أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَـكَ اَزۡوَاجَكَ الّٰتِىۡۤ اٰتَيۡتَ اُجُوۡرَهُنَّ وَمَا مَلَـكَتۡ يَمِيۡنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَيۡكَ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِىۡ هَاجَرۡنَ مَعَكَ وَامۡرَاَةً مُّؤۡمِنَةً اِنۡ وَّهَبَتۡ نَفۡسَهَا لِلنَّبِىِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِىُّ اَنۡ يَّسۡتَـنۡكِحَهَا خَالِصَةً لَّـكَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ؕ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا فَرَضۡنَا عَلَيۡهِمۡ فِىۡۤ اَزۡوَاجِهِمۡ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ لِكَيۡلَا يَكُوۡنَ عَلَيۡكَ حَرَجٌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞

ترجمہ:

اے نبی ! ہم نے آپ کے لیے آپ کی ان ازواج کو حلال کردیا ہے ‘ جن کا مہر آپ ادا کرچکے ہیں اور آپ کی ان کنیزوں کو جو اللہ نے آپ کو مال غنیمت سے عطا فرمائی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں ‘ اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالائوں کی بیٹیاں ‘ جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی (وہ بھی آپ کے لیے حلال ہیں) اور وہ مومنہ عورت بھی جس نے اپنا نفس آپ کے لیے ہبہ کردیا ‘ اگر نبی اس کو اپنے نکاح میں لینا چاہیں ‘ یہ حکم صرف آپ کے لیے مخصوص ہے ‘ عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے ‘ بیشک ہم اس چیز کو جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے متعلق فرض کی ہے ‘(آپ کے لیے یہ خصوصی حکم) اس لیے کہ آپ پر کوئی دشواری نہ ہو ‘ اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی ان ازواج کو حلال کردیا ہے جن کا مہر آپ ادا کرچکے ہیں ‘ اور آپ کی ان کنیزوں کو جو اللہ نے آپ کو مال غنیمت سے عطا فرمائی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خلائوں کی بیٹیاں ‘ جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ( وہ بھی آپ کے لیے حلال ہیں) اور وہ مومنہ عورت بھی جس نے اپنا نفس آپ کے لیے ہبہ کردیا ‘ اگر نبی اس کو اپنے نکاح میں لینا چاہیں ‘ یہ حکم صرف آپ کے لیے مخصوص ہے عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے ‘ بیشک ہم اس چیز کو جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں او ان کی کنیزوں کے متعلق فرض کی ہے (آپ کے لیے یہ خصوصی حکم) اس لیے ہے کہ آپ پر کوئی دشواری نہ ہو ‘ اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔ (الاحزاب : ٥٠ )

حضرت ام ہانی کو نکاح کا پیغام دینا 

حضرت ام ہانی بنت ابی طالب (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے نکاح کا پیغام دیا ‘ میں نے آپ کے سامنے (اپنے بچوں والی ہونے کا) عذر پیش کیا ‘ آپ نے میرا عذر قبول فرمالیا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : اے نبی ! ہم نے آپ کے لیے آپ کی ان ازواج کو حلال کردیا ہے ‘ جن کا مہر آپ ادا کرچکے ہیں اور آپ کی ان کنیزوں کو جو اللہ نے آپ کو مال غنیمت سے عطا فرمائی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالائوں کی بیٹیاں ‘ جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی (وہ بھی آپ کے لیے حلال ہیں) اور وہ مومنہ عورت بھی جس نے اپنا نفس آپ کے لیے ہبہ کردیا ‘ اگر نبی اس کو اپنے نکاح میں لینا چاہیں۔ (الاحزاب : ٥٠) حضرت ام ہانی نے کہا سو میں آپ کے لیے حلال نہ تھی کیونکہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی اور میں طلقاً ء میں سے تھی ( فتح مکہ کے بعد آپ نے اہل مکہ سے فرمایا تھا تم طلقاء ہو یعنی آزاد ہو)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢١٤‘ المعجم الکبیر ج ٢٤‘ رقم الحدیث : ١٠٠٧‘ المستدرک ج ٢ ص ٤٢٠‘ سنن کبری للبیھقی ج ٧ ص ٥٤ )

