أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَرَدَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِغَيۡظِهِمۡ لَمۡ يَنَالُوۡا خَيۡرًا‌ ؕ وَكَفَى اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ الۡقِتَالَ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيۡزًا ۞

ترجمہ:

اور اللہ نے کافروں کو ان کے دلوں کی جلن کے ساتھ (ناکام و نامراد) لوٹا دیا وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے ‘ اور اللہ مومنوں کے قتال سے خود ہی کافی ہوگیا اور بیشک اللہ بہت قوت والا بہت غلبہ والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ان کے دلوں کی جلن کے ساتھ (ناکام و نامراد) لوٹا دیا وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے ‘ اور اللہ مومنوں کے قتال سے خود ہی کا فی ہوگیا اور بیشک اللہ بہت قوت والا ‘ بہت غلبہ والا ہے اور جن اہل کتاب نے ان حملہ آور مشرکوں کی مدد کی تھی اللہ نے ان کو قلعوں سے اتار لیا اور ان کے دلوں میں رعب طاری کردیا کہ تم ان کے ایک گروہ کو قتل کررہے ہو اور ایک گرو کو قید کررہے ہو (الاحزاب : ٢٦۔ ٢٥ )

اللہ تعالیٰ کا کفار کو غزوہ خندق سے بےنیل مرام لوٹانا 

محمد بن عمر نے حضرت عائشہ (رض) سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ اس آیت میں کفار سے مراد ابوسفیان اور عیینہ بن بدر ہیں ‘ ابو سفیان تہامہ کی طرف لوٹ گئے تھے اور عیینہ نجد کی طرف لوٹ گئے تھے ‘ اور فرمایا : اور اللہ تعالیٰ مومنوں کے قتال سے خود ہی کافی ہوگیا بایں طور کہ اس نے بہت سخت آندھی بھیجی جس سے گھبرا کر کفار بھاگ کھڑے ہوئے اور بنو قریظہ مرعوب ہو کر اپنے قلعوں کی طرف لوٹ گئے۔

حافظ عمادالدین اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے کفار کے لشکروں کے اوپر سخت آندھی اور فرشتوں کے ان دیکھے لشکر بھیجے ‘ یہ اس سے زیادہ سخت آندھی تھی جو قوم عاد کے اوپر بھیجی گئی تھی ‘ اور اگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہ فرمایا ہوتا :

وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیھم۔ (الانفال : ٣٣) 

اور اللہ کی یہ شان نہیں ہے کہ ان کے درمیان آپ کے ہوتے ہوئے ان پر عذاب بھیج دے۔

تو یہ آندھی ان کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینتی ‘ کفار کی متعدد جماعتیں متحد اور متفق ہو کر مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے نکلیں تھیں اس لیے مناسب یہ تھا کہ ان کے اوپر تیز اور تند آندھی بھیجی جائے جو ان کو منتشر اور متفرق کر دے اور ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوجائے ‘ سو یہ ناکام اور نامراد ہو کر اپنے غیظ و غضب میں جلتے بھنتے ہوئے لوٹے اور جس کامیابی اور مال غنیمت لوٹنے کا خواب دیکھ کر آئے تھے وہ چکنا چور ہوگیا اور آخرت کے گناہوں کو جو بوجھ اٹھایا وہ اس پر مستنزاد تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اللہ مومنوں کے قتال سے خود ہی کافی ہوگیا ‘ اس کا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے خلاف لڑنا نہیں پڑا ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہی آندھی بھیج کر ان و واپس بھیج دیا ‘ حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ‘ جو واحد ہے جس کا لشکر غالب ہے ‘ جس نے اپنے بندہ کی مدد کی اور تنہا کافروں کو جماعتوں کو شکست دی اس کے بعد کوئی چیز نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١١٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٢٤ )

حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوۃ الاحزاب کے دن کفار کے خلاف دعاء ضرر کی ‘ آپ نے کہا : اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے ‘ جلد حساب کرنے والے ! اے اللہ ! ان کو شکست دے اور ان کے قدم متزلزل کردے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٩٣٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٤٢‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٦٣١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦٧٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٩٦‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٦٠٢‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٩٥١٦)

نیز اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے : اور اللہ مومنوں کے قتال سے خود ہی کافی ہوگیا ‘ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اللہ نے اب مسلمانوں اور قریش کے درمیان سے قتال اٹھا لیا ہے اور اسی طرح واقع ہوا کہ غزوۃ الاحزاب کے بعد قریش نے مدینہ پر حملہ نہیں کیا ‘ بلکہ مسلمان ان پر ان کے شہروں میں حملے کرتے رہے۔

امام محمد بن اسحاق نے کہا جب مشرکین کی فوجیں خندق کے نواح سے واپس چلی گئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سال کے بعد قریش تم پر حملہ نہیں کریں گے بلکہ تم ان پر حملے کیا کرو گے ‘ سو اس کے بعد قریش نے مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر حملے کرتے رہے حتی کہ اللہ نے مکہ فتح کردیا ‘ امام محمد بن اسحاق نے جو حدیث ذکر کی ہے وہ حدیث صحیح ہے ‘ امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت سلیمان بن صرد (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوۃ الاحزاب کے دن فرمایا : ہم کفار قریش پر حملہ کیا کریں گے وہ ہم پر حملے نہیں کرسکیں گے۔(مسند احمد ج ٤ ص ٢٦٢‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٠٩)

نیز فرمایا : اور اللہ بہت قوت والا ‘ بہت غلبہ والا ہے۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی قوت اور طاقت سے کفار اور مشرکین کو ذلت اور ناکامی کے ساتھ واپس کردیا وہ کسی خیر کو حاصل نہیں کرسکے اور اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو غالب کردیا اور اپنے وعدہ کو سچا کر دکھایا اور اپنے رسول کی مدد فرمائی۔ سو اسی کے لیے حمد ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٥٢٣۔ ٥٢٢‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 25