اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالۡجِبَالِ فَاَبَيۡنَ اَنۡ يَّحۡمِلۡنَهَا وَاَشۡفَقۡنَ مِنۡهَا وَ حَمَلَهَا الۡاِنۡسَانُؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوۡمًا جَهُوۡلًا ۞- سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 72
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالۡجِبَالِ فَاَبَيۡنَ اَنۡ يَّحۡمِلۡنَهَا وَاَشۡفَقۡنَ مِنۡهَا وَ حَمَلَهَا الۡاِنۡسَانُؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوۡمًا جَهُوۡلًا ۞
ترجمہ:
بیشک ہم نے آسمانوں پر اور زمینوں پر اور پہاڑوں پر (اپنے حکام کی) امانت پیش کی تو انہوں نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کیا اور اس میں خیانت کرنے سے ڈرے، اور انسان نے اس امانت میں خیانت کی بیشک وہ بہت ظلم کرنے والا بڑا جاہل ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک ہم نے آسمانوں پر اور زمینوں پر اور پہاڑوں پر (اپنے احکام کی) امانت پش کی تو انہوں نے اس امات میں خیانت کرنے سے انکار کیا اور اس میں خیانت کرنے سے ڈرے، اور انسان نے اس امانت میں خیانت کی، بیشک وہ بہت ظلم کرنے والا اور بڑا جاہل ہے۔ (الاحزاب : ٧٢)
اس کی تحقیق کہ اس آیت میں ان یحملنھا کا ترجمہ امانت کو اٹھانا ہے یا امانت میں خیانت کرنا ہے
شاہ رفیع الدین متوفی ١٢٣٣ ھ نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے :
تحقیق روبرو کیا تھا ہم نے امانت کو اوپر آسمانوں کے اور زمین کے اور پہاڑوں کے پس انکار کیا سب نے یہ کہ اٹھاویں گے اوس کو اور ڈرے اوس سے اور اٹھا لیا اس کو انسان نے تحقیق وہ تھا بےباک نادان
شاہ عبدالقادر متوفی 1230 ھ نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے :
ہم نے دکھائی امانت آسمان کو اور زمین کو اور پہاڑوں کو پھر سب نے قبول نہ کیا اس کو کہ اٹھاویں، اور اس سے ڈر گئے اور اٹھا لیا اس کو انسان نے یہ یہ ہے بڑا بےترس نادان۔
شیخ محمود حسن دیو بندی متوفی 1339 ھ نے لکھا ہے :
ہم نے دکھلائی امانت آسمانوں کو اور زمین کو اور پہاڑوں کو پھر کسی نے قبول نہ کیا اس کو کہ اٹھائیں اور اس سے ڈر گئے اور اٹھا لیا اس کو انسان نے یہ ہے بڑا بےترس نادان۔
شیخ اشرف علی تھانوی متوفی 1364 ھ لکھتے ہیں :
ہم نے یہ امانت (یعنی احکام جو بمنزلہ امانت کے ہیں) آسمان و زمین اور پہاڑوں کے پیش کی تھی سو انہوں نے اس کی ذمہ داری سیانکار کردیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اپنے ذمہ لیا وہ ظالم ہے جاہل ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی 1340 ھ لکھتے ہیں :
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔
اور ہمارے شیخ سید احمد سعید کاظمی متوفی 1406 ھ قدس سرہ لکھتے ہیں :
بے شک ہم نے امانت پیش کی آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں پر تو وہ اس کے اٹھانے پر آمادہ نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا بیشک وہ بڑی زیادتی کرنے والا نادان تھا۔
ان تمام مترجمین نے فابین ان یحملنھا کا ترجمہ کیا ہے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں نے اس امانت کو اٹھانے سے انکار کردیا اور حمل کا معنی اٹھانا کیا ہے اور ہم نے اس کا ترجمہ کیا ہے : انہوں نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کردیا، ان مترجمین کے ترجمہ پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں کو اللہ تعالیٰ نے با اختیار نہیں بنایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کریں یا نہ کریں، باختیار اللہ نے صرف انسانوں اور جنات کو بنایا ہے، اس لئے آسمانوں اور زمینوں کا اس امانت کو اٹھانے سے انکار کرنا محل اعتراض ہے۔
اور ہم نے اس کا ترجمہ کیا ہے : انہوں نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کردیا، اور اب اس آیت پر یہ اشکال وارد نہیں ہوتا کہ آسمان اور زمین وغیرہ با اختیار نہیں ہیں۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ وحملھا الانسان کا ترجمہ انہوں نے کیا ہے اور انسان نے اس امانت کو اٹھالیا بیشک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی جس امانت کو اٹھانے سے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں نے انکار کردیا تھا اور انسان نے اس امانت کو اٹھا لیا تھا تو انسان کو باعث تحسین و آفرین ہونا چاہیے تھے اس کو اللہ نے بڑا ظالم اور بہت جاہل کیوں فرمایا ؟ اور ہم نے اس کا ترجمہ کیا ہے اور انسا ننے اس امانت میں خیانت کی بیشک وہ بہت ظلم کرنے والا اور بڑا جاہل ہے، کیونکہ حمل کا معنی جس طرح اٹھانا ہے اس طرح حمل کا معنی خیانت کرنا بھی ہے اور اب اس آیت پر کوئی اشکال اور اعتراض نہیں ہے۔
