أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُيُوۡتَ النَّبِىِّ اِلَّاۤ اَنۡ يُّؤۡذَنَ لَـكُمۡ اِلٰى طَعَامٍ غَيۡرَ نٰظِرِيۡنَ اِنٰٮهُ وَلٰـكِنۡ اِذَا دُعِيۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمۡتُمۡ فَانْتَشِرُوۡا وَلَا مُسۡتَاۡنِسِيۡنَ لِحَـدِيۡثٍ ؕ اِنَّ ذٰلِكُمۡ كَانَ يُؤۡذِى النَّبِىَّ فَيَسۡتَحۡىٖ مِنۡكُمۡ وَاللّٰهُ لَا يَسۡتَحۡىٖ مِنَ الۡحَـقِّ ؕ وَاِذَا سَاَ لۡتُمُوۡهُنَّ مَتَاعًا فَسۡئَـــلُوۡهُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰ لِكُمۡ اَطۡهَرُ لِقُلُوۡبِكُمۡ وَقُلُوۡبِهِنَّ ؕ وَمَا كَانَ لَـكُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰهِ وَلَاۤ اَنۡ تَـنۡكِحُوۡۤا اَزۡوَاجَهٗ مِنۡۢ بَعۡدِهٖۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ ذٰ لِكُمۡ كَانَ عِنۡدَ اللّٰهِ عَظِيۡمًا ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو ‘ سوا اس کے کہ تمہیں کھانے کے لیے بلایا جائے ‘ کھانا پکنے کا انتظار نہ کرتے رہو ‘ بلکہ جب تمہیں بلایاجائے اس وقت جائو ‘ پھر جب کھانا کھا چکو تو فوراً چلے جائو اور (وہاں) باتوں میں دل نہ لگائو ‘ بیشک تمہارے اس عمل سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے ‘ سو وہ تم سے حیاء کرتے ہیں ‘ اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں رکتا ‘ اور جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو ‘ یہ تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے نہایت پاکیزگی کا باعث ہے ‘ تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کو ایذاء پہنچائو اور نہ یہ جائز ہے کہ نبی کے بعد کبھی بھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو ‘ بیشک اللہ کے نزدیک یہ بہت سنگین بات ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو سوا اس کے کہ تمہیں کھانے کے لیے بلایاجائے ‘ کھانا پکنے کا انتظار نہ کرتے رہو ‘ بلکہ جب تمہیں بلایا جائے اس وقت جائو ‘ پھر جب کھا ا کھا چکو تو فوراً چلے جائو ‘ اور (وہاں) باتوں میں دل نہ لگائو ‘ بیشک تمہارے اس عمل سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے ‘ سو وہ تم سے حیاء کرتے ہیں ‘ اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں رکتا ‘ اور جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو ‘ یہ تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے ‘ تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کوا یذء اپہنچائو اور نہ یہ جائز ہے کہ نبی کے بعد کبھی بھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو ‘ بیشک اللہ کے نزدیک یہ بہت سنگین بات ہے۔ اگر تم کسی بات کو چھپائو یا اس کو ظاہر کرو تو بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ (الاحزاب : ٥٤۔ ٥٣ )

حضرت زینب بنت حجش کے ولیمہ اور آیت حجاب نازل ہونے کے متعلق احادیث 

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کے پاس نیک اور بد ہر قسم کے لوگ آتے ہیں ‘ کاش آپ امہات المومنین کو حجاب میں رہنے کا حکم دے دیں تو اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب کو نازل کردیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٩٠۔ ٤٠٢‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٥٠۔ ١٦٠۔ ١٥٧‘ عالم الکتب بیروت)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح ‘ اللہ نے حضرت زینب بنت حجش (رض) سے کردیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کی دعوت کی ‘ انہوں نے کھانا کھایا پھر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے ‘ اور اس وقت ایسے لگا جیسے آپ جانے لگے ہوں ‘ لیکن مسلمان نہیں اٹھے ‘ جب آپ نے یہ دکھا تو آپ کھڑے ہوگئے ‘ جب آپ کھڑے ہوئے تو مسلمانوں میں سے بھی بعض کھڑے ہوگئے اور تین شخص بیٹھے رہے ‘ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرے میں داخل ہونے کے لیے آئے اور وہ لوگ اسی طرح بیٹھے رہے ‘ پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے ‘ میں نکل کر گیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ کو بتایا کہ وہ لوگ چلے گئے ہیں ‘ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے حتیٰ کہ حجرے میں داخل ہوگئے ‘ میں بھی داخل ہونے لگا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی :

یایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوت النبی (الاحزاب : ٥٣ )

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٢١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٢٨‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢١٨‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٦٩٨)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اہل کے ساتھ شادی کی ‘ میری ماں حضرت ام سلیم (رض) نے حیس (کھجور ‘ گھی اور ستو سے بنایا ہوا کھانا) بنایا ‘ انہوں نے اس کو ایک تھال میں رکھا ‘ اور کہا اے انس ! یہ کھانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے جائو اور کہو کہ یہ کھانا میری ماں ام سلیم نے آپ کے پاس بھیجا ہے وہ آپ کو سلام کہہ رہی ہیں اور کہتی ہیں یا رسول اللہ ! یہ ہماری طرف سے بہت تھوڑا سا کھانا ہے۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں اس کھانے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے گیا اور بتایا کہ میری ماں آپ کو سلام کہہ رہی ہیں اور کہا ہے کہ یہ ہماری طرف سے بہت تھوڑا ساکھانا ہے ‘ آپ نے فرمایا اس کو رکھ دو ‘ پھر فرمایا جائو اور فلاں ‘ فلاں اور فلاں کو بلا کر لائو ‘ اور جن سے تمہاری ملاقات ہو ‘ سو آپ نے کئی لوگوں کے نام لیے ‘ حضرت انس نے کہا آپ نے جن جن کے نام لیے تھے میں نے ان کو بلایا اور جن سے میں ملا ان کو بھی بلایا ‘ ابو عثمان راوی نے حضرت انس سے پوچھا تم لوگوں کی تعداد کتنی تھی ؟ انہوں نے کہا اندازاً تین سو مسلمان تھے اور مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے انس وہ تھال (خوان) لائو ‘ حضرت انس نے کہا پھر مسلمان آئے حتی کہ (صفہ) مسجد نبوی کا چبوترہ اور حجرہ بھر گیا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دس دس افراد کا حلقہ بنا لو اور ہر شخص اپنے آگے سے کھائے ‘ حضرت انس نے کہا ان لوگوں نے کھانا کھایا حتی کہ وہ سیر ہوگئے ‘ پھر مسلمانوں کی وہ جماعت چلی گئی اور دوسری جماعت آگئی حتی کہ سب نے کھانا کھالیا ‘ حضرت انس نے کہا پھر آپ نے مجھ سے فرمایا اب کھانا اٹھا لو ‘ حضرت انس کہتے ہیں مجھے پتا نہیں جس وقت میں نے کھانا رکھا اس وقت زیادہ تھا یا اب زیادہ تھا ‘ لوگوں کے کچھ گروہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے ‘ اور آ پکی زوجہ دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھی ہوئی تھیں ‘ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت پر بوجھ بنے ہوئے تھے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے ‘ اپنی ازواج کو سلام کیا ‘ پھر لوٹ آئے ‘ جب انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوٹ آئے ہیں تو انہوں نے گمان کیا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں ‘ وہ سب دروازے کی طرف لپکے اور سب کے سب آپ کے گھر سے نکل گئے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں آئے حتی کہ آپ نے پردہ ڈال دیا ‘ آپ جس وقت داخل ہوئے تو میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا ‘ آپ تھوڑی دیر تھہرے تھے کہمیے پاس آئے اور آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر آئے اور آپ نے لوگوں کے سامنے یہ آیات پڑھیں : یایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یؤذن لکم الایۃ (الاحزاب : ٥٣ )

