وَاذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلٰى فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالۡحِكۡمَةِؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيۡفًا خَبِيۡرًا ۞- سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 34
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلٰى فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالۡحِكۡمَةِؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيۡفًا خَبِيۡرًا ۞
ترجمہ:
اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتوں اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے ان کو یاد کرتی رہو ‘ بیشک اللہ ہر باریکی کو جاننے والا ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے ؏
تفسیر:
آیت تطھیر سے اہل بیت کا مراد ہونا
حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنواے لوگو ! میں صرف ایک بشر ہوں ‘ عنقریب میرے پاس اللہ کا سفیر آئے گا ‘ اور میں اس کی دعوت کو قبول کروں گا ‘ میں تم میں وہ بھاری چیزیں چھوڑنے والا ہوں ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے ‘ سو تم اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور اس کا دان تھام لو ‘ پھر آپ نے کتاب اللہ پر برانگخیتہ کیا اور اس کی طرف راغب کیا ‘ اور فرمایا دوسری بھاری چیز میرے اہل بیت ہیں ‘ میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں ‘ حصین نے حضرت زید بن ارقم سے پوچھا ! اے زید ! آپ کے اہل بیت کے اہل بیت کو ہیں ؟ کیا آپ کی ازواج مطہرات آپ کی اہل بیت نہیں ہیں ؟ حضرت زید بن ارقم نے کہا آپ کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت سے ہیں لیکن (اس ارشاد میں) آپ کے اہل بیت سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ کرنا حرام ہے ‘ اس نے پوچھا وہ کون ہیں ! انہوں نے کہا وہ آل علی ‘ آل عقیل ‘ آل جعفر اور آل عباس ہیں ‘ اس نے پوچھا ان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٠٨‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨١٧٥)
حضرت جابر بن عبداللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے حج کے موقع پر دیکھا آپ اپنی اونٹنی القصواء پر سوار خطبہ دے رہے تھے ‘ آپ فرما رہے تھے اے لوگو ! میں نے تم میں واپسی چیزیں چھوڑی ہیں کہ اگر تم نے ان کو پکڑ لیا تو تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے اللہ کی کتاب اور میری اولاد میرے اہل بیت۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٦‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٠ ٢٦٨ )
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لے پالک حضرت عمر بن ابی سلمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت حضرت ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی :
انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا۔ (الاحزاب : ٣٣)
اے رسول کے گھر والو ! اللہ صرف یہ ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی نجاست دور رکھے اور تم کو خوب ستھرا اور پاکیزہ رکھے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حسین (رض) کو بلوایا اور ان سب کو ایک چادر میں ڈھانپ لیا ‘ اور حضرت علی (رض) آپ کی پشت کے پیچھے تھے پس آپ نے ان کو بھی اس چادر میں ڈھانپ لیا پھر کہا اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘ تو ان سے (ہرقسم کی) نجاست کو دور رکھنا اور انکو خوب پاکیزہ رکھنا ‘ حضرت ام سلمہ (رض) نے کہا یا رسول اللہ ! آیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں ؟ آپ نے فرمایا تم اپنے مقام پر ہو اور تم میری طرف منسوب ہو ‘ نیک ہو ‘ دوسری روایت میں ہے تم خیر پر ہو۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٧‘ ٣٢٠٥)
حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تم میں اسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے ان کو تھام لیا تو تم میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے ! ان میں سے ایک دوسری سے زیادہ عظیم ہے ‘ ایک کتاب اللہ ہے یہ وہ رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تانی ہوئی ہے اور دوسری میری اولاد ہے میرے اہل بیت ‘ وہ ہرگز ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے حتی کہ وہ دونوں میرے پاس حوض پروارد ہوں گے ‘ پس غور کرو کہ تم میرے بعد ان سے کس طرح پیش آتے ہو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٨‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ص ٥٠٦‘ مسند احمد ج ٣ ص ١٤۔ ١٧۔ ٢٦۔ ٥٩‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٠٢١۔ ١٠٢٧‘ الضعفاء للعقیلی ج ٢ ص ٢٥٠‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٧٨‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٥٦٦‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٣٦٣ )
حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) کو صامام طبرانی کی دیرگ روایات میں حضرت علی کا ذکر بھی ہے) کو ایک کپڑے میں داخل کیا ( حدیث : ٢٦٦٧ میں سیاہ چادر کا ذکر ہے) پھر مرمایا : اے اللہ یہ مرے اہل بیت ہیں ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے بھی ان کے ساتھ داخل فرما لیں ! آپ نے فرمایا تم (بھی) میرے اہل سے ہو۔ دیگر روایات میں الاحزاب : ٣٣ کی تلاوت کا بھی ذکر ہے۔(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٧٣۔ ٢٦٧٢۔ ٢٦٧١۔ ٢٦٧٠۔ ٢٦٦٨۔ ٢٨٨٧٦۔ ٢٦٦٦۔ ٢٦٦٥۔ ٢٦٦٤۔ ٢٦٦٣ )
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ‘ حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے۔(مسند البز اررقم الحدیث : ٢٦١١‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٦٣‘ رقم الحدیث : ٢٦١١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
ابو الحمراء ہلال بن الحارث (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر روز حضرت علی اور حضرت فاطمہ (رض) کے دروازے پر جا کر فرماتے الصلاۃ الصلاۃ (نماز کے لیے اٹھو) انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا (تاریخ دمشق الکبیر ج ٤ ص ١٩٨‘ رقم الحدیث : ١٠٧٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
مصنف کے نزدیک اہل بیت کا ازواج اور اولاد وغیرہ کو شامل ہونا
ہمارے نزدیک اہل بیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات ‘ آپ کی اولاد اور آپ کے رشتہ دار سب داخل ہیں ‘ اولاد اور رشتہ دار داخل ہیں ‘ ہم اس سلسلہ میں پہلے کتب لغت سے نقول پیش کریں گے پھر قرآن مجید کی آیات اور احادیث سے استشاہاد کریں گے اور اس کے بعد علماء کی تصریحات پیش کریں گے فنقول وباللہ التوفیق۔
تصریحات لغت سے اہل بیت کا ازواج اور اولاد وغیرہ کو شامل ہونا
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے نسب ‘ یا دین یا پیشہ یا گھر یا شہر میں شریک اور شامل ہوں ‘ لغت میں کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے گھر میں رہتے ہوں ‘ پھر مجازاً جو لوگ اس کے نسب میں شریک ہوں ان کو بھی اس کے اہل کہا جاتا ہے ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاندان کے لوگوں کو بھی مطلقاً اہل بیت کہا جاتا ہے ‘ جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت میں ہے :
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت (الاحزاب : ٣٣) اے رسول کے گھر والو ! اللہ صرف یہ ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی نجاست کو دور رکھے۔
کسی شخص کی بیوی کو اس کے اہل سے تعبیر کی جاتا ہے اور اہل اسلام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو سب اسلام کے ماننے والے ہوں۔ اور چونکہ اسلام نے مسلم اور کافر کے دریمن نسب کا رشتہ منقطع کردیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے فرمایا :
ینوح انہ لیس من اھلک ج انہ عمل غیر صالح۔ (ھود : ٤٦) اے نوح ! بیشک وہ (آپ کا بیٹا) آپ کے اہل سے نہیں ہے ‘ اس کے عمل نیک نہیں ہیں۔ (المفردات ج ١ ص ٣٧‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)
علامہ محمد بن مکرمہ ابن منظور الافرفیقی المصری المتوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت آپ کی ازواج ‘ آپ کی بیٹیاں اور آپ کے داماد یعنی حضرت علی (رض) ہیں۔
(لسان العرب ج ١١ ص ٢٩‘ نشرادب الحوزۃ ‘ ١٤٠٥ ھ)
علامہ محمد طاہر پیٹنی المتوفی ٩٨٢ ھ لکھتے ہیں :
آپ کی ازواج آپ کے اہل بیت سے ہیں جن کو تعظیما ثقل کہا گیا ہے لیکن یہ وہ اہل بیت نہیں ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔
(مجمع بخار الانوارج ١ ص ١٣٤‘ مکتبہ دارالایمان المدینۃ المنورۃ ‘ ١٤١٥ ھ)
سید محمد مرتضیٰ حسینی زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں :
کسی شخص کی بیوی کو اس کی اہل کہا جاتا ہے ‘ اور اہل میں اولاد بھی داخل ہے ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل آپ کی ازواج ‘ آپ کی بیٹیاں اور آپ کے داماد حضرت علی ہیں۔ (تاج العروس شرح القاموس ج ٧ ص ٢١٧‘ داراحیاء التراث العربی بیروت)
قرآن مجید کی نصوص سے اہل بیت کا ازواج اور اولاد وغیرہ کو شامل ہونا