ہم اس آیت کی تفسیر میں پہلے امانت کے متعلق احادیث بیان کریں گے اور اس آیت میں امانت کے متعلق جو آثار اور اقوال ہیں ان کو پیش کریں گے پھر کتب لغت سے حمل کا معنی بیان کریں گے، اس کے بعد جن مفسرین نے حمل کا معنی اٹھان کا کیا ہے ان کا ذکر کریں گے اور ان کی تفسیر پر جو اعتراضات ہیں ان کے جوابات ذکر کریں گے اور ان پر تبصرہ کریں گے اور آخر میں ان مفسرین کا ذکر کریں گے جنہوں نے حمل کا معنی خیانت کیا ہے اور اس تفسیر کو کسی توجیہ کی ضرورت نہیں ہے اور ہمارا ترجمہ بھی اسی تفسیر کے مطابق ہے۔
امانت کے متعلق احادیث
حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں دو حدیثیں بیان فرمائیں، میں ان میں سے ایک کے وقوع کو دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں، آپ نے فرمایا امانت لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں اتار دی گئی ہے، پھر ان کو قرآن کا علم ہوا، پھر ان کو سنت کا علم ہوا، پھر آپ نے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق فرمایا، آپ نے فرمایا : ایک شخص سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی، اور اس کے دل میں امانت کا صرف اثر رہ جائے گا، پھر جب دوبارہ سوئے گا تو یہ نشان (اور مضبوط ہو کر) چھالے کی طرح ہوجائے گا۔ جیسے آگ کی چنگاری تمہارے پائوں پر گرجائے اور اس کی وجہ سے تمہارے پائوں پر چھالا پڑجائے تو اس کو ابھرا ہوا دیکھو گے اور اس کے اندر کوئی چیز نہیں ہوگی، پھر صبح کو لوگ خریدو فروخت کریں گے اور ان میں کوئی شخص امانت کو ادا نہیں کرے گا، اور کہا جائے گا کہ فلاں قبیلہ میں ایک امانت دار شخص ہوا کرتا تھا اور کسی شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ فلاں شخص کتنی عقل والا ہے، کتنے حوصلے والا ہے اور کتنی قوت والا ہے اور اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی امانت داری نہیں ہوگی اور مجھ پر ایک ایسا زمانہ گزر چکا ہے کہ میں یہ پرواہ نہیں کرتا تھا کہ میں کس سے خریدوں گا، اگر وہ مسلمان ہے تو اسلام اس کو (بےانصافی سے) منع کرے گا اور اگر وہ عیسائی ہے تو اس کا پادری اس کو ظلم سے روکے گا اور رہا یہ زمانہ تو اب میں صرف فلاں فلاں (گنتی کے لوگوں) سے چیزیں خریدتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6497 صحیح مسم رقم الحدیث :142، سنن الترمذی رقم الحدیث :2179 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4053 مسند احمد ج ٥ ص 383، مسند احمد رقم الحدیث :23148 دارالحدیث قاہرہ، 1416 ھ)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مت ہیں چار خصلتیں حاصل ہوں تو پھر تم دنیا کسی نعمت سے محروم ہنے پر ملال نہ کرو (١) امانت کی حفاظت کرنا (٢) اچھے اخلاق (٣) سچ بولنا (٤) پاکیزہ کمائی۔ (مسند احمد ج ٢ ص 177، احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث :6652، دارالحدیث قاہرہ)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص تمہارے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کردو اور جو تم سے خیانت کیر اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :1264، سنن الدارمی رقم الحدیث :2600 سنن ابو دائود رقم الحدیث :3535 المستدرک ج ٢ ص 46، سنن بیہقی ج ١٠ ص 271 المعجم الکبیر رقم الحدیث :670 المعجم الصغیر رقم الحدیث :475 حافظ الھیثمی نے کہا اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں)
حضرت شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اپنے دین کی جس چیز کو سب سے پہلے کم پائو گے وہ امانت ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :7182-7183 الاحادیث الصحیحہ للالبانی رقم الحدیث :1739)
آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر جس امانت کو پیش کیا گیا تھ اس کے مصداق میں آثار اور اقوال
امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی 516 ھ نے اس آیت میں امانت کی تفسیر میں حسب ذیل اقوال ذکر کئے ہیں :
(١) حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : نماز پڑھنا، زکواۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، بیت اللہ کا حج کرنا، سچ بولنا قرض ادا کرنا اور ناپ تول درست کرنا امانت ہے اور سب سے بڑی امانت لوگوں کی رکھوائی ہوئی چیزوں کو واپس ہے۔
