکھ کر یہ سمجھنا چاہیے کہ :

خودکشی کرنے والے نے، دنیا میں آنے کے بعد، اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے صحیح وغلط راستوں میں سے غلط راستے کا انتخاب کیا ہے ۔ اور اسی غلطی کی سزا آخرت میں پائے گا ۔

چوں کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے ہی یہ بات موجود تھی کہ یہ بندہ دنیا میں پہنچ فلاں غلط راستے (خود کشی) کا انتخاب کرے گا۔ اور فلاں عمر میں پہنچ کر کرے گا ۔ لہٰذا

اس کو “” خاموشی”” سے لوح محفوظ میں درج فرمادیا۔ یہ نہ اس پر جبر ہے، نہ کسی طرح کا ظلم ہے ۔ نہ خودکشی قبل از وقت موت کی کوئی صورت ۔

ـــــــ فلسفۂ تقدیر اگر سمجھ چکے ہیں. تو پھر یہ سمجھنا مشکل نہیں. واللہ تعالٰی اعلم

ـــــــ از :

فیضان سرور مصباحی

١١ / ذوقعدہ ١٤٤١ھ