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں میں اس وقت لوگوں میں سب سے کم سن تھا جب یہ آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات نے پردہ کرلیا۔ یہ حدیث صحیح ہے۔(صحیح سملم النکاح : ٤٩‘ رقم الحدیث : بلاتکرار : ١٤٢٨‘ الرقم المسلسل : ٣٤٤٤‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢١٨‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥١٦٣‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٣٨٧‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٦٦١٨‘ مسند احمد ٣ ص ١٦٣‘ المستدرک ج ٢ ص ٤١٧)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب بنت حجش (رض) کا ولیمہ کیا اور روٹیوں اور گوش کی دعوت کی ‘ سو مجھے کھانے کی دعوت کا پیغام دے کر بھیجا گیا ‘ مسلمانوں کا ایک گروہ آتا اور کھانا کھا کر چلا جاتا ‘ پھر دوسرا گروہ آتا اور وہ کھانا کھا کر چالا جاتا ‘ سو میں لوگوں کو بلاتا رہا حتی کہ سب لوگ آچکے اور اب بلانے کے لیے کوئی نہیں بچا ‘ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حجرے سے نکل کر حضرت عائشہ (رض) کے حجرے کی طرف گئے ‘ آپ نے فرمایا اے اہل بیت السلام علیکم ورحمتہ اللہ ! حضرت عائشہ نے جواب دیا وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ! آپ نے اپنے اہل (بیوی) کو کبسا پایا ! اللہ آپ کو برکت دے ‘ پھر آپ اپنی تمام ازواج کے حجروں میں گئے اور سب سے اسی طرح کلام کیا جس طرح حضرت عائشہ (رض) سے کلام کیا تھا ‘ اور سب ازواج اسی طرح جواب دیا جس طرح حضرت عائشہ نے جواب دیا تھا ‘ پھر آپ گھر واپس آئے تو تین آدمی ابھی تک گھر میں بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت حیا (لحاظ اور مروت) والے تھے ‘ آپ پھر حضرت عائشہ (رض) کے حجرے کی طرف چلے گئے ‘ مجھے یاد نہیں کہ میں نے آپ کو خبردی تھی یا کسی اور نے کہ وہ لوگ چلے گئے ‘ آپ واپس آئے حتی کہ ابھی آپ کا ایک پیردروازے کی چوکھٹ میں تھا اور دوسرا پیر باہر تھا کہ آپ نے اپنے اور میرے درمیان پردہ لٹکا دیا اور آیت حجاب نازل ہوگئی۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٩٣‘ صحیح مسلم النکاح : ٨٩۔ ٩٣‘ رقم بلاتکرار : ١٤٢٨‘ الرقم المسلسل : ٣٤٣٩۔ ٣٤٤٣۔ ٣٤٤٤ )

حضرت زینب کے ولیمہ کی بعض تفصیلات ‘ ولیمہ کا شرعی حکم اور نزول حجاب کی تاریخ 

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کسی زوجہ کا اتنا وسیع ولیمہ کیا ہو جتنا وسیع ولیمہ آپ نے حضرت زینب بنت حجش (رض) کا کیا تھا۔ (صیحح مسلم النکاح : ٩٠‘ الرقم المسلسل : ٣٤٤٠ )

حضرت زینب بنت حجش (رض) سے نکاح کی خوشی میں آپ نے اتنی عظیم دعوت اللہ کی اس عظیم نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا حضرت زینب کے ساتھ وحی کے ذریعہ نکاح کردیا ‘ اس میں کوئی ولی تھا نہ گواہ تھا نہ مجلس منعقد ہوئی اور نہ کوئی مہر مقرر کیا گیا تھا۔

حضرت انس کی والدہ حضرت ام سلیم (رض) نے اس دعوت کے موقع پر آپ کے لیے طعام بھیجا اس سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے احباب کے لیے اس کے ولیمہ کے موقع پر کھانا بھیجنا مستحب ہے ‘ انہوں نے آپ کو سلا بھیجا اور طعام کے کم ہونے پر معذرت کی اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کے مواقع پر ایسے کلمات کہنا بھی مستحب ہے۔

ان احادیث میں یہ مذکور ہے کہ وہ کھانا اس دعوت میں تین سو سے زائد شرکاء نے کھایا پھر بھی وہ کھانا نہ صرف بچ گیا بلکہ پہلے سے زیادہ تھا اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ظاہر معجزہ تھا۔

صحیح مسلم اور سنن ترمذی میں ہے کہ حضرت انس (رض) کی والدہ نے حضرت زینب بنت حجش کے ولیمہ میں حیس (طعام) بھیجا تھا اور مشہور یہ ہے کہ اس ولیمہ میں روٹی اور گوشت کھلایا گیا تھا ‘ حافظ ابن حجر عسقلانی نے ان میں یہ تطبیق دی ہے کہ اس دعوت میں یہ دونوں چیزیں کھلائی گئیں تھیں۔