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ حضرت سارہ کے متلعق قرآن مجید میں ارشاد ہے :
قالوآ اتعجبین من امر اللہ رحمت اللہ و برکتہ علیکم اھل البیت۔ (ھود : ٧٣) تعجب کرتی ہو ! اے اہل بیت ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بیوی کے متعلق ارشاد ہے :
فقال لاھلہ امکثوآ انی انست نارا۔ موسیٰ نے اپنی بیوی سے کہا تم ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ (طہ : ١٠)
عزیز مصر کی بیوی کے متعلق ارشاد ہے :
قالت ما جزآء من اراد باحلک سوء الآ ان یسجن۔ (یوسف : ٢٥) وہ کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی یہی سزا ہے کہ اس کو قید کردیا جائے۔
بیوی اور بچوں کے متعلق ارشاد ہے :
فاستجبنا لہ فکشفنا ما بہ من ضرو اتینہ اھلہ و مثلہم معھم۔ (الانبیا : ٨٤) سو ہم نے ایوب کی دعا سن لی اور ان کو جو تکلیف تھی وہ دور کردی اور ہم نے ان کو اہل و عیال عطا فرمائے اور ان کے ساتھ ان کی مثل بھی۔
وکان یامر اھلہ بالصلوۃ۔ (مریم : ٥٥) اور اسماعیل اپنے بیوی بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔
احادیث صحیحہ کے اطلاقات میں اہل کا ازواج اور اولاد وغیرہ کو شامل ہونا
جب منافقین نے حضرت عائشہ (رض) پر غزوہ بنو المصطلق میں بدکاری کی تہمت لگائی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) کی اس تہمت سے برأت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
یامعشر المسلمین من یعذرنی من رجل قد بلغنی عنہ اذاہ فی اھلی واللہ ماعلمت علی اھلی الاخیر ا۔ اے مسلمانو ! اس شخص کے معاملہ میں میری مدد کون کرے گا جس کی اذیت اب میری بیوی کے متعلق پہنچ چکی ہے ‘ اللہ کی قسم مجھے اپنی بیوی کے متلعق سوا خیر کے اور کسی چیز کا علم نہیں ہے۔
صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٤١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٧٠‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢١٣٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٣٤٧۔ ١٩٧٠)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی اہل (بیوی) سے عمل زوجیت کرتے وقت یہ دعا کرے بسم اللہ اے اللہ شیطان کو ہم سے دور رکھ اور ہم کو جو (بچہ) دے اس کو بھی شیطان سے دور رکھ ‘ پھر ان کے لیے جو بچہ مقدر کیا جائے اس کو شیطان ضرر نہیں پہنچائے گا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٣٤‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢١٦١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٩٢‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٩٠٣٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩١٩)
اسی طرح صحیح مسلم (رقم الحدیث : ٢٤٠٨) کے حوالہ سے یہ حدیث گذر چکی ہے حضرت زید بن ارقم (رض) نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت سے ہیں لیکن ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ‘ اور جن پر صدقہ کرنا حرام ہے وہ اہل بیت آل علی ‘ آل عقیل ‘ آل جعفر اور آل عباس ہیں۔
(اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٧ ص ٤٢٠‘ ١ لمفہم ج ٦ ص ٣٠٥‘ صحیح مسلم بشرح النوادی ج ١٠ ص ٦٣٠٥)
اور اس وضاحت سے ان احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے جن میں سے بعض میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ام سلمہ (رض) سے فرمایا تم اپنی جگہ خیر پر یعنی اہل بیت میں سے نہیں ہو ‘ اور بعض احادیث میں ہے کہ تم اہل بیت میں ہو ‘ یعنی ان اہل بیت میں سے نہیں ہو جن پر صدقہ حرام ہے اور مطلقاً اہل بیت میں سے ہو ‘ روایات کی تفصیل یہ ہے۔
حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ یہ آیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا (الاحزاب : ٣٣) میرے گھر میں نازل ہوئی ‘ میں اس وقت دروازہ پر بیٹھی ہوئی تھی ‘ آپ نے حضرت فاطمہ (رض) سے فرمایا تھم اپنے خاوند اور اپنے دونوں بیٹوں کو بلائو ‘ پھر آپ نے ان سب کو چادر میں داخل کرکے فرمایا : ای اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘ حضرت ام سلمہ نے کہا میں نے چادر اٹھائی تاکہ میں بھی ان میں داخل ہوں تو آپ نے میرا ہاتھ کھینچ کر فرمایا (بعض روایات میں ہے تم الگ رہو) تم تو خیر پر ہو ہی۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٦٢۔ ٢٦٦٤۔ ٢٦٦٦۔ ٢٦٦٨ )
اس روایت کا محمل یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ‘ اور دوسری روایات وہ ہیں جن میں آپ نے حضرت ام سلمہ (رض) سے فرمایا تم اہل بیت سے ہو۔
حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ ‘(دوسری روایات میں حضرت علی کا بھی ذکر ہے) اور حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) کو ایک کپڑے میں داخل کرکے فرمایا : اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘ حضرت ام سلمہ نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے بھی ان کے ساتھ داخل فرمالیں ‘ آپ نے فرمایا تم بھی میرے اہل سے ہو ‘ اور بعض روایات میں ہے تم بھی ہو۔ امام بغوی کی روایت میں ہے : حضرت ام سلمہ نے کہا یا رسول اللہ ! میں بھی اہل بیت میں سے ہوں آپ نے فرمایا کیوں نہیں ! ان شاء اللہ۔
(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٦٣‘ ٢٦٦٥۔ ٢٦٦٧۔ ٢٦٦٩۔ ٢٦٧٠ معالم النزیل ج ٣ ص ٦٣٧‘ شرح السنہ رقم الحدیث ٣٨٠٥)
اہل بیت میں ازواج مطہرات اور آپ کی عترت کے دخول کے متعلق فقہاء اسلام کی عبارات
امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں :
اہل بیت کی تعین میں مختلف اقوال ہیں اولیٰ یہ ہے یہ کہا جائے کہ آپ کے اہل بیت ‘ آپ کی اولاد اور آپ کی ازواج ہیں ‘ اور حضرت حسن اور حضرت حسین اور حضرت علی بھی ان میں سے ہیں ‘ کیونکہ آپ کی بیٹی کی واسطے سے وہ بھی آپ کیا ہل بیت سے ہیں۔(تفسیر کبیر ج ٩ ص ١٦٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں :
ازواج مطہرات اہل بیت سے خارج نہیں ہیں ‘ بلکہ زیادہ ظاہر یہ ہے کہ وہ اہل بیت کے عنوان کی زیادہ مستحق ہیں کیونکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیت (گھر) میں آپ کے ساتھ لازم رہتی تھیں ‘ علامہ ابن عطیہ نے کہا کہ آپ کی ازواج اہل بیت سے خارج نہیں ہیں ‘ پس اہل بیت آپ کی ازواج ہیں ‘ آپ کی بیٹی (حضرت فاطمہ) ان کے بیٹے اور ان کے شوہر ہیں ‘ علامہ زمخشری نے کہا اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج اہل بیت سے ہیں ‘ اور آپ کی ازواج کے گھر وحی نازل ہونے کی جگہیں ہیں۔ (البحر المحیط ج ٨ ص ٤٧٩‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٤ ھ)
علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں :
اس آیت میں اس پر قوی دلیل ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج آپ کے اہل بیت سے ہیں اور اس میں شیعہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ اہل بیت حضرت فاطمہ ‘ حضرت علی ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) کے ساتھ مخصوص ہیں کیونکہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیاہ چادر لے کر آئے پھر حضرت فاطمہ ‘ حضرت علی ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین کو اس چادر میں داخل کرکے یہ آیت پڑھی : انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ‘ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ حضرات اہل بیت سے ہیں ‘ اس پر دلالت نہیں کرتی کہ ان کے علاوہ دیگر حضرات اہل بیت سے نہیں اور اگر بالفرض اس کی یہ دلالت ہو بھی تو قرآن مجید کی اس نص صریح کے مقابلہ میں اس روایت کا اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ یہ آیت ازواج مطہرات کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (روح البیان ج ٧ ص ٢٩٧‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
قاضی ابو السعود محمد بن محد العماری الحنفی المتوفی ٩٨٢ ھ اور قاضی عبداللہ بن عمر البیضادی الشافعی متوفی ٦٨٥ ھ نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی تقریر کی ہے۔ (تفسیر ابی السعود ج ٥ ص ٢٢٥‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ ‘ تفسیر بیضاوی مع حاثیۃ الشہباب ج ٧ ص ٤٨٧‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
امام ابن جریر ‘ امام ابن ابی حاتم اور امام طبرانی نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ آیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ‘ میرے متعلق ‘ علی کے متعلق ‘ فاطمہ ‘ حسن اور حسین کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ اس روایت میں حضر کا لفظ نہیں ہے اور عدد میں مفہوم مخالف معتبر نہیں ہوتا ‘ اور شاید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پانچ کا خصوصیت سے اس لیے ذکر فرمایا کہ یہ افضل اہل بیت ہیں اور یہ تقریر اس مفروضہ کی بناء پر ہے کہ یہ حدیث صحیح ہو اور مجے ظن غالب یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص ٤ ہ ‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