(٢) مجاہد نے کہا : فرائض اور واجبات ادا کرنا اور محرمات اور مکروہات سے اجتناب کرنا امانت ہے۔
(٣) ابوالعالیہ نے کہا : جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے اور جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے وہ امانت ہیں۔
(٤) روزہ، غسل جنابت اور دیگر پوشیدہ احکام امانت ہیں۔
(٥) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انسان کی شرم گاہ کو پیدا کیا اور فرمایا : میں اس کو تمہارے پاس امانت رکھ رہا ہوں، پس شرم گاہ امانت ہے اور کان امانت ہیں اور آنکھ امانت ہے اور ہاتھ امانت ہیں اور پیرامانت ہیں اور جو امانت دارنہ ہو وہ ایمان دار نہیں ہے۔
(٦) بعض مفسرین نے کہا امانت سے مراد لوگوں کی رکھوائی ہوئی امانتیں ہیں، پس ہر مومن پر واجب ہے کہ وہ کسی مومن کو دھوکا نہ دے اور نہ کسی کم یا زیادہ چیز میں عہد شکنی کرے۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص 668، داراحیاء التراث العربی بیروت، 1420 ھ)
اس امانت کو پیش کرنے کا معنی یہ ہے کہ ان احکام کی حفاظت کی جائے اور ان کو ضائع ہوکنے سے محفوظ رکھا جائے، ان احکام پر عمل کرنے میں اجر وثواب کی توقع ہے اور ان احکام کی خلاف ورزی کرنے میں سزا اور عذاب استحقاق ہے۔
جمادات وغیرہ کی حیات اور ان کے شعور پر قرآن مجید سے استدلال
ایک بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر اس مانت کو پیش کیا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اس امانت کے متعلق کلام کیا حالانکہ وہ جمادات ہیں، بےجان اور بےعقل ہیں تو ان پر احکام پیش کرنے اور ان سے ان احکام کی اطاعت کو طلب کرنے کی کیا توجیہ ہے اس سوال کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) قرآن اور سنت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمادات بہ ظاہر بےعقل اور بےشعور ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں بھی حیات اور عقل اور شعور کو رکھا ہے، قرآن مجید میں ہے :
(الحج :18) کیا آپ نہیں دیکھتے کہ تمام آسمان والے اور تمام زمینوں والے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان، سب اللہ کے سجدہ کرتے ہیں۔
(حم السجدہ : ١١) پھر اللہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ اس وقت دھواں (سا) تھا، سو اس سے فرمایا اور زمین سے فرمایا تم دونوں خوشی سے یا ناخوشی سے آئو، انہوں نے کہا ہم خوشی سے آئے ہیں۔
وان منھا لما یھیط من خشیۃ اللہ (البقرہ : ٧٤) اور بعض پتھر اللہ کے خوف سے گرجاتے ہیں۔
(بنی اسرائیل : ٤٤) سات آسمان اور زمینیں اور جو ھی ان میں ہیں، سب اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے، لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔
(النور : ٤١) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ تمام آسمانوں اور زمینوں والے اور صفت بستہ پرندے، اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں، اور ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے۔
جمادات وغیرہ کی حیات اور ان کے شعور پر احادیث سے استدلال
حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ تم بکریوں اور جنگل سے محبت کرتے ہو، پس جب تم اپنی بکریوں اور اپنے جنگل میں ہو تو بلند آواز سے اذان دیا کرو، کیونکہ موذن کی آواز کو بھی جن یا انسان یا جو چیز بھی سنے گی وہ قیامت کے دن اس کی اذان کی گواہی دے گی۔ (یعنی جمادات اور نباتات میں سے ہر چیز تمہاری اذان کی گواہی دے گی اور ان چیزوں کا گواہی دینا اس پر موقوف ہے کہ وہ ان کو اذان دیتا ہوا دیکھیں اور ان کی اذان سنیں اور دیکنا اور سننا ان کی حیات اور ان کے شعور کی دلیل ہے۔ ) (صحیح البخاری رقم الحدیث :609 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :723، مسند احمد رقم الحدیث :11413 عالم الکتب بیروت)
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مسجد کی چھت کھجور کے شہتیروں کی بنی ہوئی تھی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسلمانوں کو خطبہ دیتے تو کھجور کے ایک شہتیر سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، جب آپ کے لئے منبر بنادیا گیا تو آپ اس پر خطبہ دیتے تھے، تب ہم نے اس شہتیر سے ایسی آواز سنی جیسے دس سال کے حمل والی اونٹنی کے رونے کی آواز آتی ہے، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے اور اس کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ دیا تو وہ شہتیر پر سکون ہو یا (اس شہتیر کا رونا اور آپ کے فراق سے غم زدہ ہونا بھی اس کی حیات اور اس کے شعور کی دلیل ہے۔ ) (صحیح البخاری رقم الحدیث :3585 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :495 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :1124، مسند احمد رقم الحدیث :21295 عالم الکتب بیروت)