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کا مہر 

حافظ عمادالدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہم نے آپ کے لیے آپ کی ان ازواج کو حلال کردیا ہے جن کے مہر آپ ادا کرچکے ہیں ‘ مجاہد وغیرہ نے بیان کیا آپ کی ازواج کا مہر پانچ سو درہم تھا یعنی 131.25 تولہ چاندی ‘ ماسوا حضرت ام حبیبہ کے ‘ ان کا مہر نجاشی نے چار سو دینا رکھا تا ‘ اور ماسوا حضرت صفیہ بنت حی کے ان کا مہر ان کی آزادی کو قرار دیا گیا تھا ‘ کیونکہ وہ غزوہ خیبر میں قید ہو کر آئیں تھیں آپ نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا اور ان کے آزاد کرنے کو ان کا مہر قرار دیا ‘ اسی طرح حضرت جویریہ بنت الحارث تھیں وہ بنو المصطلق کے قیدیوں میں سے تھیں آپ نے حضرت ثاب تبن قیس بن شماس کو ان کا بدل کتابت ادا کیا اور ان سے نکاح کرلیا۔

اس کے بعد فرمایا : اور آپ کی ان کنیزوں کو آپ کے لیے حلال کردیا جو اللہ نے آپ کو مال غنیمت سے عطا فرمائی تھیں۔

حضرت صفیہ اور حضرت جویر یہ آپ کی ملک میں آئیں آپ نیان کو آزاد کرکے ان سے نکاح کرلیا ‘ اور حضرت ریحانہ بنت شمعون النضر یہ اور حضرت ماریہ قبطیہ جو حضرت ابراہیم کی والدہ تھیں ‘ یہ آپ کی کنیزیں تھیں۔

نکاح کی اجازت کے رشتوں میں اسلام کا متوسط حکم 

نصاری کے ہاں چچا کی بیٹی اور پھوپھی کی بیٹی اور ماموں کی بیٹی اور خالہ کی بیٹی سے نکاح جائز نہ تھا یہ تفریط تھی اور یہود کے ہاں بھائی کی بیٹی اور بہن کی بیٹی سبھی سے نکاح جائز تھا یہ افراط تھا ‘ اسلام نے افراط اور تفریط کو ترک کر کے متوسط حکم دیا ‘ بھانجی اور بھتیجی سے نکاح کو حرام کردیا اور چچا کی بیٹی اور پھوپھی کی بیٹی اور خالہ کی بیٹی اور ماموں کی بیٹی سے نکاح کو جائز قرار دیا جیسا کہ اس آیت میں ہے۔ اور آپ کی چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالائوں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ‘ وہ بھی آپکے لیے حلال ہیں۔

جن خواتین نے اپنے آپکو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نکاح کے لیے پیش کیا 

اس کے بعد فرمایا : اور وہ مومنہ عورت بھی جس نے اپنا نفس آپ کے لیے ہبہ کردیا ‘ اگر نبی اس کو اپنے نکاح میں لینا چاہیں ‘ یہ حکم صرف آپ کے لیے مخصوص ہے ‘ عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔

ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت انس (رض) کے پاس تھا اور ان کے پاس ان کی بیٹی تھی ‘ حضرت انس (رض) نے کہا ایک عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور اس نے اپنے آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پیش کیا ‘ وہ کہنے لگی یارسول اللہ ! کیا آپکو میری ضرورت ہے ؟ حضرت انس کی بیٹی نے یہ سن کر کہا اس عورت میں کس قدر کم شرم و حیا تھی ‘ وہ کیسی بری عورت تھی ! وہ کیسی بری عورت تھی ! وہ کیسی بری عورت تھی ! حضرت انس نے کہا وہ تم سے بہتر تھی ‘ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رغبت کی اور اپنے آپ کو حضور پر پیش کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥١٢٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٠١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٣٨٧١)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ مجھے ان عورتوں پر غیرت آتی (یعنی وہ بری لگتی تھیں) تھی جو اپنے آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پیش کرتی تھیں اور میں کہتی تھی کہ کیا کوئی عورت اپنے آپ کو کسی پر پیش کرسکتی ہے ! پھر جب اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی :

ترجی من تشآء منھن و تؤی الیک من تشآء ط ومن ابتغیت ممن عزلت فلاجناح علیک ط (الاحزاب : ٥١) ان میں سے جس کو آپ چاہیں اپنے پاس سے دور کردیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس رکھیں ‘ اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا ہے ان میں سے جس کو چاہیں پھر طلب کرلیں تو آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔

تب میں نے یہ کہا کہ میں صرف یہ دیکھتی ہوں کہ آپ کا رب آپکی خواہش بہت جلد پوری کردیتا ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٨٨‘ صحیحمسلم رقم الحدیث : ١٤٦٤‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٣١٩٩)

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جس عورت نے اپنے آپ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پیش کیا وہ حضرت میمونہ بنت الحارث ہیں اور مشہور یہ ہے کہ وہ حضرت زینب بنت خزیمہ الا نصاریہ ہیں اور وہی اما المساکین ہیں اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات میں فوت ہوگئیں تھیں ‘ کافی عورتوں نے اپنے آپ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکاح کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا ‘ انمیں ایک خاتون بنو بکر کی تھیں ‘ یہ وہی ہیں جنہوں نے آپکے مقابلہ میں دنیا کو اختیار کرلیا تھا ‘ ایک خاتون بنوالجون کی تھیں یہ وہی ہیں جنہوں نے آپ سے پناہ طلب کی تھی ‘ اور دو قیدی عورتیں تھیں ایک حضرت صفیہ اور دوسری حضرت جویریہ۔ اس کے بر خلاف دوسرا قول یہ ہے کہ آپ کے نکاح میں ایسی کوئی خاتون نہیں تھی جنہوں نے آپ کے ساتھ نکاح کے لیے اپنے آپکو پیش کیا ہو ‘ اس کو امام ابن ابی حاتم نے ازعکمرمہ ازابن عباس روایت کیا ہے ‘ اور امام ابن جریر نے یونس بن بکیر سے روایت کیا ہے جن خواتین نے اپنے آپ کو آپ کے ساتھ نکاح کے لیے پیش کیا تھا ‘ آپ نے ان میں سی کسی کو قبول نہیں فرمایا اور یہ آپ کے لیے مباح تھا اور آپ کے ساتھ مخصوص تھا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

ان اراد النبی ان یستنکحھا۔ (الاحزاب : ٥٠) اگر نبی ان کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں یعنی ان کو پسند کرلیں۔ 

بغیر مہر کے محض ہبہ سے کوئی خاتون عام مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے 

اس کے بعد فرمایا : یہ حکم صرف آپ کے لیے مخصوص ہے ‘ عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ (الاحزاب : ٥٠ )

عکرمہ نے کہا جو عورت اپنا نفس آپ کے علاوہ کسی اور کو ہبہ کرے تو اس کے لیے وہ عورت حلال نہیں ہے ‘ وہ اس وقت تک اس سے نکاح نہیں کرسکتا جب تک اس کا مہر مقرر نہ کرے ‘ اسی طرح مجانہد اور شعبی وغیرھ مانے کہا یعنی اگر کوئی عورت اپنا نفس کسی شخص کو ہبہ کردے تو وہ شخص جب بھی اس کے ساتھ عمل زوجیت کرے گا تو اس پر مہر مثل واجب ہوجائے گا ‘ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنت واثق کے متعلق فیصلہ فرمایا تھا اس نے کسی شخص کو اپنانفس ہبہ کردیا تھا ‘ جب اس کا خاوند فوت ہوگیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کے لیے اس کے خاوند کے ترکہ سے مہرمثل واجب ہوگا اور موت اور عمل زوجیت دونوں مہرمشکل کے اثبات اور اسکی تاکید میں برابر ہیں۔ ہاں اگر کوئی خاتون نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا نفس ہبہ کردے تو آپ پر کسی صورت میں بھی اس کو مہر ادا کرنا واجب نہیں ہے ‘ کیونکہ آپ کے لیے یہ جائز ہے کہ آپبغیرعقد نکاح اور بغر گواہوں اور بغیر ولی کے اور بغر مہر کے ذکر کے کسی خاتون کو اپنی زوجہ قراردیں اور اس کو زوجیت سے مشرف فرمائیں جسا کہ حضرت زینب (رض) کے قصہ میں ہوا ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علاوہ کسی اور کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ بغیرمہر کے اور بغیر ولی اور عقد نکاح کے محض کسی عورت کے ہبہ کرنے سے وہ کسی کی بیوی ہوجائے۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بیشک ہم اس چیز کو جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور ان کی کنیزوں کے متعلق فرض کی ہے۔ (الاحزاب : ٥٠ )