مشکوۃ : ٦١٨٦ میں صحیح مسلم کے حوالے سے یہ حدیث ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صبح سیاہ چادر اوڑھی ہوئی تھی ‘ آپ کے پاس حضرت حسن بن علی آئے تو آپ نے انکو اس چادر میں داخل کرلیا ‘ پھر حضرت حسین آئے تو وہ بھی اس چادر میں داخل ہوگئے ‘ پھر حضرت فاطمہ آئیں تو آپ نے ان کو اس سیاہ چادر میں داخل کرلیا ‘ پھر حضرت علی آئے تو ان کو بھی اس چادر میں داخل کرلیا (رضی اللہ عنہم) پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا (الاحزاب : ٣٣)
اس کی تشریح میں ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :
اس حدیث میں دلیل ہے کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں کیونکہ اس آیت سے پہلے بھی ازواج مطہرات سے خطاب سے ینسآ النبی لسنتن کا حد من النسآء ( الاحزاب : ٣٢) اور اس آیت کے بعد بھی ازواج مطہرات سے خطاب ہے واذکرن مایتلی فی بیوتکن من آیت اللہ والحکمۃ (الاحزاب : ٣٤) (مرقات ج ١٠ ص ٥٠٨‘ مکتبہ خقانیہ پشاور)
الحمد للہ ہم نے کتب لغت ‘ قرآن مجید کی آیات ‘ احادیث اور فقہاء اسلام کی عبارات سے واضح کردیا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عترت اور آپ کے داماد حضرت علی سب داخل ہیں اس لیے شیعہ علماء کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اہل بیت کا لفظ صرف ان پانچ نفوس قدسیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اب ہم شیعہ علماء کی عبارت پیش کررہے ہیں۔
شیعہ علماء کے اس اعتراض کا جواب کہ اہل بیت کے ساتھ مذکر کی عبارت ضمائر کیوں لائی گئیں
شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی المتوفی ٤٦٠ ھ اور شیخ طبرسی لکھتے ہیں :
حضرت ابو سعید الخدری ‘ حضرت انس بن مالک ‘ حضرت عائشہ ‘ حضرت ام سلمہ اور حضرت واثلہ بن الاسقع (رضی اللہ عنہم) بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت (انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلا کر اپنی سیاہ چادر میں داخل فرمالیا اور فرمایا اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان سے نجاست کو دور کر دے اور ان کو خوب پاک کردے ‘(الی قولہ) عکرمہ نے کہا یہ آیت خصوصیت کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے متعلق ہے اور یہ غلط ہے ‘ کیونکہ اگر یہ آیت ازواج کے متعلق ہوتی تو اس میں مؤنث کے صیغے ہوتے جیسے اس سے پہلے وقرن فی بیوتکن اور ولا تبرجن اور اطعن اللہ اور اقمن وغیر ھا میں ہیں۔(التبیان فی تفسیر القرآن ج ٨ ص ٣٤٠‘ ملخصا داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ مجمع البیان ج ٨ ص ٥٥٩‘ دارالمعرفہ بیروت)
شیخ الطائفہ کے اس عتراض کا جواب یہ ہے کہ اہل بیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی داخل ہیں اور جب کسی جملہ میں مذکر اور مؤنٹ دونوں ہوں تو مذکر صیغے لائے جاتے ہیں مؤنث نہیں لائے جاتے اس لیے لیذھب عنکم الرجس فرمایا اور لیذھب عنکن الرجس نہیں فرمایا ‘ اور اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اہل بیت الفظاً مذکر ہے اور معنی مونث ہے اور ضمیروں کے لانے میں لفظ کی رعاییت ہوتی ہے معنی کی نہیں ہوتی۔
شیعہ علماء کا اہل بیت کی عصمت کو ثابت کرنا اور اس کا جواب
شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی المتوفی ٤٦٠ ھ لکھتے ہیں :
ہمارے اصحاب نے اس آیت (الاحزاب : ٣٣) سے یہ استدلال کیا ہے کہ اہل بیت کی جماعت میں ایسے معصوم ہیں جن سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی اور ان کا جماع ہمیشہ صحیح ہوتا ہے ‘ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ نے اہل بیت سے نجاست کو دور کرنے کا اور ان کو پاکک کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو گناہوں سے مجتنب رکھنے اور ان سے اطاعت اور عبادت کرانے کا ارادہ فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ تو تمام مکلفین سے فرمایا ہے اور اس ارادہ کی اہل بیت کے ساتھ کوئی خصوصیت نہیں ہے ‘ بلکہ اہل بیت کی خصوصیت تب ہوگی جب اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ایسے لطف کا ارادہ کرے جس کی بناء پر ان سے معصیت کا صدور ممتنع اور محال ہوجائے اور اسی وجہ سے اس آیت کو اہل بیت کی مدح میں پیش کرنا درست ہوگا اور اس سے واضح ہوگیا کہ اس آیت میں اہل بیت کی عصمت کا ثبوت ہے۔(التبیان فی تفسیر القرآن ج ٨ ص ٤٣٠‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
شیخ ابو علی الفضل بن السحن الطبرسی نے بھی اہل بیت کی عصمت کے ثبوت میں یہی تقریر کی ہے۔ (مجمع البیان ج ٨ ص ٥٦٠‘ بیروت ‘ ١٤٠٦ ھ)
شیعہ مفسرین کی یہ دلیل حسب ذیل وجوہ سے مردود ہے :
