اللہ کی تقدیر
۱۳۷۔ عن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما قال :اِن عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ خرج الی الشام حتی اذا کان بسرغ لقیہ اُمراء الأجناد أبو عبیدۃ بن الجراح و أصحابہ فأخبرہ أن الوباء قد وقع بالشام، قال عبد اللہ بن عباس : فقال عمر : اُدع لی المہاجرین الأولین فدعاہم فاستشارہم و أخبرہم أن الوباء قد وقع بالشام، فاختلفوا فقال بعضہم: قد خرجت لأمر و لانری أن ترجع عنہ ۔و قال بعضہم: معک بقیۃ الناس و أصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و لا نری أن تقدمہم علی ہذا الوباء ، فقال : ارتفعوا عنی، ثم قال: اُدع لی الأنصار فدعوتہم فاستشارہم فسلکوا سبیل المہاجرین و اختلفوا کاختلافہم، فقال: ارتفعوا عنی، ثم قال: اُدع من کان ہہنا من مشیخۃ قریش من مہاجرۃ الفتح، فدعوتہم فلم یختلف منہم علیہ رجلان فقالوا: نری أن ترجع بالناس و لا تقدمہم علی ہذا الوباء ، فنادی عمر فی الناس اِنی مصبح علی ظہر فاصبحوا علیہ ، قال أبوعبیدۃ : أفرارا من قدر اللہ؟ فقال عمر : لو غیرک قالہا یاأباعبیدۃ! ، نعم ،نفرمن قدر اللہ الی قدر اللہ ، أ رأیت لو کان لک اِبل ، ہبطت وادیا لہ عدوتان، اِحداہماخصبۃ والاخری جدبۃ، ألیس اِن رعیت الخصبۃ رعیتہا بقدر اللہ ، و اِن رعیت الجدبۃ رعیتہا بقدر اللہ ، قال : فجاء عبد الرحمن بن عوف و کان متغیبا فی بعض حاجتہ فقال : اِن عندی فی ہذا علما ، سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : اِذَا سَمِعْتُمْ بہٖ بِأرْضٍ فَلا تُقَدِّمُوا عَلَیْہٖ وَ اِذَا وَقَعَ بِأرْضٍ وَ أنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًامِنْہٗ قَالَ: فَحَمِدَ اللّٰہَ عُمَرُ وَ انْصَرَفَ ۔فتاوی رضویہ ۱۱/۱۸۳
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ جب بقصد شام وادی تبوک میں قریہ سرغ تک پہونچے تو سرداران لشکر ابو عبیدۃ بن الجراح، خالد بن ولید،ا ور عمرو بن العاص و غیرہم رضوا ن اللہ تعالیٰ علیہم انہیں ملے اور خبردی کہ شام میں وبا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کا بیان ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : مہاجرین اولین کو میرے پاس بلا کر لائو ۔ چنانچہ انہیں بلا کر لایا گیا ۔ آپ نے ان سے مشورہ لیا اور بتایا کہ سر زمین شام میں وبا ہے ۔ یہ سن کر لوگوں میں اختلاف واقع ہوگیا ۔ بعض حضرات کا کہنا تھا: کہ ہم ایک کام کیلئے نکلے ہیں اور اسے انجام دیئے بغیر لوٹنا مناسب نہیں جبکہ بعض حضرات کی رائے یہ تھی کہ آپ کے ساتھ منتخب افراد اوررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں ۔ لہذا مناسب نہیں کہ اس وبا کی طرف پیش قدمی کی جائے، آپ نے فرمایا: میرے پاس سے چلے جائو ، پھر فرمایا: انصار کو بلائو، میں انہیں بلا کر لایا۔ چنانچہ آپ نے ان سے مشورہ کیا تو وہ بھی مہاجرین کے راستہ پر چلے ، ا ن میں بھی اسی طرح اختلاف ہوگیا جس طرح مہاجرین میں ہوا تھا ۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس سے چلے جائو ۔ پھر فرمایا: میرے لئے ان اکابر قریش کو بلا ئو جنہوں نے فتح مکہ کیلئے ہجرت کی ، انہیں بلا یا گیا تو ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہ کیا ، بلکہ متفقہ طورپر کہا: کہ ہماری رائے میں لوگوں کو لے کر لوٹنا چائیے اور اس بلا کی طرف پیش قدمی کرنا صحیح نہیں۔ چنانچہ امیر المؤمنین نے منادی کر ادی کہ کل میں واپسی کیلئے سوار ہوجائونگا ۔ حضرت ابو عبید ہ نے کہا: کیا خدا کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں ؟ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: کاش تمہارے سوا یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی ۔ (یعنی تمہارے علم و فضل سے یہ بعید ہے ) ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر ہی کی طرف بھاگ رہے ہیں ، بھلا بتائوتو تمہارے پاس کچھ اونٹ ہوں ،انہیں لیکر کسی وادی میں اترو جس کے دو کنارے ہوں ،ایک سر سبز دوسرا خشک ، تو کیا یہ بات نہیں ہے کہ تم شاداب میں چرائوگے تو خدا کی تقدیر سے ،اور خشک میںچرائوگے تو خدا کی تقدیر سے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں : اتنے میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لے آئے جو اپنی کسی ضرورت سے تشریف لے گئے تھے۔ ارشاد فرمایا: مجھے اس سلسلہ میں ایک حدیث یادہے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی، کہ جب تم کسی جگہ وبائی بیماری طاعون وغیرہ کی خبر سنو تو وہاں نہ جائو، اور جہاں تم ہو وہاں ہی وبا آجائے تو پھر وہا ںسے راہ فرار اختیار نہ کرو ۔ راوی کہتے ہیں : یہ حدیث سن کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور واپس تشریفلائے ۔ ۱۲م
]۳[ امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں
یعنی بآں کہ سب کچھ تقدیر سے ہے پھر آدمی خشک جنگل چھوڑ کر ہرا بھرا چرائی کیلئے اختیار کرتا ہے ۔ اس سے تقدیر الہی سے بچنا لازم نہیں آتا ۔ یونہی ہمارا اس زمین میں نہ جانا جس میں وبا پھیلی ہے ۔ یہ بھی تقدیر سے فرار نہیں ۔پس ثابت ہوا کہ تدبیر ہرگز منافی توکل نہیں بلکہ صلاح نیت کے ساتھ عین توکل ہے ۔
ہا ں بیشک یہ ممنوع و مذمو م ہے کہ آدمی ہمہ تن تدبیرمیں منہمک ہو جائے اور اسکی درستی میں جاو بے جا، نیک و بد ، حلال وحرام کا خیال نہ رکھے ۔ یہ بات بیشک اسی سے صادر ہوگی جو تقدیر کو بھول کر تدبیر پر اعتماد کر بیٹھا، شیطان اسے ابھارتا ہے کہ اگر یہ بن پڑی جب تو کار برآری ہے ورنہ مایوسی و ناکامی ، ناچار سب این و آں سے غافل ہو کر اسکی تحصیل میں لہو پانی کر دیتا ہے ۔ اور ذلت و خواری، خوشامد و چاپلوسی ، مکر و دغا بازی جس طرح بن پڑے اسکی راہ لیتا ہے حالانکہ اس حرص سے کچھ نہ ہوگا ۔ ہونا وہی ہے جو قسمت میں لکھا ہے ۔ اگر یہ علو ہمت ،صدق نیت، پاس عزت ،اور لحاظ شریعت ہاتھ سے نہ دیتا رزق کو اللہ عزوجل نے اپنے ذمہ لیا جب بھی پہونچتا ۔ اسکی طمع نے آپ اسکے پائوں میں تیشہ مارا اور حرص و گناہ کی شامت نے خسرا لد نیا
و الآخرۃ کا مصداق بنایا ۔ اور اگر بالفرض آبرو کھو کر گنہگار ہو کر دو پیسہ پائے بھی تو ایسے مال پر ہزار تف ، بئس المطاعم حین الذل تکسبہا ÷ القدر منتصب و القدر مخفوض بری خوراک ہے وہ جسے ذلت کی حالت میں حاصل کرو ۔اور اس کہاوت کی مصداق کہ ’’ہانڈی تو چڑھ گئی لیکن عزت گھٹ گئی‘‘ فتاوی رضویہ ۱۱/۱۸۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۳۷۔ الجامع الصحیح للبخاری، الطب ، ۲/۸۵۳ ٭ الصحیح لمسلم ، السلام ، ۲/۲۲۹
المسند لاحمد بن حنبل ، ۵/۲۰۳ ٭