حضرت ابی بن کعب ‘ مجاہد ‘ حسن بصری ‘ قتادہ اور امام ابن جریر نے اس کی تفسیر میں کہا یعنی ہم نے عام مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ چار آزاد مومن عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ہے ‘ اور ان پر مہر کو لازم کیا ہے اور عقد نکاح میں دو مسلمان گواہوں کو لازم کیا ہے اور خود بالغۃ یا سا کے ولی کی رضا مندی کو نکاح کی شرط شرط قرار دیا ہے ‘ اور باندیوں سے حصول لذت میں ان کے لیے کوئی تعداد مقرر نہیں کی اور نہ اس میں مہر کی شرط ہے اور نہ خود باندی کی یا اس کے ولی کی رضا مندی کی شرط ہے۔(تفسیر ابن کثیر ملخصا وموضحا مخرجا ج ٣ ص ٥٤٨۔ ٥٤٦‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

آپ کے خصائص میں سے وہ چیزیں جو صرف آپ پر فرض ہیں امت پر فرض نہیں ہیں 

اللہ تعالیٰ نے بعض احکام شرعیہ خصوصیت سے آپ کے لیے مقرر کیے ‘ بعض چیزیں صرف آپ پر فرض ہیں اور بعض چیزیں صرف آپ پر حرام ہیں اور بعض چیزیں صرف آپ کے لیے جائز اور حلال ہیں اور امت کے دوسرے افراد ان میں آپ کے شریک نہیں ہیں ‘ بعض احکام جو صرف آپ پر فرض ہیں ان کی تفصیل یہ ہے :

(١) بعض علماء کے نزدیک تہجد کی نماز صرف آپ پر فرض تھی اور تاحیات آپ پر تہجد فرض رہی اور صحیح یہ ہے کہ پہلے آپ پر تہجد فرض تھی اور بعد میں اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی ‘ قرآن مجید میں ہے :

ومن الیل فتھجد بہ نا فلۃ لک (الاسرائ : ٧٩) رات کے کچھ حصہ میں تہجد پڑھیں ‘ جو آپ کے لیے نفل ہے۔

(٢) جو مسلمان فقیر ہو اور وہ قرض ادا کیے بغیر فوت ہوجائے تو وسعت اور خوش حالی آنے کے بعد اس کا قرض ادا کرنا اور اس کے اہل و عیال کی کفالت کرنا آپ پر فرض تھا۔

(٣) غیر شرعی امور میں اصحاب رائے سے مشورہ کرنا آپ پر فرض تھا ‘ قرآن مجید میں ہے :

وشاورھم فی الامر۔ (آل عمران : ١٥٩) دنیاوی امور میں ان سے مشورہ کیجئے۔

(٤) اپنی ازواج کو اپنے پاس رہنے یا نہ رہنے اور دنیا اور آخرت میں سے کسی ایک کو اختیار دینا آپ پر فرض تھا۔

(٥) تمام قرآن مجید کا پہنچانا آپ پر فرض ہے قرآن مجید میں ہے :

یایھا الرسول بلغ مآ انزل الیک من ربک ط وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ۔ (المائدہ : ٦٧) اے رسول ! آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے اس کو پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے کار رسالت کو ادا نہیں کیا۔

(٦) قرآن مجید میں جو احکام شرعیہ بیان کیے گئے ہیں ان کو سمجھانا اور ان کو قولاً اور عملاً بیان کرنا بھی آپ پر فرض ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

وانزلنآ الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیھم۔ (النحل : ٤٤) ہم نے آپ کی طرف قرآن مجید کو نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو بیان کریں کہ ان کی طرف کیا نازل کیا گیا ہے۔

(٧) اگر کوئی شخص آپ کے سامنے غلط یا نامناسب بات کہیے یا غلط یا نامناسب کام کرے تو اس کی اصلاح کرنا بھی آپ پر فرض ہے کیونکہ اگر آپ نے اس غلط کام یا غلط بات کی اصلاح نہ کی تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ آپ نے اس غلط کام یا غلط بات کو جائز اور ثابت رکھا ہے۔

