أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

هُوَ الَّذِىۡ يُصَلِّىۡ عَلَيۡكُمۡ وَمَلٰٓئِكَتُهٗ لِيُخۡرِجَكُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ ؕ وَكَانَ بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ رَحِيۡمًا ۞

ترجمہ:

وہی ہے جو تم پر رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے (بھی) ‘ تاکہ وہ تم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے ‘ اور وہ مومنوں پر بےحد رحم فرمانے والا ہے

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہی ہے جو تم پر رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے (بھی) تاکہ وہ تم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے اور وہ مومنوں پر بےحد رحم فرمانے والا ہے (الاحزاب : ٤٣ )

اللہ تعالیٰ کے صلوٰۃ نازل کرنے کا معنیٰ

اس آیت میں صلوٰۃ کا لفظ ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی صلوٰۃ کا ذکر ہے ‘ اور جب صلوٰۃ کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے رحمت نازل کرنا ‘ اور جب اس کا فاعل فرشتے ہوں تو اس کا معنی ہوتا ہے مومنوں کے لیے استغفار کرنا ‘ قرآن مجید میں ہے :

الذین یحملون العرش ومن حولہ یسبحون بحمد ربہم ویؤمنون بہ ویستغفرون للذین امنوا۔ (المومن : ٧) 

جو فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو ان کے گرد ہیں وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومنوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔

پس اس آیت کا معنی ہے اللہ تم پر رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے تمہارے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں ‘ اس پر یہ اعتراض ہوگا کہ ایک لفظ سے دو معنوں کا ارادہ کرنا جائز نہیں ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں صلوٰۃ سے مراد ہے مومنوں کے لیے صلاح اور خیر کا ارادہ کرنا اور جب اللہ مومنوں کے لیے خیر کا ارادہ کرے گا تو وہ ان پر رحمت نازل فرمائے گا اور جب فرشتے مومن کے لیے خیر کا اردہ کریں گے تو اس کے لیے استغفار کریں گے۔

مومن پر اللہ کی صلوٰۃ اور رحمت کے آثار میں سے یہ ہے کہ وہ اس کے دل سے بری خواہشوں کو نکال دیتا ہے اور معصیت کے زنگ سے اس کے دل کو صاف کردیتا ہے اور اس کو اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرماتا ہے ‘ اس کو نور معرفت عطا فرماتا ہے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت اس کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو آپکی سیرت متبع بنا دیتا ہے ‘ اور یہ بھی مومن پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ حاملین عرش اور اس کے مقرب فرشتے مومن کے لیے استغفار کرتے ہیں۔

اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے کے محامل 

نیز فرمایا تاکہ وہ تم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے ‘ اس آیت کے اس حصے کے حسب ذیل محامل ہیں :

(١) تاکہ اللہ تم کو شرک ‘ جہالت اور معصیت سے نکال کر ایمان ‘ علم اور اطاعت کی طرف لائے۔

(٢) بشری کثافتوں اور کدورتوں سے نکال کر روحانیت کی جلاء اور صفا کی طرف لائے۔

(٣) حجابات اور ظلمات سے نکال کر مشاہدات اور تجلیات کی طرف لائے۔

(٤) قبروں سے نکال کر میدان حشر کی طرف لائے ‘ استحقاق نار سے نکال کر اپنے فضل اور جنت کی طرف لائے۔

القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 43