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب کھانا کھایا جاتا تھا تو ہم کھانے کی تسبیح کی آواز سنتے تھے (یہ اس طعام کی حیات اور اس کے کلام کرنے کی دلیل ہے۔ ) (صحیح البخاری رقم الحدیث :3579)
حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب کھانا کھایا جاتا تھا تو ہم کھانے کی تسبیح کی آواز سنتے تھے (یہ اس طعام کی حیات اور اس کے کلام کرنے کی دلیل ہے) (صحیح البخاری رقم الحدیث :3579)
حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ کے ایک راستہ میں جا رہا تھا، آپ کے سامنے جو پہاڑ یا درخت آتا تھا وہ یہ کہتا تھا، السلام علیک یا رسول اللہ ! (سنن الترمذی رقم الحدیث :3626، سنن الدارمی رقم الحدیث :21 دلائل النبوۃ للبیھقی ج ٢ ص 153 شرح السنہ رقم الحدیث :3710)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا میں کیسے پہچانوں کہ آپ نبی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اگر میں اس کھجور کے خوشہ کو بلائوں تو تم میرے رسول اللہ ہونے کی شہادت دو گے ؟ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خوشہ کو بلایا تو وہ درخت سے اتر کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے گرگیا ، آپ نے اس سے فرمایا ” لوٹجا “ تو وہ اپنی جگہ پر لوٹ گیا، سو وہ اعرابی مسلمان ہوگیا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث :3628 مسند احمد ج ١ ص 223 سنن الدارمی رقم الحدیث :24 المعجم الکبیر رقم الحدیث :12622 المستدرک ج ٢ ص 620 دلائل النبوۃ للبیھقی ج ٦ ص 15)
حضرت عمر بن الخطاب سے روایت ہے کہ ایک گوہ نے آپ کی نبوت کی شہادت دی اور کہا آپ رب العلمین کے رسول اور خاتم النبین ہیں۔ (المعجم الصغیر رقم الحدیث :948 حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ آلوسی اور مفتی محمد شفیع نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ آپ کے بلانے پر ایک درخت زمین کو شق کرتا ہوا آیا اور آپ کے سامنے کھڑے ہو کر تین بار آپ کی نبوت کی شہادت دی پھر آپ کے حکم سے واپس چلا گیا، یہ دیکھ کر ایک اعرابی مسلمان ہوگیا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :13582 مسند ابویعلی رقم الحدیث :5662 مسند البزار رقم الحدیث :2411 حافظ الھیثمی نے کہا امام طبرانی کی سند صحیح ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث : (14085
حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ہرنی کو آزاد کردیا تو اس نے کہا لا الہ الا اللہ ان کہ رسول اللہ (المعجم الکبیرج ٢٣ ص 331) اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔
حضرت یعلی سے روایت ہے کہ اونٹ نے آپ سیشکایت کی کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے اور اب اس کے مالک اس کو ذبح کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے اس کی شکایت زائل کردی۔ (مسند احمد ج ٤ ص 173)
مامن شیء فیھا الایعلم انی رسول اللہ الا کفرۃ اور فسقۃ الجن والانس۔ روئے زمین کی ہر چیز کو علم ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ماسوا انسانوں اور جنات میں سے کفار اور فساق کے۔ (المعجم الکبیرج ٢٢ ص 261-262 مسند احمد ج ٣ ص 310 مسند البزار رقم الحدیث : ٢٤٥٢ )
ان تمام احادیث میں یہ دلیل ہے کہ تمام جمادات، نباتات اور حیوانات کو اللہ تعالیٰ نے حیات اور شعور عطا فرمایا ہے وہ کلام سمجھتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کا آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں سے کلام فرمانا اور ان کا جواب دینا مستبعد نہیں ہے۔
جمادات سے کلام کرنے کی دوسری توجیہ
آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں سے اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے اور ان کے جواب دینے پر جو یہ اشکال کیا جاتا ہے کہ وہ تو حیات اور عقل و شعور سے عاری ہیں ان سے کلام کس طرح ہوسکتا ہے، اس کا ایک جواب تو دیا جا چکا ہے کہ جمادات اور نباتات وغیرہ میں بھی حیات اور شعور ہے اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ چلو مان لیا ان میں حیات اور شعور نہیں ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان پر امانت پیش کی تو ان کو حیات اور شعور عطا فرما دیا قرآن مجید میں یہ ذکر ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) چیونٹی سے، ہد ہد سے اور دیگر پرندوں سے کلام فرماتے تھے اور جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا چیونٹی وغیرہ سے کلام کرنا مستبعد نہیں ہے تو رب کائنات کا آسمانوں اور زمینوں سے کلام کرنا کیونکہ مستبعد ہوسکتا ہے۔
اس تفصیل کے بعد اب ہم حمل کا معنی بیان کر رہے ہیں ات کہ دلائل کی روشنی میں یہ واضح ہو کہ اس کا معنی امانت کو اٹھانا ہے یا امانت میں خیانت کرنا۔
حمل کا معنی خیانت کرنے پر کتب لغت کی تصریحات
حمل کا مشہور معنی تو اٹھانا، برداشت کرنا اور کسی بات پر ابھارنا ہے اور اس کا معنی خیانت کرنا بھی ہے۔
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم افریقی متوفی 711 ھ لکھتے ہیں :
الزجاج نے کہا : یحملنھا کا معنی ہے یخنھا یعنی آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کیا اور اس میں خیانت کرنے سے ڈرے اور جو شخص کسی کی امانت میں خیانت کرے وہ اس کے بوججھ کو اٹھاتا ہے اسی طرح ہر وہ شخص جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ اس گناہ کو اٹھاتا ہے، حسن نے کہا یہی معنی صحیح ہے۔ (لسان العرب ج ١١ ص 175، مطبوعہ ایران 1405 ھ)
علامہ مجد الدین فیروز آبادی متوفی 817 ھ علامہ محمد طاہر پنٹی متوفی 986 ھ علامہ سید محمد مرتضیٰ حسینی زبیدی متوفی 1205 ھ اور علامہ سعید خوری شرتوتی لبنانی نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ (القاموس الحیط ج ٣ ص 529 مجمع بحارالانوار ج ٢ ص 565، تاج العروس ج ٧ ص 388 اقرب المواروج ١ ص 232)
جن مفسرین نے یحملنھا کا معنی کیا امانت کو اٹھانا
علامہ ابواللیث نصر بن محمد سمر قندی حنفی متوفی 375 ھ نے اس آیت میں یحملنھا کی تفسیر اٹھانے سے کی ہے وہ لکھتے ہیں :
آسمانوں اور زمینوں پر جو امانت کو پیش کیا تھا وہ اختیاراً تھا ایجاباً نہیں تھا، یعنی ان کو اختیار دیا تھا کہ وہ اس امانت کو قبول کریں یا نہ کریں، یہی وجہ ہے کہ اس امانت کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہ گار نہیں ہوئے۔ (تفسیر السمر قندی ج ٣ ص 63، دارالکتب العلمیہ بیروت، 1413 ھ)
علامہ ابوالفرج عبدالرحمان بن علی بن محمد الجوزی الحنبلی المتوفی 597 ھ نے بھی یہ لکھا ہے کہ آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں کو اس امانت کے اٹھانے کا اختایر دیا گیا تھا ان پر لازم نہیں کیا گیا تھا۔ (زاد المسیرج ٦ ص 433 مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت، 1407 ھ)
حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیر متوفی 774 ھ امام فخر الدین رازی متوفی 606 ھ علامہ ابوالحسن علی بن امد واحدی نیشا پوری متوفی 468 ھ علامہ نظام الدین حسن بن محمد نیشا پوری متوفی 728 ھ اور علامہ احمد بن محمد الصاوی مالکی متوفی 1223 ھ شیخ امین احسن اصلاحی شیخ اشرف علی تھانوی متوفی 1364 ھ صدر الافاضل سید ممد نعیم الدین مراد آبادی متوفی 1367 ھ اور مفتی احمد یار خان متوفی 1391 ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص 573 تفسیر کبیرج ٩ ص 187 دار احیاء التراث العربی بیروت 1415 ھ الوسیط ج ٣ ص 484 غرائب القرآن ج ٥ ص 477 حاشیہ الصاوی علی الجلالین ج ٥ 1660)
یہ تفسیر اس لئے صحیح نہیں ہے کہ جمادات مکلف نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے صرف جن اور انسان کو اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار عطا کیا ہے، صرف جن اور انسان اپنے اختیار سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں، باقی تمام مخلوق غیر اختیاری طور سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتی ہے۔
یحملنھا کی تفسیر بار امانت اٹھانے سے کرنے پر علامہ قرطبی کی … توجیہات اور ان پر مصنف کی بحث و نظر
جن مفسرین نے یحملنھا کا معنی یہ کیا ہے کہ ” آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں نے امانت کا بوجھ اٹھا لیا “ ان پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آسمان وغیرہ جمادات ہیں اور غیر مکلف ہیں ان پر بار امانت کو پیش کرنا اور ان کا اس بوجھ کو اٹھانے سے انکار کرنا دونوں غیر معقول ہیں، علامہ ابوعبداللہ قرطبی مالکی متوفی 668 ھ نے اس کی حسب ذیل توجیہات کی ہیں :