امام طبرانی نے وحشی بن حرب سے روایت کیا ہے کہ ولیمہ حق ہے ‘ بعض شافعیہ نے اس حدیث کی بناء پر کہا ولیمہ واجب ہے ‘ لیکن صحیح یہ ہے کہولیمہ سنت یا مستحب ہے ‘ ولیمہ کے وقت میں بھی اختلاف ہے بعض علماء نے کہا کہ یہ عقد نکاح کے وقت سنت ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد سنت ہے۔ (فتح الباری ج ١٠ ص ٢٨٨‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پہلے دن ولیمہ کرنا حق ہے ‘ دوسرے دن کرنا معروف (نیکی) ہے اور تیسرے دن کرنا دکھانا اور سنانا ہے۔

(المعجم الاوسط ج ٣ ص ٧٢‘ رقم الحدیث : ٢١٨٧۔ ٧٢٨٩‘ م مکتبہ المعارف زیاض ‘ ١٤٩٧ ھ)

حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ نے لکھا ہے : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح حضرت زینب بنت حجش (رض) کے ساتھ غزوہ بنو قریظہ کے بعد ذوالقعدہ پانچ ہجری میں ہوا اور اسی تاریخ کو حجاب کے احکام نازل ہوئے۔(البدایہ والنہایہ ج ٣ ص ٣٠٥‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

دینی اور دنیاوی ضرورت کی بناء پر ازواج مطہرات کو اپنے گھروں سے نکلنے کی اجازت 

اس سے پہلے ہم لکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات سے فرمایا :

وقرن فی بیوتکن۔ (الاحزاب : ٣٣) اور اپنے گھروں میں برقرار رہو۔

اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ازواج مطہرات اور دیگر مسلمان خواتین کو گھر سے باہر نکلنے کی مطلقاً اجازت نہیں ہے ‘ ستر اور حجاب کے ساتھ وہ کسی شرعی ‘ طبعی یا دنیاوی ضرورت کی بناء پر گھر سے باہرنکل سکتی ہیں ‘ حج اور عمرہ کے لیے ‘ عیادت کے لیے ‘ علاج کے لیے ‘ اقارب کی زیارت اور ان سے ملاقات کے لیے گھر سے باہر حجاب کے ساتھ جاسکتی ہیں۔ اس کا ثبوت اس حدیث میں ہے :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ حجاب کے احکام نازل ہونے کے بعد حضرت سودہ (رض) کسی کام کے لیے گھر سے باہر نکلیں ‘ وہ قد آور اور جسیم خاتون تھیں جس نے ان کو دیکھا ہو وہ ان کو پہچان لیتا تھا ‘ حضرت عمر بن الخطاب نے ان کو دیکھ کر کہا : اے سودہ ! اللہ کی قسم ! آپ ہم سے مخفی نہیں رہ سکتیں ‘ آپ دیکھ بھال کر گھر سے نکلا کریں ‘ وہ الٹے پیرو واپس آگئیں ‘ اور اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر میں تھے ‘ آپ رات کا کھانا کھا رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی ‘ حضرت سودہ آئیں اور کہا یا رسول اللہ ! میں اپنی کسی حاجت کی بناء پر گھر سے نکلی تھی ‘ مجھ سے عمر نے اس اس طرح کہا ‘ حضرت عائشہ نے کہا اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی نازل کی ‘ پھر وحی کی کیفیت ختم ہوگئی اور آپ نے اپنے ہاتھ ہڈی لے کر رکھ دی ‘ اس کے بعد فرمایا تم کو اپنی حاجتوں کی بناء پر گھر سے نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٩٥۔ ٥٢٣٧‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٧٠‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٤٠٩‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤٧٩٤)

