علما کا کثرت سے انتقال ، عبرت ناک

ہمیں سب چھوڑ چھاڑ کر اب قیامت کی تیاری شروع کردینی چاہیے، یہ فلک بوس عمارتیں، عالی شان بنگلے،آسمان سے باتیں کرتی پہاڑ کی چوٹیوں پر بمے لمبے لمبے پل، یہ سیاروں کی سیر، یہ مشینیں، یہ ایجادات، یہ نت نئی تکنیکیاں، یہ سب ہماری ترقی نہیں، ہماری انتہا کی دلیلیں ہیں، یہ ترقیاں اصل میں زوال کی نشانیاں ہیں۔

موجودہ سال کی طرح، اتنی تیزی سے اہل علم کا کبھی انخلا نہیں ہوا۔ 2020ء دوسری چھوٹی بڑی آفتوں کے ساتھ اس لئے بھی برے دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ اس سال کثرت سے علماے اہل سنت غرباے اسلام کو نہتا چھوڑ کر مالک حقیقی سے جا ملے۔

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعون

بچا کھچا وقت خود احتسابی کا ہے، اپنے گریبان میں جھانکنے اور لائحہ عمل تیار کرنے کا ہے، رجوع الی اللہ کا ہے۔

یاد رکھیے! اللہ کی رحمت جب کسی قوم سے روٹھتی ہے، وہ علماے دین سے محروم کر دی جاتی ہے۔ آج دنیا کی معاشی زوال پر سب کی نظر ہے، غربت و افلاس کی بڑھتی تعداد پرسبھی تشویش میں مبتلا ہیں، دنیا کی ہیجانی کیفیت کا سب علاج ڈھونڈ رہے ہیں؛ لیکن علماے امت اور اہل اللہ کی کثرت انتقال سے، جو علم کی لازوال دولت سے دنیا محروم ہوتی جا رہی ہے، اس کی کسی کو فکر نہیں۔

یاد رکھیے! زوال کا آغاز ہو چکا ہے۔ ؎

قوت و فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے

جب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے

اکابر علما، مشائخ کرام اور مفتیان کرام کی کثرت وفات سے علمی دنیا جو خلا پیدا ہو رہا ہے وہ تو ہے، اس کے علاوہ مندرجہ ذیل انمٹ خسارے ہوئے ہیں:

خوفخدامیں_کمی: با عمل علما اٹھتے جا رہے ہیں، لوگ گناہ میں بے لگام ہو رہے ہیں۔ جو صحیح معنی میں علما تھے، وہ گناہ ہوتے دیکھتے یا سنتے تو بغیر رعایت ڈانتے، ”امر بالمعروف“ اور “نہی عن المنکر“ کا فریضہ انجام دیتے۔ دنیا ”از دل خیزد، بر دل ریزد“ کا عملی نمونہ دیکھتی، ان راسخ علما کی پوری حیات مستعار خوف خدا کا عملی نمونہ ہوتی تھی، انھیں لوگوں کے بارے میں آیا ہے: ”إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ “ (الفاطر: 28) بے شک اللہ سے علما ہی ڈرتے ہیں۔

ذلتورسوائی: علماے اسلام کا شیوہ رہا ہے، وہ ہر زمانے میں معزز رہے ہیں، تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے؛ جب شاہان وقت کے دربار میں علما کا قافلہ حاظر ہوا، سطوت و کرّ و فر، رعب و دبدبہ اور قوت شاہی کے با وجود سلاطین وقت، علما کی عزت و وقار کے سامنے بے بس و بے حس نظر آنے لگے، وقت کے سارے بڑے فیصلے علما کیے ہیں، تاریخ کے سارے اَن سلجھے اور لا ینحل گتھیاں علما کی بیٹھکوں میں سلجھے ہیں، نہایت ظالم و جابر بادشاہوں کو بس میں کرنے کی جرأت علما کی ٹیم کر سکی ہے؛ لیکن افسوس کی بات ہے، نسل نو کے فارغین کی اکثریت ایسی ہے کہ ؎

