أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اذۡكُرُوۡا اللّٰهَ ذِكۡرًا كَثِيۡرًا ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! اللہ کو بہت یاد کیا کرو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! اللہ کو بہت یاد کیا کرو اور صبح اور شام اس کی تسبیح کیا کرو وہی ہے جو تم پر رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے (بھی) تاکہ وہ تم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے اور وہ مومنوں پر بےحد رحم فرمانے والا ہے جس دن وہ اس سے ملاقات کریں گے تو ان کو سلام پیش کیا جائے گا اور اس نے ان کے لیے عظیم اجر تیار کر رکھا ہے (الاحزاب : ٤٤۔ ٤١ )

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تقوی کا حکم دینے اور آپ کی امت کو ذکر کا حکم دینے کی توجیہ 

اس سورت کے مقاصد میں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ‘ آپ کی ازواج کو اور آپ کی امت کو نیک خصائل اور عمدہ شمائل کی طرف رہنمائی کرنا ہے ‘ الاحزاب : ١میں فرمایا تھا : یا یھا النبی اتق اللہ اے نبی اللہ سے ہمیشہ ڈرتے رہیے ‘ اور الاحزاب، ٢٨ سے الاحزاب : ٣٤ تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کو نیکی ‘ تقویٰ اور ذکر کی تلقین فرمائی ‘ اور الاحزاب : ٤١ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کو یہ ترغیب دی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بہ کثرت یاد کیا کریں۔

آپ کی امت کو یہ حکم دیا کہ وہ اللہ کو یاد کیا کریں کیونکہ مومن بعض اوقات دنیاوی کاموں میں منہمک ہو کر اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے اور آپ کو حکم دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں کیونکہ آپ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے مقرب اور دنیا میں جو شخص جس کا زیادہ مقرب ہوتا ہے وہ اس بےخوف ہوجاتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ رہنمائی فرمائی کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں اور باوجود اس کے کہ آپ کو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل تھا آپ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے ‘ حدیث میں ہے :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو ایسے کام کا حکم دیتے جس کو وہ آسانی سے کرسکتے تھے ‘ مسلمانوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم آپ کی مثل تو نہیں ہیں ‘ بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے بہ ظاہر سب خلاف اولٰ کام معافر فرما دیئے ہیں ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ہوئے حتیٰ کہ آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے آپ نے فرمایا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٠‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢١٦)

حضرت عمر بن ابی سلمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا ‘ آیا روزہ دار بوسہ لے سکتا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ مسئلہ ام سلمہ (رض) سے پوچھو ‘ حضرت ام سلمہ (رض) نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا کرتے ہیں ‘ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے اور پچھلے بہ ظاہر سب خلاف اولیاٰ کام معاف فرما دیئے ہیں ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : سنو ! خدا کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٠٨)

بہ کثرت ذکر کرنے کے متعلق احادیث 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس کو بہ کثرت یا دکریں اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں ‘ اور دائما ً اس کا ذکر کریں ‘ اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے جو شخص شب بیداری کی مشقت اٹھانے سے عاجزہو اور جو شخص اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے بخیل ہو اور اللہ کے دشمنوں سے جہاد کرنے میں بزدل ہو وہ بہ کثرت اللہ کا ذکرے۔ (مسند البز اور رقم الحدیث : ٣٠٥٣‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١١٢١) مسند بزار کی سند کے راوی صحیح ہیں۔

حضرت انس (رض) کی والدہ نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے وصیت کیجئے ‘ آپ نے فرمایا گناہوں کو چھوڑ دو ‘ یہ سب سے افضل ہجرت ہے ‘ اور فرائض کو دائماً پابندی سے ادا کرو یہ سب سے افضل جہاد ہے ‘ اور بہ کثرت اللہ کا ذکر کرو کیونکہ کثرت ذکر سے زیادہ اللہ کو ‘ کوئی عمل محبوب نہیں ہے۔ (المعجم الکبیر ج ٢٥ ص ١٢٩) اس کی سند میں ایک راوی اسحاق بن ابراہیم ضعیف ہے۔

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے وصیت کیجئے ‘ آپ نے فرمایا تم حتی الوسع اپنے اوپر خوف خدا کو لازم کرلو ‘ اور ہر شجر وہجر کے پاس اللہ کا ذکر کرو ‘ اور تم کو (اپنے) جس برے کام کا علم ہو تو فوراً اللہ سے توبہ کرو ‘ پوشیدہ گناہ کی توبہ کرو اور ظاہر گناہ کی ظاہر توبہ کرو۔ (المعجم الکبیر ج ٢٠ ص ١٥٩) اس حدیث کی سند حسن ہے۔

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس قدر کثرت سے اللہ کا ذکر کرو کہ لوگ کہیں یہ دیوانہ ہے۔(مسند احمد ج ٣ ص ٧١۔ ٦٨‘ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ١٣٧٦‘ صحیح ابن احبان رقم الحدیث : ٨١٧) اس حدیث کی ایک سند کے روای ثقہ ہیں۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کا اتنا زیادہ ذکر کرو کہ منافق یہ کہیں کہ یہ ریا کار ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٢٧٨٦‘ الاولیاء ج ٣ ص ٨١۔ ٨٠)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 41