باہر نکلنے پر حضرت سودہ کو حضرت عمر کے دو بار ٹوکنے کی وضاحت 

امام بخاری نے حضرت سودہ کے گھر سے نکلنے اور حضرت عمر کے ان کو آواز دینے کا واقعہ کتاب الوضوئ (رقم لحدیث : ٤٦) میں روایت کیا ہے اور وہاں یہ بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ حجاب کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور یہاں پر یہ بیان کیا ہے کہ یہ حجاب کے احکام نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ دو بار پیش آیا ہو ‘ حجاب سے پہلے بھی اور حجاب کے بعد بھی ‘ اور حضرت عمر (رض) کی مرضی یہ تھی کہ اجنبی لوگ حرم نبوی بالکل مطلع نہ ہوں اگر وہ مستور ہوں پھر بھی ان کی جسامت سے یہ متعین نہ ہو کہ یہ آپ کی زوجہ ہیں ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے مشقت اور حرج کو دور کرنے کے لیے ان کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی۔ (فتح الباری ج ٩ ص ٤٨٨‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات پر جو حجاب فرض ہے وہ عام مسلم خواتین کی بہ نسبت زیادہ سخت اور موکد ہے ‘ عام مسلم خواتین تو گواہی یا علاج کی ضرورت کی وجہ سے اجنبی مردوں کے سامنے چہرے اور ہاتھوں کو کھول سکتی ہیں اور ازواج مطہرات کو اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ (عمدۃ القاری ج ١٩ ص ١٧٧‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

ازواج مطہرات سے پردہ کی اوٹ سے سوال کرنے کا حکم دیگر مسلم خواتین کو بھی متضمن ہے 

یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو یہ ‘ تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے نہایت پاکیزگی کا بعث ہے۔

اس آیت میں جس چیز کے مانگنے کا ذکر فرمایا ‘ اس سے مراد عام برتنے کی چزیں ہیں جن کو لوگ عاریۃ مانگتے ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد فتوی یعنی دینی مسائل کا پوچھنا ہے ‘ ایک اور قول یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد دین اور دنیا کی وہ تمام چیزیں ہیں جن کی ضرورت پیش آتی ہے۔

نیز اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ مسلمان ازواج مطہرات سے پردے کی اوٹ سے دینی مسائل بھی معلوم کرسکتے ہیں اور دنیاوی ضرورت کی چیزیں بھی طلب کرسکتے ہیں ‘ اس اجازت میں عام مسلم خواتین بھی داخل ہیں ‘ کیونکہ عورتیں مجسم چھپائی جانے والی جنس ہیں ‘ ان کا بدن اور ان کی آواز سب مستور ہے بلکہ واجب الستر ہے اور سوا شہادت یا علاج کے ان کے لیے اپنے جسم کے کسی حصہ کو ظاہر کرنا جائز نہیں ہے۔

ہمارے زمانہ میں اسکولوں ‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کا رواج ہے۔ دفتروں اور نجی اور سرکاری اداروں میں عورتیں اور مرد ایک ساتھ کام کرتے ہیں ‘ ان کا آزادانہ میل جول ہوتا ہے اور بےتکلف ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اسلام میں منع نہیں ہے اور چہرے کا پردہ اسلام میں نہیں ہے اور بعض کہتے ہیں بس دل میں پاکیزگی اور خوف خدا ہونا چاہیے اور پردہ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اس آیت کے خلاف ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حجاب میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ عورت کے چہرے کا ستر واجب نہیں ہے یعنی وہ چہریے کو نماز میں کھلا رکھ سکتی ہے اور محارم کے سامنے ظاہر کرسکتی ہے لیکن اجنبی مردوں کے سامنے چہرے کو چھپانا واجب ہے اور یہی حجاب ہے جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے ‘ اسی لیے فرمایا ہے کہ جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو حجاب کی اوٹ سے مانگو حالانکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے متعلق کس کے دل میں کوئی خیال آسکتا ہے ؟

نیز فرمایا تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے نہایت پاکیزگی کا باعث ہے ‘ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کا چہرہ دیکھ کر انسان کے دل میں اچانک اور غیر اختیاری طور پر کوئی بےہودہ خیال آجاتا ہے ‘ یا کوئی ناجائز خواہش پیدا ہوجاتی ہے ‘ اور جب تم ازواج مطہرات پر نگاہ نہیں ڈالو گے تو تمہارا دل و دماغ اس قسم کے خیالات اور خواہشوں سے محفوظ رہے گا۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس بات سے ایذا پہنچی تھی 

اس کے بعد فرمایا اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کو ایذاء پہنچائو اور نہ یہ جائز ہے کہ نبی کے بعد کبھی بھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو ‘ بیشک اللہ کے نزدیک یہ بہت سنگین بات ہے۔