(٨) علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ چاشت اور وتر کی نمازیں ‘ اور مسواک کرنا اور قربانی بھی آپ پر فرض تھا 

(الجامع لاحکا القرآن جز ١٤ ص ١٩٢‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

(٩) اگر آپ کا ساتھ کوئی بھی نہ دے پھر بھی اللہ کی راہ میں قتال کرنا آپ پر فرض تھا ‘ قرآن مجید میں ہے :

فقاتل فی سبیل اللہ ج لا تکلف الا نفسک۔ (النسائ : ٨٤) آپ اللہ کی راہ میں قتال کیجئے آپ کے سوا اور کوئی اس حکم کا مکلف نہیں ہے۔

(١٠) جب آپ کے پاس کوئی چیز ہو اور کوئی شخص اس کا سوال کرے تو اس کو دینا آپ پر فرض ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

واما السآئل فلا تنھر۔ (الضحی : ١٠) اور آپ سائل کو مت جھڑکیں۔

(١١) اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرنا بھی آپ پر فرض ہے ‘ قرآن مجید میں ہے :

واما بنعمۃ ربک فحدث۔ (الضحیٰ : ١١) اور آپ اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کیجئے۔

آپ کے خصائص میں سے وہ چیزیں جو صرف آپ پر ———-

حرام یا ممنوع ہیں ‘ امت پر حرام یا ممنوع نہیں ہیں 

اسی طرح بعض چیزیں صرف آپ پر حرام کی گئی ہیں اور وہ آپ کی امت پر حرام نہیں ہیں ‘ ان کی تفصیل یہ ہے :

(١) آپ پر اور آپ کی آل پر زکوۃ لینا حرام کردیا گیا ہے ‘ حدیث میں ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی (رض) نے صدقہ کی کھجوروں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چھوڑو ‘ چھوڑو ‘ اس کو پھینک دو ‘ کیا تم کو معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے اور ایک روایت میں ہے کہ صدقہ ہم پر حرام ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٩١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٦٩‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٦٤٦ )

(٢) نفلی صدقہ بھی آپ پر حرام ہے ‘ البتہ آپ کی آل کو نفلی صدقہ دینا جائز ہے۔

(٣) تکیہ لگا کر کھانا آپ کے لیے جائز نہیں ہے ‘ حدیث میں ہے :

حضرت ابو حجیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تکیہ سے ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھاتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣٩٩‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٧٦٩‘ سنن ترمذی رقم الحدیث ١٨٣٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٦٢‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٨٩٦١‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٠٧٧‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٠٤٧ )

(٤) کچا لہسن ‘ کچی پیاز اور بدبو دار سبزیوں کا کھانا بھی آپ کے لیے جائز نہیں تھا ‘ حدیث میں ہے :

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس آدمی نے کچا لہسن یا کچی پیاز کھائی وہ ہماری مساجد سے دور رہے اور اپنے گھر بیٹھے ‘ آپ کے پاس سبزیاں لائی گئیں آپ نے ان کی بو محسوس کی ‘ آپ نے پوچھا یہ کون سی سبزیاں ہیں ‘ آپ کو بتایا گیا ‘ آپ نے فرمایا یہ تم اپنے بعض اصحاب کو کھلائو ‘ جب آپ نے دیکھا کہ وہ اس کی کھانے کو ناپسند کررہے ہیں تو آپ نے فرمایا تم لوگ کھائو کیونکہ میں ان سے ہم کلام ہوتا ہوں جن سے تم ہم کلام نہیں ہوتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٥٥‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٨٢٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٨٠٦‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٨٠٧‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٦٤٤‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٥٣٧٣)

علامہ قرطبی نے لکھا ہے : (٥) آپ پر باطن کے خلاف ظاہر کرنا حرام ہے (٦) آپ پر ازواج کو بدلنا حرام ہے (٧) آزاد مکانبہ سے نکاح کرنا آپ پر حرام ہے (٨) باندی سے نکاح کرنا آپ پر حرام ہے (٩) آپ پر بڑھنا اور لکھنا حرام ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے (١٠) کفار کو اللہ تعالیٰ نے جو دنیاوی نعمتیں دی ہیں ان کی طرف نظر پھیلا کر دیکھنا آپ پر حرام ہے ‘ قرآن مجید میں ہے :

