أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ مَنۡ يَّاۡتِ مِنۡكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضٰعَفۡ لَهَا الۡعَذَابُ ضِعۡفَيۡنِ ‌ؕ وَكَانَ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرًا ۞

ترجمہ:

اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جس نے بھی (بالفرض) کھلی ہوئی معصیت کا کام کیا ‘ اس کو دہرا عذاب دیا جائے گا ‘ اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جس نے بھی (بالفرض) کھلی ہوئی معصیت کا کام کیا اس کو دہرا عذاب دیا جائے گا اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے (الاحزاب : ٣٠)

ازواج مطہرات کا مقام بیان فرمانا 

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات نے زیب وزینت کے اسباب کے حصول کی خواہشوں پر اللہ تعالیٰ کو ‘ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور دار آخرت کو ترجیح دی تو اس کی جزا میں اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت افزائی فرمائی اور ان کے مرتبہ اور مقام کو واضح کرنے کے لیے حسب ذیل آیات نازل فرمائیں :

لایحل تک النسآء من بعد ولآان تبدل بھن من ازواج ولو اعجبک حسنھن الا ماملکت یمن وکان اللہ علی کلی شیء رقیبا (لاحزاب ٥٢ )

اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں ہیں ‘ اور نہ یہ حلال ہے کہ ان کے بدلہ میں آپ دوسری خواتین سے نکاح کریں ‘ خواہ ان کا حسن آپ کو پسند آئے اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔

وماکان لکم ان تؤذوارسول اللہ ولآ ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ط ان ذلکم کان عند اللہ عظیما (الاحزاب : ٥٣ )

اور نہ تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو ایذا پہنچائو اور نہ تم ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو ‘ بیشک اللہ کے نزدیک یہ بہت سنگین بات ہے۔

نیز فرمایا :

ینسآء النبی لستن کا حدمن النسآء۔ اے نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ (الاحزاب : ٣٢)

اسی طرح ان کے مقام کی عظمت اور ان کی شان کی بلندی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جس نے بھی کھلی ہوئی معصیت کا کام کیا اس کو دہرا عذاب دیا جائے گا اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے (الاحزاب : ٣٠)

ازدواج مطہرات پر زیادہ گرفت فرمانے کی توجیہ 

بعض مفسرین نے اس آیت میں فاحشۃ مبینۃ کی تفسیر زنا کے ساتھ کی ہے ‘ لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ منع اس چیز سے کیا جاتا ہے جس کا فعل مقصور ہو اور زنا ایسے قبیح فعل کا ازواج مطہرات سے سرزد ہونا متصور ہی نہیں ہے اس لیے اس آیت میں فاحشہ مبینہ سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معصیت اور آپ کی نافرمانی ہے۔

امام عبدالرحمن بن محمد ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اس سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنا ہے ‘ سوائے نبی کی بیویو ! تم میں سے جس نے بھی نبی کی نافرمانی کی اس کو آخرت میں دگنا عذاب ہوگا ‘ جس طرح تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور نیک عمل کرے تو آخرت میں اس کو دگنا ثواب ہوگا ‘ یعنی ہر نماز ‘ روزے یا صدقہ یا زبان سے تسبیح ‘ تکبیر اور تہلیل پڑھنے سے عام لوگوں کو دس گنا اجرملتا ہے تو تمہیں بیس گنا اجر دیا جائے گا ‘ اسی طرح اگر تم نے (بالفرض) معصیت کا ارتکاب کیا تو آخرت میں اس کی سزا بھی دگنی ہوگی۔

قتادہ نے کہا دگنے عذاب سے یہ مراد ہے کہ اس کو دنیا کا عذاب بھی ہوگا اور آخرت کا بھی۔

حضرت انس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں کہا انبیاء (علیہم السلام) مواخدہ ان کے متبعین سے زیادہ سخت ہوتا ہے ‘ اور علماء کا مواخذہ عوام سے زیادہ سخت ہے ‘ اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کا مواخذہ عام عورتوں سے زیادہ سخت ہے اور ان میں سے جو نیک عمل کرتی ہیں اس کا اجروثواب بھی عام عورتوں کی بہ نسبت دگنا ہوتا ہے۔

(تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٩ ص ٣١٢٩۔ ٣١٢٨‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)

علامہ ابو اسحاق احمد بن محمد الثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ نے بھی لکھا ہے فاحشہ مبینہ سے مراد معصیت ظاہرہ ہے۔

(الکشف و البیان ج ٨ ص ٣٢‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا شرف اور ان کا درجہ اور ان کا مرتبہ اور ان کی فضیلت عام عورتوں سے بہت زیادہ ہے سو جس طرح آزاد کی سزا غلام سے دگنی ہوتی ہے اسی طرح ازواج مطہرات کا مرتبہ چونکہ دوسری خواتین سے زیادہ ہے اس لیے ان پر گرفت بھی اوروں سے زیادہ رکھی ہے ‘ اور یہ وجہ بھی ہے کہ ازواج مطہرات مہبط وحی ہیں ان کے سامنے احکام نازل ہوتے ہیں وہ دن رات معجزات کا مشاہدہ کرتی ہیں ان کے سامنے سوتی جاگتی نبوت اور چلتی پھرتی رسالت ہوتی ہے اس لیے عام عورتوں کی بہ نسبت ان سے نیکی اور پرہیز گاری زیادہ متوقع ہے ‘ ان کو اجر بھی زیادہ دیا جائے گا اور اگر بالفرض وہ کوئی گناہ کریں تو ان کو عذاب بھی دگنادیا جائے گا۔

علامہ ابو الحیان محمد بن یوسف اندلسی غرناطی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں :

فاحشہ مبینہ ( کھلی ہوئی بےحیائی) سے مراد معصیت کبیرہ ہے اور یہ ووہم نہ کیا جائے کہ اس سے مراد زنا ہے ‘ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے معصوم ہیں کہ آپ کی ازواج مطہرات اس فاحشہ کی مرتکب ہوں ‘ اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے فاحشہ کو مبینہ کے ساتھ مقید فرمایا ہے یعنی ایسا گناہ جو ظاہر کھلا ہوا اور علی الاعلان ہو اور زنا ایسا گناہ نہیں ہے جو برسر عام کیا جائے ‘ بلکہ اس گناہہ کو چھپ کر کیا جاتا ہے اور اس کو چھپا یا جاتا ہے ‘ اس لیے یہاں پر فاحشہ سے مراد خاوند کی نافرمانی اور خانگی معاملات میں بےاعتدالی ہے ‘ اور چونکہ ازواج مطہرات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیر سایہ اور آپ کے زیر تربیت رہتی ہیں ‘ ان کے سامنے وحی اترتی ہے اور احکام نازل ہوتے ہیں اور ان کا رتبہ اور مقام عام خواتین سے بہت بلند ہے اس لیے ان پر گرفت بھی بہت سخت ہے ‘ اور اگر بالفرض وہ کوئی گناہ کبیرہ کرلیں تو ان کو دگنا عذاب ہوگا جیسے ان کو نیکیوں پر دگنا اجر دیا جاتا ہے۔ (الحر المحیط ج ٨ ص ٤٧٣‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

علام سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

امام بیھقی نے سنن کبریٰ میں مقاتل بن سلیمان سے روایت کیا ہے کہ یہاں فاحشہ مبینہ سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی ہے یا کوئی ایسا کام کرنا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دشوار ہو یا جس سے آپ کا دل تنگ ہو یا جس کی وجہ سے آپ مغموم ہوں۔ (روح المعانی جز ٢١ ص ٢٧٦‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ لکھتے ہیں :

جیسے کہ شوہر کی اطاعت میں کوتاہی کرنا اور اس کے ساتھ کج خلقی سے پیش آنا کیونکہ بدکاری سے تو اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) کی بیویوں کو پاک رکھتا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 30