عالم کہ کامرانی کہ وتن پروری می کند

او خویشتن گمست کرا رہبری کند

جو علما ہم سے رخصت ہو رہے ہیں، وہ اپنے خوشہ چیں، متعلم اور فیض یافتہ چھوڑجاتے ہیں، ان کا بدل اور ان کی نظیر نہیں ملتی، نو فارغین میں اہلیت گھٹ رہی ہے، کمیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، معیار گرتا جاتا رہا ہے، با عمل اور مخلص علما کی پیداوار میں بہت کمی واقع ہو رہی ہے۔ آج کے نو فارغین ”أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ“ کی عملی تفسیر بنتے جا رہے ہیں۔ اخلاص، عمل، زہد و ورع، مجاہدہ، مطالعہ و انہماک کے فقدان نے مدارس میں علمی فیضان کی روح کو یکسر ختم کردی ہے، بے علم، دولت پرست اور فاسق سجادگان نے روحانی تصور اور عرفانی جاذبیت کی روح کو فنا کر دی ہے۔ علامہ اقبال کی دور اندیشی نے بہت پہلے کہا تھا۔ ؎

اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم‌ ناک

نہ زندگی، نہ محبّت، نہ معرفت، نہ نگاہ!

مادہپرستیکی کثرت:

امام ابو الحسن الشاذلی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے: أَرْبَعٌ لَا يَنْفَعُ مَعَهُمْ عِلْمٌ: حُبُّ الدُّنْيَا، وَنِسْيَانُ الْآخِرَةِ، وَخَوْفُ الْفَقْرِ وَخَوْفُ النَّاسِ.

ترجمہ: چار چیزوں کے رہتے ہوئے علم فائدہ نہیں دیتا: دنیا کی محبت، آخرت کو بھول جانا، تنگ دستی کا خوف اور لوگوں کی ملامت کا ڈر۔ (الطبقات الکبرٰی للشعرانی: 309)

جب ان خوبیوں کے پیکر علما اٹھ گئے تو دھیرے دھیرے ساری صفتیں بھی رخصت ہونے لگیں؛ آخر کار دنیا ہوا پرست، مفادی اور ذلیل لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی۔

شرافت میں کمی: قرآن کریم میں آیا: ”هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ“۔ (الزمر، 39) ترجمہ : علم والے اور بے علم برابر ہیں!

اہل علم اپنے ساتھ شرافت، عزت و وقار اور اسلامی وجاہت بھی ساتھ لے جا رہے ہیں۔ سچ ہے۔ ؎

ان کے جو ہم غلام تھے، خلق کے پیشوا رہے

ان سے پھرا، جہاں پھری، آئی کمی وقار میں

اسباب: موت بر حق ہے، جو پیدا ہوا ہے، اسے جانا ہے؛ لیکن اتنی کثرت سے اہل علم و معرفت سے محرومی یقینا قابل ماتم ہے۔ ان شاہا ن زمانہ کی صحبت سے محرومی کے چند اسباب ہیں:

پہلے لوگ ایک ایک حدیث کے لئے دور دراز مقامات کا سفر کرتے تھے، آج سب سے بڑی درس گاہ یوٹیوب ہے، ہماری درسگاہیں خالی پڑی ہیں، علم و فن کے چاند ستارے موجود ہیں، کوئی نہیں آتا، یہی نا قدری زوال امت کا اصل سبب ہے۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ آج علم دین بھی دنیا طلب کرنے کے لئے حاصل کیا جانے لگا۔ جب خلوص ہی نہیں رہا تو علم حلق سے اترے گا کیسے!

شوسل میڈیا نے بھی ہمیں علمی ہستیوں سے دور کرنے میں اہم رول نبھایا ہے، ان کی شایان شان قدر کرنے سے سد راہ بنا ہے۔

وقت سے پہلے ان بزرگ ہستیوں کی قدر کریں، اکابر کی خدمات کو سر چشم سے قبول کرکے انھیں وسعت بھر سراہنے کی کوشش کریں!

چند بچی کھچی شخصیات کو بھی خواہ مخواہ کے اختلافات کی بھینٹ چڑھا کر، انھیں خانوادوں، مشربوں اور حلقوں میں بانٹ دینا بہت بڑی بد نصیبی کے ساتھ ساتھ اللہ کی عظیم نعمتوں سے محرومی ہوگی۔

تحریر:  انصاراحمد مصباحی

رکن ”جماعت رضاے مصطفٰی“ اتر دیناج پور

9860664476 aarmisbahi@gmail.com