(١) اس عبارت میں حذف مضاف ہے اور آسمانوں اور زمینوں سے مراد ہیں آسمانوں اور زمینوں والے، یعنی فرشتے، انسان اور جن اور بار امانت کو پیش کرنے سے مراد یہ ہے کہ اگر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی تو ان کو ثواب ہوگا اور اگر اطاعت نہیں کی تو ان کو عذاب ہوگا اور ان سب نے یہ کہا کہ ہم اس بوجھ کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ مصنف کے نزدیک یہ توجیہ اس لئے صحیح نہیں ہے کہ فرشتے مکلف نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے متعلق فرمایا :
(الحریم : ٦) اللہ ان کو جو حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ اسی کام کو کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
ان سے یہ متصور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنے احکام کیا مانت کو پیش کرے اور وہ اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیں، نیز اگر زمین والوں میں انسان بھی داخل اور مراد ہیں تو پھر الگ سے یہ فرمانے کی کیا ضرورت ہے ؟ وحملھا الانسان ” اور انسان نے اس بوجھ کو اٹھا لیا۔ “
(٢) حسن وغیرہ نے یہ کہا ہے کہ یہ معلوم ہے کہ جمادات بات سمجھتے ہیں نہ اس کا جواب دیتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ یہاں حیات کو مقدر مانا جائے یعنی ان کو زندہ کر کے فرمایا اور آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں پر اس امانت کو اختیاراً پیش کیا تھا اور انسان پر الزاماً پیش کیا تھا، یعنی آسمانوں وغیرہ کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار تھا اور انسان کو اختیار نہیں تھا۔ مصنف کے نزدیک یہ توجیہ بھی غلط ہے کیونکہ آسمان، زمین اور پہاڑ جبراً اللہ کی اطاعت کرتے ہیں ان کو اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہیں ہے اور انسان پر اطاعت کرنا لازم نہیں ہے اس کو اختایر دیا گیا ہے اور اس توجیہ میں معاملہ الٹ کردیا گیا ہے۔
(٣) قفال وغیرہ نے یہ کہا اس آیت میں ایک مثال بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرنا اس قدر مشکل اور دشوار ہے کہ اگر اس کی اطاعت کی امانت کو آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کیا جاتا تو وہ اپنے کبر، ثقل اور قوت کے باوجود اس کی اطاعت سے عاجز آجاتے اور اس کے بوجھ کو اٹھانے سے انکار کردیتے۔ مصنف کے نزدیک یہ توجیہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس توجیہ کی بنیاد یہ ہے کہ آسمان، زمین اور پہاڑ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت میں مختار ہیں حالانکہ وہ مجبور ہیں مختار نہیں ہیں۔
(٤) ایک قوم نے یہ کہا اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ یہ امانت اس قدر بھاری ہے کہ آسمان اور زمین اور پہاڑ بھی اپنی غیر معمولی طاقت کے باوجود اس کے بوجھ کو نہیں اٹھا سکتے تھے اور اگر ان پر یہ بوجھ ڈالا جاتا تو وہ اس کو اٹھانے سے انکار کردیتے۔ مصنف کے نزدیک یہ توجیہ بھی سابق وجہ سے غلط ہے آسمان اور زمن میں یہ مجال اور جرأت کہاں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے سرتابی کر کسیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(حم السجدۃ : ١١) پھر اللہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ اس وقت دھواں (سا) تھا، سو اس سے فرمایا اور زمین سے فرمایا تم دونوں خوشی سے یا ناخوشی سے آئو، انہوں نے کہا ہم خوشی سے آئے ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص 230-231، دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
علامہ ابو مسعود محمد بن محمد عماری حنفی متوفی 982 ھ علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی 1137 ھ علامہ سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی 1396 ھ اور سید ابوالاعلیٰ مودودی متوفی 1399 ھ نے بھی ان تاویلات اور توجیہات میں سے بعض کو اختیار کیا ہے اور قارئین پر واضح ہوچکا ہے کہ یہ تمام تاویلات باطل ہیں، ان تفاسیر کے حوالہ جات حسب ذیل ہیں۔
(تفسیر ابوالسعود ج ٥ ص ٢٤٢، روح البیان ج ٧ ص 298، روح المعانی جز ٢٢ ص 139، معارف القرآن ج ٧ ص 245-246 تفہیم القرآن ج ٤ ص 136)
بعض علماء نے اس معنی کی توقیت میں یہ بھی کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں کو پہلے اختیار عطا کردیا تھا پھر ان پر اس امانت کو پیش کیا تو انہوں نے اس امانت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا۔