امام ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ بان زید سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی کہ ایک شخص نے یہ کہا ہے کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے تو وہ آپ کی ازواج میں سے فلاں زوجہ کے ساتھ نکاح کرے گا ‘ اس بات سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور یہ بتایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج تمہاری مائیں ہیں اور کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی ماں سے نکاح کرے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢١٨٤٠ )

نیز امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ عامر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوگیا اور آپ کی ملکیت میں قیلہ بنت الاشعث ایک کینز تھی ‘ آپ کے بعد ان سے حضرت عکرمہ بن ابی جہل (رض) نے نکاح کرلیا۔ حضرت ابوبکر (رض) کو یہ بات سخت ناگوار گزری ‘ ان سے حضرت عمر (رض) نے کہا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ! یہ آپ کی ازواج میں سے نہیں ہیں ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے پاس رہنے یا نہ رہے کا اختیار دیا تھا اور نہ ان کو حجاب میں رکھا تھا ‘ اور جب یہ اپنی قوم کے ساتھ مرتدہ ہوگئیں تھیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے برأت کا اظہار کردیا تھا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢١٨٤١ )

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج دنیا اور آخرت میں آپ کی ازواج ہیں 

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ آیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات آپ کے نکاح میں باقی رہیں یا آپ کی وفات سے ان کا نکاح زائل ہوگیا ! اور جب آپ کی وفات سے انکا نکاح زائل ہوگیا تو آیا ان پر عدت ہے یا نہیں ! ایک قول یہ ہے کہ ان پر عدت لازم ہے کیونکہ شوہر کی وفات سے بیوی پر عدت واجب ہوتی ہے اور عدت عبادت ہے ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ ان کی عدت واجب نہیں ہے ‘ کیونکہ عدت اس مدت کو کہتے ہیں جس میں بیویاں کسی دوسرے سے نکاح کرنے سے رکی رہتی ہیں اور کسی دوسرے شخص سے نکاح کا انتظار کرتی ہیں ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج سے کسی دوسرے شخص کا نکاح کرنا جائز نہ تھا ‘ اور وہ بدستور آپ کے نکاح میں تھیں اور آپ کی زوجات تھیں۔ حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے ورثاء میرے دینار کو تقسیم نہیں کریں گے میں نے اپنی ازواج کے خرچ اور اپنے عامل کے معاوضہ کے بعد جو کچھ بھی چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٧٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٦٠‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٩٧٤‘ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢٤٨٨‘ مسند الحمیدی رقم الحدیث : ١١٢٤‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٣٠١‘ عالم الکتب بیروت)

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

علامہ خطابی نے کہا ہے کہ ابن عینیہ یہ کہتے تھے کہ سیدنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج معتدات کے حکم میں تھیں ‘ کیونکہ ان کے لیے کبھی بھی نکاح کرنا جائز نہیں تھا ‘ اسی لیے ان کا خرچ جاری رہا ‘ اور ان کے حجروں کو ان کے لیے باقی رکھا گیا جن میں وہ رہائش رکھتی تھیں۔ (عمدۃ القاری ج ١٤ ص ٩٨‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

اور علامہ ماوردی متوفی ٤٥٠ ھ نے ذکر کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو دنیا میں میری ازواج ہیں وہی آخرت میں میری ازواج ہوں گی۔ (النکت ولعیون ج ٤ ص ٣٧٤‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)

حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر سبب (رشتہ نکاح) اور ہر نسب قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا ‘ سوا میرے سبب اور میرے نسب کے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٣٤۔ ٢٦٣٥‘ حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ٣٤‘ المستدرک ج ٣ ص ١٤٢ قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٤٦٨٤ جدید ‘ سنن کبری ج ٧ ص ١١٤‘ حافظ الھیشمی نے لکھا کہ امام طبرانی کی سند صحیح ہے ‘ مجمع الزوائد ج ٤ ص ٢٧٢)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بیشک اللہ کے نزدیک یہ بہت سنگین بات ہے۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچانا آپ کے بعد آپ کی ازواج سے نکاح کرنا ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کبیرہ گناہوں میں سے قرار دیا اور اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ٢٠٨‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی غرناطی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تعظیم کی خبردی ہے اور یہ بتایا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خواہ حیات ظاہری میں ہوں یا وصال فرماچکے ہوں آپ کی حرمت اور عزت اور آپ کی تعظیم اور تکریم کرنا واجب ہے۔ (البحر المحیط ج ٨ ص ٥٠١‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 53