(۴) سزا ور جزا کیوں

۱۳۴۔ عن محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قیل لعلی بن أبی طالب کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم:اِن ہہنا رجلایتکلم فی المشیئۃ فقال :یا عبداللہ! خلقک اللہ لما شآء أو شئت ،قال : لما شآء ،قال : فیمیتک اذ ا شاء أو اذا شئت ؟ قال: بل اذا شآء، قال : فید خلک حیث شاء أو حیث شئت ؟ قال ،حیث شاء، قال : واللہ لو قلت غیر ہذا لضربت الذی فیہ عیناک بسیف، ثم تلا علی ، وما تشاء ون الا ان یشاء اللہ ،ہو اہل التقوی و اہل المغفرۃ ۔فتاوی رضویہ ۱۱/۱۹۸

حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت مولی علی سے عرض کی گئی: کہ یہاں ایک شخص مشیت میں گفتگو کرتا ہے، مولی علی نے اس سے فرمایا : اے خدا کے بندے ! خدا نے تجھے اس لئے پیدا کیا جس لئے اس نے چاہا، یا اس لئے جس لئے تونے چاہا؟ بولا: جس لئے اس نے چاہا ،فرمایا : تجھے جب وہ چاہے بیمار کرتا ہے، یاجب تو چاہے ؟ کہا :بلکہ جب وہ چاہے،فرمایا ـ: تجھے اس وقت وفات دے گا جب وہ چاہے یا جب تو چاہے؟ بولا: جب وہ چاہے،فرمایا تو تجھے وہاں بھیجے گا جہاں وہ چاہے یا جہاں تو چاہے ؟ بولا: جہاں وہ چاہے،فرمایا : خدا کی قسم! تو اسکے سوا کچھ اور کہتا تو یہ جس میں تیری آنکھیں ہیں یعنی تیرا سر تلوار سے مار دیتا ۔پھر مولی علی نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ۔ اور تم کیا چاہو مگر یہ کہ اللہ چاہے ۔وہ تقوی کا مستحق اور گناہ عفو فرمانے والا ہے۔

]۲[ امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں

خلاصہ یہ کہ جو چاہا کیا،اور جو چاہے گا کریگا ۔ بناتے وقت تجھ سے مشورہ نہ لیا تھا،بھیجتے وقت بھی نہ لیگا ۔تمام عالم اسکی ملک ہے اورمالک سے دربارئہ ملک سوال نہیں ہو سکتا ۔

ابن عسا کر نے حارث ہمدانی سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے آکر امیر المؤمنین حضرت مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے عرض کی : یا امیر المؤمنین ! مجھے مسئلہ تقدیر سے خبر دیجئے، فرمایا : تاریک راستہ ہے اس میں نہ چل ،عرض کی : یاامیرالمؤمنین !مجھے خبر دیجئے،فرمایا : گہرا سمندر ہے اس میں قدم نہ رکھ ۔ عرض کی : یا امیر المؤمنین مجھے خبر دیجئے ۔ فرمایا : اللہ کا رازہے تجھ پر پوشیدہ ہے اسے نہ کھول ۔ عرض کی : یاامیر المؤمنین ! مجھے خبر دیجئے ، فرمایا :