(١) اس آیت میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جس کا یہ تقاضا ہو کہ نجاست کو دور کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا آل رسول کی خصوصیت ہے اور کسی اور کسی اور کو یہ وصف نہیں دیا گیا اور اس آیت کا سیاق وسباق ازواج مطہرات کی مدح کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ آل رسول کی ‘ اس لیے اگر اس وصف کی خصوصیت ہوگی بھی تو وہ ازواج مطہرات کے ساتھ ہوگی نہ کی آل رسول کے ساتھ۔
(٢) عصمت کا یہ معنی نہیں ہے کہ معصوم سے گناہ کا صدور ممتنع اور محال ہو ورنہ اس کو گناہوں کے ترک کرنے کا مکلف کرنا یا اطاعت کرنے کا مکلف کرنا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ مکلف اس کام کا کیا جاتا ہے ہے جس کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہو ‘ جیسے پتھروں اور درختوں کو عبادت کرنے اور گناہوں کو ترک کرنے کا مکلف نہیں کیا گیا ‘ اور جب اہل بیت اس معنی میں معصوم ہیں کہ ان کے لیے نیکی کو تر کرنا اور برائی کا ارتکاب کرنا ممکن نہیں ہے تو ان کا عبادت کرنا اور گناہوں سے بازرہنا تعریف اور تحسین کا موجب بھی نہیں ہوگا جیسے دیواروں کی اس بات پر تعریف نہیں کی جاتی کہ وہ شراب نہیں پیتیں اور زنا نہیں کرتیں۔
(٣) اگر اہل بیت معصوم ہیں اور ان کا گناہ رکنا ممکن نہیں ہے تو پھر اس آیت کا نازل کرنا عبث اور بےفائدہ ہوگا کیونکہ جب وہ گناہوں سے معصوم ہیں اور ان سے گناہ ہو ہی نہیں سکتے تو پھر اس کہنے کا کیا فائدہ ہے کہ اللہ اہل بیت کو گناہوں سے مجتنب کرنے اور پاک کرنے کا ارادہ فرماتا ہے۔
(٤) اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ فرماتا ہے اس کا ہونا لازم اور ضروری ہوگا یا نہیں ہوگا اگر اس کا ہونا لازم اور ضروری نہیں ہے تو پھر اہل بیت کا گناہوں سے پاک ہونا بھی لازم اور ضروری نہیں ہوگا اور اس سے اہل بیت کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہوگا ‘ اور اگر اس کا پورا ہونا لازم اور ضروری ہو تو پھر لازم آئے گا کہ تمام مسلمانوں کو معصوم مانا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وضو ‘ غسل اور تیمم کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج و لکن یرید لیطھرکم ولیتم نعمتہ علیکم۔ (المائدہ : ٦) اللہ تم کو کسی قسم کی تنگی میں ڈالنا نہیں چاہتا لیکن وہ تم کو پاک کرنے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کرنے کا ارادہ فرماتا ہے۔
بلکہ اس آیت سے اہل بیت کی تطہیر کی بہ نسبت عام مسلمانوں کی عصمت زیادہ مئوکد طریقہ سے ثابت ہوگی کیونکہ اس میں مسلمانوں کو صرف گناہوں سے پاک کرنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ ان پر اپنی نعمت کو مکمل کرنے کا بھی ذکر ہے کیونکہ آیت تیمم غزوۃ المریسیع ٦ ھ میں نازل ہوئی ہے۔ (الاسذکا رج ٣ ص ١٤١) اور غزوہ بدر ٢ ھ میں ہوا ہے۔
ازواج مطہرات کا احادیث کو پہنچانا
اس کے عبد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتوں اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے ان کو یاد کرتی رہو بیشک اللہ ہر باریکی کو جاننے والا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے (الاحزاب : ٣٤)
اس آیت میں بھی ازواج مطہرات سے خطاب فرمایا ہے کہ تمہارے گھروں میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور حکمت پر مشتمل جن آیات کو تلاوت کیا جاتا ہے ‘ اور تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو احادیث سنتی ہو اور آپ کے جن افعال اور احوال اور آپ کے جن خصائل اور شمائل کا مشاہدہ کرتی رہو ‘ یعنی پہلے ان آیات اور احادیث سے اپنے اندر کمال پیدا کرو اور پھر ان آیات اور احادیث اور سنن سے دوسروں کی تکمیل کا ذریعہ بنو۔
اللہ کی آیات سے مراد قرآن مجید کی آیات بھی ہوسکتی ہیں اور اس سے وہ نشانیاں دلائل اور معجزات بھی مراد ہوسکتے ہیں ‘ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں جیسے حضرت خدیجہ (رض) نے فرمایا :
ہرگز نہیں ! اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی بھی ہرگز شرمندہ ہونے نہیں دے گا ‘ کیونکہ آپ رشتہداروں سے ملاپ رکھتے ہیں ‘ لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ‘ ناداروں کو مال کما کردیتے ہیں ‘ مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں اور راہ حق کی مشکلات میں مدد کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٣٩٢)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی جوتی کی مرمت کرلیتے تھے ‘ اپنے کپڑے سی لیتے تھے اور جس طرح تم میں سے کوئی شخص گھر کے کام کرتا ہے ‘ اس طرح آپ گھر کے کام کرلیتے تھے۔