مصنف کے نزدیک یہ توجیہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اول تو ان کو اختیار عطا فرمانے کا دعویٰ بلا دلیل ہے، ثانیاً یہ دعویٰ اس مسلم حقیقت کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے صرف جن اور انس کو عبادت کرنے کا مکلف کیا ہے اور ان ہی کو با اختیار بنانایا ہے، قرآن مجید میں ہے :
(الذاریات : ٥٦) میں نے جنات اور انسان کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
ثالثاً جب اس آیت میں ان یحملنھا کا معنی بغیر کسی تاویل کے درست ہوسکتا ہے یعنی زمین و آسمان نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کردیا تو پھر اس کمزور تاویل پر مبنی معنی کرنے کی کیا ضرورت ہے ! علامہ قرطبی نے بھی متعدد تاویلات کرنے کے بعد وحملھا الانسان کی تفسیر میں لکھا ہے :
ومعنی حملھا خان فیھا۔ امانت کو اٹھانے کا معنی یہ ہے کہ انسان نے اس امانت میں خیانت کی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤، ص ٢٣٢، دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
جن مفسرین نے یحملنھا اور حملھا الانسان میں حمل کا معنی امانت میں خیانت کرنا کیا
علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر الزمحشری الخوار زمی المتوفی 538 ھ نے یحملنھا میں حمل کے معنی کی تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے :
جب کوئی شخص امانت اس کے مالک کو واپس کرنے کا ارادہ نہ کرے تو کہا جاتا ہے فلاں شخص امانت کے بوجھ کو اٹھانے والا ہے، گویا امانت اس پر سوار ہے اور وہ اس کو اٹھانے والا ہے، حاصل یہ ہے کہ امانت اٹھانے کا معنی اس میں خیانت کرنا ہے۔ (الکشاف ج ٣ ص 573-574 داراحیاء التراث العربی بیروت 1417 ھ)
علامہ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی حنفی متوفی 710 ھ لکھتے ہیں :
(فابین ان یحملھنھا) یعنی انہوں نے امانت میں خیانت کرنے سے انکار کیا اور اس سے انکار کیا کہ وہ امانت کو ادا نہ کریں (وحملھا الانسان) اور انسان نے اس امانت میں خیانت کی اور اس امانت کو ادا کرنے سے انکار کیا۔ (مدارک التنزیل علی ھامش الخازن ج ٣ ص 514، دارالکتب العربیہ پشاور)
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن النیشا پوری القشیری المتوفی 465 ھ علامہ ابو الحیان محمد بن یوسف اندلسی المتوفی 754 ھ علامہ ابوالحسن ابراہیم بن عمر البقاعی المتوفی 885 ھ علامہ سلیمان الجمل المتوفی 1204 ھ نے بھی اسی طرح یحملنھا اور حملھا الانسان دونوں جگہ حمل کا معنی امانت میں خیانت کرنا کیا ہے۔ (تفسیر القشیری ج ٣ ص 46، البحر المحیط ج ٨ ص 510-511 نظم الدررج ٦ ص 141، حاشیۃ الجمل علی الجلالین ج ٣ ص 458)
اور امام الحسین بن مسعود البغوی المتویف 516 ھ علامہ عبداللہ بن عمر البیضاوی متوفی 685 ھ علامہ کا زونی، علامہ علی بن محمد خازن المتوفی 725 ھ علامہ محمد بن مصلح الدین القوجوی الحنفی المتوفی 951 ھ علامہ احمد بن محم الخفاجی المتوفی 1069 ھ علامہ محمد بن علی شو کافی 1250 ھ، نواب صدیق بن حسن القنوجی المتوفی 1307 ھ نے یحملنھا میں تو علامہ علامہ قرطبی کی ذکر کردہ تاویلات سے حمل کا معنی اٹھانا کیا ہے اور وحملھا الانسان میں حمل کا معنی امانت میں خیانت کرنا کیا ہے۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص 668-669 تفسیر البیضاوی مع الکازرونی ج ٤ ص 388 حاشیۃ الکازرونی ج ٤ ص 388 تفسیر الخازن ج ٣ ص 515، حاشیۃ شیخ زادہ علی البیضاوی ج ٦ ص 669 عنایۃ القاضی ج ٧ ص 515 فتح القدیر ج ٤ ص 408 فتح البیان ج ٥ ص 417)
حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری المتوفی 1418 ھ نے اس آیت کے ترجمہ میں حمل کا معنی اٹھانا کیا ہے اور تفسیر میں اس کا معنی امانت میں خیانت کرنا لکھا ہے۔ ترجمہ اس طرح ہے :
ہم نے پیش کی یہ امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے (کہ وہ اس کی ذمہ داری اٹھائیں) تو انہوں نے انکار کردیا اس کے اٹھانے سے وہ ڈر گئے اس سے اور اٹھا لیا اس کو انسان نے بیشک یہ بڑا ظلوم بھی ہے (اور) جہول بھی۔
اور تفسیر میں اس طرح فرمایا ہے :
اہل لغت نے اس طرح لکھا ہے کہ جب کوئی شخص امانت واپس کرنے سے انکار کر دے اور اس میں خیانت کرے تو عرب کہتے ہیں حمل الامانتہ یعنی اس نے امانت واپس کرنے سے انکار کردیا اور اس کا بوجھ اٹھا لیا اس آیت طیبہ میں حمل اس معنی میں استعمال ہوا ہے اس لغوی تحقیق کے پیش نظر آیت کا معنی ہوگا : ہم نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر اس امانت کو پیش فرمایا فابین ان یحملنھا تو انہوں نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کردیا، جو حکم ربانی ملا بےچون و چرا اس کی تعمیل میں لگ گئے سر مو انحراف اور سستی نہیں کی، واشفقن منھا وہ اس بات سے ڈرے کہ کہیں امانت میں خیانت کرنے سے وہ غضب الٰہی کے شکار نہ ہوجائیں فحملھا الانسان (قرآن میں وحملھا ہے۔ سعیدی غفرلہ) لیکن انسان نے اس امانت میں خیانت کی اور اس کا بوجھ گردن پر اٹھایا۔ (ضیاء القرآن ج ٤ ص 101-102 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)
