وَبَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ بِاَنَّ لَهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ فَضۡلًا كَبِيۡرًا ۞- سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 47
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَبَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ بِاَنَّ لَهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ فَضۡلًا كَبِيۡرًا ۞
ترجمہ:
اور مومنوں کو بشارت دیجئے کہ ان کے لیے اللہ کا بہت بڑا فضل ہوگا
جنت کا حصول اللہ کا بہت بڑا فضل ہے
اسکے بعد فرمایا : اور مومنوں کو بشارت دیجئے کہ ان کے لیے اللہ کا بہت بڑا فضل ہوگا۔
بہت بڑے فضل سے مراد ہے اللہ تعالیٰ مومنوں کو جنت اور اسکی نعمتیں عطا فرمائے گا اور جنت اور اس کی نعمتیں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے جیسا کہ اس آیت میں اس کی تصریح ہے :
والذین امنوا وعملوا الصلحت فی روضت الجنت ج لہم ما یشآ ئون عند ربہم ط ذلک ھوالفضل الکبیر (الشوری : ٢٢ )
اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے وہ جنتوں کے باغوں میں ہوں گے ‘ وہ جو کچھ چاہیں گے وہ ان کو ان کے رب کے پاس ملے گا ‘ یہی بہت بڑا فضل ہے۔
اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دوسری امتوں پر فضیلت اور شرف عطا فرمائے گا۔
اور اس کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جو اجر اور جنت عطا فرمائے گا اس کا سبب ان کے اعمال نہیں ہیں بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صحیح عمل کرو اور صحت کے قریب عمل کرو ‘ اور لوگوں کو بشارت دو ‘ کیونکہ تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا ‘ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ کو بھی نہیں ! فرمایا مجھ کو بھی نہیں ! سوا اس کے کہ اللہ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور (نیک) عمل کرتے رہو اور یاد رکھو کہ اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جس میں زیادہ دوام ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٤٦٧۔ ٦٤٦٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨١٨)
اس حدیث میں اہل سنت کے مذہب پر دلیل ہے کہ کوئی ٹخص جنت اور ثواب کا اپنی عبادت کی وجہ سے مستحق نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کو جنت اور ثواب محض اپنے فضل سے عطا فرماتا ہے ‘ اسپر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیات سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ جنت کا سبب مسلمانوں کے اعمال ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ادخلوا الجنۃ بما کنتم تعملون۔ (النحل : ٣٢) اپنے ان (نیک) کاموں کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جائو جو تم کیا کرتے تھے۔
وتلک الجنۃ التی اور ثتموھا بما کنتم تعملون۔ (الزخرف : ٧٢) یہ وہ جنتیں ہیں جن کے تم اپنے (نیک) اعمال کی وجہ سے وارث کیے گئے ہو۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اعمال دخول جنت کا ظاہری سبب ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فضل جنت میں دخول کا حقیقی سبب ہے ‘ کیونکہ نیک اعمال اور ان کی ہدایت اور ان میں اخلاص اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر نہیں ہوتے اور ان نیک اعمال کو قبول کرنا بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت سے ہوتا ہے۔
سوان آیات میں دخول جنت کی ظاہری سبب کا ذکر کیا گیا ہے اور حدیث مذکور میں دخول جنت کے سبب حقیقی کا ذکر کیا گیا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 47