(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٨٩‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٤٩٢‘ مسند احمد ج ٦ ص ١٠٦)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طبعاً گو تھے نہ تکلفاً ذ نہ راستے میں بلند آواز سے بات کرنے والے تھے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور در گزر کرتے تھے۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠١٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٣٣٠‘ مسند احمد ج ٦ ص ١٧٤)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب تک اللہ کی حدود کو نہ توڑا جائے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کسی زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا اور جب اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی حد کو توڑا جائے تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ کسی کو غضب میں نہیں دیکھا اور جب بھی آپ کو دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ انمیں سے زیادہ آسان چیز کو اختیار کرتے بہ شرطی کہ وہ گناہ نہ ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٢٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٢٧‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٨٥‘ شمائل ترمذی رقم الحدیث : ٣٥٠ )
حضرت قتادہ (رض) نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا اے ام المومنین ! مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلق کے متعلق بتائیے ! حضرت عائشہ (رض) نے کہا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں کہا کیوں نہیں ! حضرت عائشہ نے فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق قرآن ہی تو تھا۔ (الحدیث)
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٤٦‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٤٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٠١)
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو جامع اور کامل عبارت میں دیکھنا چاہو تو وہ متن قرآن ہے اور اگر متن قرآن کو انسانی پیکر میں ڈھلا ہوا دیکھنا چاہو تو وہ پیکر مصطفیٰ ہے۔
ان چند مثالوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ ازواج مطہرات اللہ کی ان آیات کا ذکر کرتی تھیں اور ان آیات کو لوگوں کے سامنے بیان کرتی تھیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کیصدق پر دلالت کرتی تھیں نیز ازواج مطہرات قرآن مجید اور سنت نبویہ پر مشتمل احکام بھی حسب ضرورت لوگوں کے سامنے بیان کرتی تھیں۔
کتب احادیث مقبولہ کا حجت ہونا
اس آیت میں کتاب اور حکمت کی تلاوت کا ذکر ہے ‘ قرآن مجید کی متعدد آیات میں کتاب اور حکمت کی تعلیم کا بیان ہے ‘ البقرہ : ١٢٩۔ ١٥١‘ آل عمران ١٦٤ اور الجمعہ : ٢ میں اس کا ذکر ہے۔
حکمت کا معنی ہے ہر چیز کو اس کی مناسب جگہ پر رکھنا ‘ اور قرآن مجید کے حقائق ‘ دقائق اور اسرار اور نکات کو واضح کرنا ‘ اور ان معارف اور احکام کو بیان کرنا جن سے نفوس انسانیہ کی تکمیل ہو ‘ نیز حکمت کا اطلاق حکمت نظری اور حکمت عملی پر بھی ہوتا ہے ‘ اسلام کے عقائد اور نظریات حکمت نظری کے جامع ہیں ‘ اور حکمت عملی سے مرادوہ تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے ایک گھرانے ‘ ایک شہر یا ایک ملک کے لگو برے اعمال سے مجتنب ہوں اور اچھے اعمال سے متصف ہوں۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور آپ کی احادیث حکمت کے ان تمام معانی کی جامع ہیں ‘ اس وجہ سے مفسرین نے کہا ہے کہ ان آیات میں حکمت سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور آپ کی احادیث ہیں۔
ان آیت میں ازواج مطہرات کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ آیات اور حکمت کی باتوں یعنی احادیث کا ذکر کریں ‘ سو اسی وجہ سے ازواج مطہرات لوگوں کے سامنے حسب ضرورت احادیث کو بیان کرتی تھیں ‘ مسند احمد میں حضرت عائشہ (رض) کی ٢٤٣٣ ذ احادیث کی روایت ہے ‘ حضرت حفصہ (رض) کی ٤٨ احادیث کی روایت ہے ‘ حضرت ام سلمہ (رض) کی ٢٨٢‘ حضرت زینب بنت حجش (رض) کی ٤‘ حضرت جویرہ بنت الحارث (رض) کی بھی ٤‘ حضرت میمونہ بن الحارث الھلالیہ (رض) کی ١٠٣ اور حضرت صفیہ کی ١٠ احادیث کی روایت ہے۔
مذکور الصدر تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات (رض) نے اس آیت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ان قرآن مجید کی متعد آیات میں کتاب اور حکمت کی تعلیم کا ذکر ہے اور حکمت سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور آپ کی احادیث ہیں اور ا ادیث کی تعلیم میں احادیث کے حجت ہونے کی دلیل ہے۔