ان اللہ خلقک کما شاء او کما شئت ۔ اللہ نے تجھے جیسا اس نے چاہا بنایا ،یا جیسا تونے چاہا ؟ عرض کی: جیسا ا س نے چاہا،فرمایا :فیستعملک کما شاء او کما شئت ، تو تجھ سے کام ویسا لے گا جیسا کہ وہ چاہے ،یا جیسا تو چاہے؟ عرض کی : جیسا وہ چاہے،فرمایا:فیبعثک یوم القیامۃ کما شاء او کما شئت؟ تجھے قیامت کے دن جس طرح وہ چاہے اٹھائے گا ،یا جس طرح تو چاہے؟ کہا جس طرح وہ چاہے،فرمایا : ایہا السائل! تقول : لاحول ولا قوۃ الابمن۔اے سائل !تو کہتاہے: کہ نہ طاقت ہے نہ قوت ہے مگر کس کی ذات سے ؟ کہا : اللہ علی عظیم کی ذات سے ، فرمایا : تو اس کی تفسیر جانتا ہے ؟ عرض کی : امیر المؤمنین کو جو علم اللہ نے دیا ہے اس سے مجھے تعلیم فرمائیں ،فرمایا : ان تفسیرہا لا یقدر علی طاعۃ اللہ و لایکون قوۃ معصیۃ اللہ فی الامرین جمیعا الاباللہ ۔اسکی تفسیر یہ ہے کہ نہ طاعت کی طاقت ، نہ معصیت کی قوت،دونوں اللہ ہی کے دئے سے ہیں ۔ پھر فرمایا : ایہا السائل! الک مع اللہ مشیۃ او دون اللہ مشیۃ ؟ فان قلت ان لک دون اللہ مشیۃ ،فقد اکتفیت بہا عن مشیۃ اللہ و ان زعمت ان لک فوق اللہ مشیئۃ فقد ادعیت مع اللہ شرکا فی مشیتہ۔

اے سائل !تجھے خدا کے ساتھ اپنے کام کا اختیا ر ہے یا، بے خدا کے؟اگر تو کہے کہ بے خدا کے تجھے اختیا ر حاصل ہے ،تو تونے ارادئہ الہیہ کی کچھ حاجت نہ رکھی جو چاہے خود اپنے ارادے سے کریگا ، خدا چاہے یانہ چاہے ۔ اور یہ سمجھے کہ خدا سے اوپر تجھے اختیار حاصل ہے ،توتو نے اللہ کے ارادے میں اپنے شریک ہونے کا دعوی کیا ۔ پھر فرمایا : ایہا السائل!ان اللہ یشج ویداوی ،فمنہ الداء و منہ الدواء ،اعقلت عن اللہ امرہ۔

اے سائل !بے شک اللہ زخم پہونچاتا ہے اور اللہ ہی دوا دیتا ہے ۔ تو اسی سے مرض ہے اور اسی سے دوا ۔ کیوں تو نے اب تو اللہ کا حکم سمجھ لیا ،اس نے عرض کی : ہاں، حاضرین سے

فرمایا:

الآن اسلم اخو کم فقو مواو صافحوا

اب تمہارا یہ بھائی مسلمان ہوا ۔ کھڑے ہو اس سے مصافحہ کرو ۔ پھر فرمایا:

ان رجلا من القدریۃ لاخذت برقبۃ ثم ازال اجوئہا حتی اقطعہا فانہم

یہود ہذہ الا مۃ و نصاراہا و مجوسہا۔

اگر میرے پاس کوئی شخص ہو جو انسان کو اپنے افعال کا خالق جانتا اور تقدیر الہی سے وقوع طاعت و معصیت کا انکار کرتا ہو تو میں اس کی گردن پکڑ کر دبوچتا رہوں گا یہاں تک کہ

الگ کاٹ دوں ۔ اس لئے کہ وہ اس امت کے یہودی ،نصرانی ،اور مجوسی ہیں ۔

یہودی اس لئے فرمایا کہ ان پر خدا کا عذاب ہے اور یہود مغضوب علیہم ہیں

اور نصرانی و مجوسی اس لئے فرمایا کہ نصاری تین خدا مانتے ہیں ۔ مجوس یزدان اور اہرمن دو خالق مانتے ہیں ۔ یہ بیشمار خالقوں پر ایمان لارہے ہیں کہ ہر جن و انس کو اپنے اپنے افعال کا خالق

گار ہے ہیں ۔ و العیاذ باللہ رب العالمین ،

یہ اس مسئلہ میں اجمالی کلام ہے۔ مگر انشاء اللہ تعالیٰ کافی ووافی اور صافی و شافی جس سے ہدایت والے ہدایت پائیں گے ۔ اور ہدایت اللہ ہی کے ہاتھ ۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَاللّٰہُ سُبْحَانُہٗ وَ تَعَالیٰ أعْلَمُ ۔ فتاوی رضویہ ۱۱/۱۹۹

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۳۴۔ کنز العمال للمتقی، ۱۵۵۹، ۱/۳۴۴