ولا تمدن عینیک الی ما متعنا بہ ازوا جامنہم زھرۃ الحیوۃ الدنیا (طہ : ١٣١) اور آپ ان چیزوں کی طرف آنکھیں پھیلا کر نہ دیکھیں جو ہم نے کافروں کے مختلف گروہوں کو دی ہیں یہ محض دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ١٤ ص ١٩٣‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

آپ کے خصائص میں سے وہ چیزیں جو صرف آپ پر حلال ہیں امت پر حلال نہیں ہیں 

اور جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے خاص آپ کے لیے حلال کی ہیں ان کی تفصیل یہ ہے :

(١) مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (٢) وصال کے روزے (٣) چار سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرنا (٤) جو عورت اپنا نفس آپ کو ہبہ کرے اس سے بغیر مہر ادا کیے نکاح کرنا (٥) بغیر گواہوں اور مہر کے اور بغیر عقد کے نکاح کرنا (٦) ازواج کے درمیان باری کے وجوب کا ساقط ہونا (٧) کسی باندی کو آزاد کرکے اس کے آزاد کرن کو اس کا مہر قرار دینا (٨) مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونا (٩) مکہ میں قتال کرنا (١٠) کسی کو وارث نہ بنا نا (١١) آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج کا زوجیت پر برقرار رہنا اور ان سے دوسروں کے نکاح کا حرام ہونا (١٢) آپ کی مطلقہ سے بھی دوسروں کے نکاح کا حرام ہونا (١٣) حالت جنابت میں آپ کا مسجد میں داخل ہونا (١٤) ایک ماہ کی مسافت سے آپ کا رعب طاری ہونا۔

انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے اعتبار سے آپ کے خصائص 

(١) تمام روئے زمین کا آپ کے لیے مسجد ہونا (٢) تمام روئے زمین کا آپ کے لیے آلہ تیمم ہونا (٣) مال غنیمت کا آپ کے لیے حلال ہونا (٤) قربانی کا آپ کے لیے حلال ہونا (٥) قیامت تک تمام لوگوں کے لیے آپ کا رسول ہونا (٦) آپ کا خاتم النبیین ہونا (٧) اعمال امت کا آپ پر پیش کیا جانا (٨) آپ کی امت کا سب امتوں سے زیادہ ہونا (٩) قیامت میں سب سے پہلے اٹھنا (١٠) شفاعت کبری کا حصول (١١) مقام محمود کا حصول (١٢) تمام انبیاء سابقین کے معجزات کا حصول (١٣) آپ کے معجزات کا سب نبیوں سے زیادہ ہونا (١٤) آپکے عمزاد کا کلمہ پڑھنا (١٥) تمام مخلوق کی انواع کا آپ پر ایمان لانا (١٦) سب سے کم بعثت کا زمانہ پانا اور سب سے زیادہ پیرو کار چھوڑ کر جانا (١٧) انگلیوں سے پانی کا جاری کرنا (١٨) کنکریوں کا آپ کے ہاتھ میں تسبیح کرنا (١٩) کھجور کے تنے کا آپ کے فراق میں رونا (٢٠) آپ کی شریعت کا تمام شرائع سابقہ کے لیے ناسخ ہونا (٢١) آپ کی شریعت کا غیر منسوخ ہونا (٢٢) شب اسراء میں تمام نبیوں کی امامت فرمانا (٢٣) حمد کا جھنڈا آپ کے ہاتھ میں ہونا (٢٤) تمام نبیوں سے افضل اور ان کا قائد ہونا (٢٥) سب سے پہلے جنت میں داخل ہونا (٢٦) قیامت کے دن تمام نبیوں کا گواہ ہونا (٢٧) اللہ کو دیکھ کر اس کی گواہی دینا (٢٨) حصول وحی کے لیے کسی جگہ جانے کا قصد نہ کرنا بلکہ جس جگہ آپ ہوں وہیں وحی الہٰی کا نازل ہوجانا (٢٩) حیات انسانی کے ہر شعبہ کے لیے اسوہ ‘ نمونہ اور آئیڈیل ہونا (٣٠) دنیا میں اللہ کے دیدار کا حاصل ہونا (٣١) اللہ کا محبوب ہونا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 50