احادیث کے حجت ہونے سے ہماری مراد صرف نفس احادیث کا حجت ہونا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد معروف کتب احادیث خصوصاً کتب احادیث صحیحہ اور مقبولہ کا حجت ہونا ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا ہے ‘ عہد رسالت میں صحابہ کرام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان فیض ترجمان سے براہ راست آپ کے احکام سنتے تھے اور آپ کی اطاعت اور اتباع کرتے تھے ‘ اب سوال یہ ہے کہ بعد کے لوگوں کے لیے آپ کے احکام کی اطاعت اور آپ کی سیرت کی اتباع کا کیا ذریعہ ہے ‘ کیونکہ وہ براہ راست نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے ہیں اور نہ آپ کے ارشادات سنتے ہیں اور ان کے لیے احکام شرعیہ پر عمل کرنے کی صرف یہی صورت ہے کہ وہ ان احادیث مقبولہ پر عمل کریں جو معروف اور مشہور کتب احادیث میں مذکور ہیں ‘ قرآن مجید میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
ھوالذی بعث فی الامین رسول لا منہم یتلوا علیہم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ ق وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین لا واخرین منہم لما یلحقوا بہم ط وھوالعزیز الحکیم (الجمعۃ : ٣۔ ٢) وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کے باطن کو صاف کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور حکمت (سنت) کی تعلیم دیتے ہیں ‘ اور بیشک وہ لوگ اس سے پہلے ضرور کھلی ہوئی گمراہی میں تھے اور ان ہی میں سے دوسروں کو بھی کتاب اور سنت کی تعلیم دیتے ہیں ‘ جو ابھی تک ان پہلوں سے نہیں ملے ‘ اور وہی بہت غالب حکمت والا ہے
اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عہد رسالت و صحابہ کے بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی کتاب اور سنت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا باطن صاف کرتے ہیں ‘ سو بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے کتاب کی تعلیم تو واضح ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید تو قیامت تک مسلمانوں میں باقی اور موجود ہے ‘ پس اگر آپ کی سنت اور آپ کی احادیث کو بھی قیامت تک موجود اور باقی نہ مانا جائے تو یہ آیت صادق نہیں ہوگی ‘ اور بعد کے لوگوں کے لیے آپ کے ارشادات آپ کی سنت اور آپ کی احادیث صرف ان معروف کتب احادیث کی صورت میں موجود ہیں اس لیے اگر ان معروف کتب احادیث کو قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے حجت اور موجو عمل نہ مانا جائے تو بعد کے مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم نہیں ہوگی اور ان کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی اسوہ اور نمونہ نہیں ہوگا اور آپ کی اطاعت اور اتباع کا ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہوگا !
ان کتب احادیث میں بہ شمول مکررات صحیح بخاری میں ٧٥٦٣ احادیث ہیں اور صحیح مسلم میں ٧٤٢٨ احادیث ہیں اور یہ تمام احادیث صحیح ہیں اور سنن ترمذی میں ٣٩٥٦‘ سنن ابودائود میں ٥٢٧٤‘ سنن نسائی میں ٥٧٧٤‘ اور سنن ابن ماجہ میں ٤٣٤١ احادیث ہیں ؎ ١ ان میں اکثر اور غالب احادیث صحیح ہیں اور بعض احادیث کی اسانید حسن ہیں اور یہ احادیث بھی مقبول ہیں اور بہت کم احادیث کی سند ضعیف ہے ‘ جن کی علماء اصول حدیث نے تعیین کردی ہے ان کے علاوہ احدیث صحیحہ کا ایک اور مجموعہ صیح ابن حبان ہے اس میں ٧٤٩١ احادیث ہیں ‘ مسند احمد ( مطبوعہ عالم الکتب) میں ٢٨١٩٩ احادیث ہیں اور دارالحدیث قاہرہ کے نسخہ میں ٢٧٧١٦‘ احادیث ہیں ‘ اور اسی نسخہ میں ا ادیث کی اسنید کی تحقیق کردی گئی ہے اور اس کے حاشیہ میں لکھ دیا گیا ہے کہ کس حدیث کی سند صحیح ہے اور کس حدیث کی سند حسن ہے اور کس حدیث کی سند ضعیف ہے اور کس حدیث پر عمل کرنا واجب ہے اور کس پر عمل کرنا واجب نہیں ہے اور کس حدیث پر عمل کرنے میں فضیلت ہے اور کس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔ مؤسستہ الرسالہ ‘ بیروت نے ٠ ٥ جلدوں پر مشتمل مسند احمد طبع کی ہے ‘ اس میں کل احادیث کی تعداد ٢٧٦٤٧ ہے۔ احادیث کی بہت تحقیق اور تخریج کی ہے۔ حلال اور حرام اور احکام شرعیہ سے متعلق کل احادیث کی تعداد سات ہزار ہے اور یہ احادیث مکررۃ الا سانید ہیں اور ان کی تعداد بلا تکرار نو سو ہے اس کی مزید تفصیل شرح صحیح مسلم ج ١ ص ١٠٠۔ ٩٨ میں ملاحظہ فرمائیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 34