اور ہم نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے :
بے شک ہم نے آسمانوں پر اور زمینوں پر اور پہاڑوں پر (اپنے احکام کی) امانت پیش کی تو انہوں نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کیا اور اس میں خیانت کرنے سے ڈرے اور انسان نے اس امانت میں خیانت کی بیشک وہ بہت ظلم کرنے والا بڑا جاہل ہے۔ (الاحزاب : ٧٢)
انسان کے ظالم اور جاہل ہونے کی توجیہ
اس آیت میں انسان سے مراد کا فریا فاسق ہے، کیونکہ انبیاء اور اولیاء اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت میں خیانت کرنے والے نہیں ہیں اور چونکہ انسان کے اکثر افراد کافر اور فاسق ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے جنس انسان کے متعلق فرمایا کہ انسان نے اس امانت میں خیانت کی اور اس کی مثال قرآن مجید کی یہ آیتیں ہیں :
ان الانسان لربہ لکنود (العدیات : ٦) بیشک انسان اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔
کلا ان الانسان لیطغی۔ (العلق : ٦) حقیقت یہ ہے کہ بیشک انسان ضرور سرکشی کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے اوپر اپنے احکام کی امانت کو پیش کیا حالانکہ اس کو علم تھا کہ اس کے اکثر افراد اس امانت میں خیانت کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں اطاعت اور عبادت کی استعداد اور صلاحیت رکھی تھی اور اس لئے کہ عالم میثاق میں اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کا وعدہ کیا تھا، اس آیت میں اور دیگر ذکر کردہ آیات میں صرف انسان کا ذکر فرمایا ہے حالانکہ انسان اور جن دونوں مکلف ہیں اور دونوں کو عبادت کرنے یا نہ کرنے کا اختایر دیا گیا ہے، کیونکہ قرآن مجید میں زیادہ تر خطاب انسان سے کیا گیا ہے اور اسی کی نوع سے انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث کیا گیا ہے اور اسی کی تکریم اور احسن تقویم کی تصریح کی گئی ہے اور وہی اشرف الخلائق ہے۔
میں بچپن سے اس آیت پر غور کرتا رہا ہوں اور قرآن مجید کے تراجم میں یہ پڑھ کر کہ ” آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں نے اللہ کی امانت کو اٹھانے سے انکار کردیا اور انسان نے اس امانت کو اٹھا لیا وہبڑا ظالم اور جاہل ہے “ میں یہ سوچتا تھا کہ جب کوئی بھی اس امانت کو نہ اٹھا سکا اور انسان نے اس امانت کو اٹھ الیا تو اس کی تحسین ہونی چاہیے تھی حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کی مذمت فرما رہا ہے کہ وہ بڑا ظالم اور بہت جاہل ہے، پھر جب میں نے پڑھانا شرع کیا اور دینی کتب کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس آیت میں حمل کا معنی خیانت کرنا ہے، یعنی انسان نے اس امانت میں خیانت کی وہ بڑا ظالم اور بہت جاہل ہے، پھر میں اسی طرح اپنے طلبہ کو پڑھاتا رہا تاآنکہ اب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تفسیر لکھنے کی توفیق اور سعادت عطا کی تو میں نے کھل کر اس آیت پر لکھا اور قرآن مجید کے پیغام کو بسط اور تفصیل سے پیش کیا، اللہ تعالیٰ اس محنت کو قبول فرمائے جس طرح اس نے محض اپنے فضل سے اس کو لکھنے کی توفیق دی ہے سی واسی طرح اس کے کرم سے توقع ہے بلکہ سوال اور دعا ہے کہ وہ اس کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ وللہ الحمد اولاً و آخراً ۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 72
امانت میں خیانت کرنا نہیں بلکہ خیانت و امانت کا اختیار دیا جس میں سب نے انکار کیا لیکن انسان نے اختیار کو اپنالیا اور ناترس اور ناداں ٹہرا۔ ورنہ اگر صرف خیانت مراد لیتے ہیں تو پھر تو حکم ہوگا اور حکم عدولی کرنے والے گنہگار ہوں گے۔ اور ویسے بھی معصیت کا حکم تو اللہ نہیں دیتا
بعض مفسرین نے اسکا مصداق حضرت ادم کو ٹہرایا ہے کیونکہ وہ پہلے انسان تھے تمام مخلوق اور جمادات کے مقابل میں ۔ اور بعد حمل اختیار خیانت وہ جنت میں اقت عصر سے شام تک نہ رہے یہاں مراد خصلت وجبلت انسانی ہے ۔ کہ اسکی پیدائیش میں خمیر میں یہ واقع ہوچکی ہے ۔