أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَئِنۡ لَّمۡ يَنۡتَهِ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِيۡنَ فِى قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ وَّالۡمُرۡجِفُوۡنَ فِى الۡمَدِيۡنَةِ لَـنُغۡرِيَـنَّكَ بِهِمۡ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوۡنَكَ فِيۡهَاۤ اِلَّا قَلِيۡلًا ۞

ترجمہ:

اگر منافق باز نہ آئے اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (فسق کی) بیماری ہے، اور مدینہ میں جھوٹی افواہیں اڑانے والے تو ہم آپ کو ضرور ان پر مسلط فرما دیں گے کہ پھر وہ آپ کے پاس مدینہ میں زیادہ عرصہ نہیں ٹھہر سکیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اگر منافق باز نہ آئے اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (فسق کی) بیماری ہے اور مدینہ میں جھوٹی افواہیں اڑانے والے تو ہم آپ کو ضرور ان پر مسلط فرما دیں گے کہ پھر وہ آپ کے پاس مدینہ میں زیادہ عرصہ نہیں ٹھہر کسیں گے۔ وہ لعنت کئے ہوئے ہیں، وہ جہاں بھی جائیں گے پکڑے جائیں گے اور ان کو چن چن کر قتل کیا جائے گا۔ جو لوگ اس سے پہلے گزر چکے ہیں ان میں بھی اللہ کا یہی دستور تھا اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (الاحزاب 60-62)

المرجفون اور دیگر اصطلاحی الفاظ کے معانی 

” منافقین “ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل میں کفر تھا اور ظاہر ایمان کرتے تھے اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (فسق کی) بیماری ہے، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں زنا اور دیگر فحش کاموں کی محبت تھی، اور وہ برے ارادہ سے مسلمان عورتوں کا پیچھا کرتے تھے، اور ” مدینہ میں جھوٹی افواہیں اڑانے والے “ اس کے لئے اس آیت میں المرجفون کا لفظ ہے، یہ لفظ رجف سے بنا ہے، رجف کے معنی ہیں تحریک اور زلزلہ یہاں اس سے مراد ہے لرزہ خیز جھوٹی خبریں جو لوگوں کے دلوں کو بھی لرزا دیتی ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ جب مسلمانوں کا کوئی لشکر جہاد کے لئے جاتا تو یہ مدینہ میں مسلمانوں سے کہتے کہ تہارے لشکر کے اکثر لوگ قتل کردیئے گئے یا وہ شکست کھا گئے، تاکہ مسلمان رنجیدہ ہوں، یا وہ مدینہ کے مسلمانوں سے کہتے کہ تم پر دشمن حملہ کرنے والا ہے اور وہ مسلمانوں میں فتنہ پھیلانے کے لئے جھوٹی خبروں کی اشاعت کرتے اور پاک باز لوگوں پر تہمتیں لگاتے، اصحاب صفہ کے متعلق کہتے کہ یہ غیر شادی شدہ لوگ ہیں اور یہ عورتوں سے ناجائز تعلقات رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو ہم آپ کو ضرور ان پر مسلط فرما دیں گے کہ پھر وہ آپ کے پاس مدینہ میں زیادہ عرصہ نہیں ٹھہر کسیں گے۔ 

اس کا معنی یہ ہے کہ وہ بہت کم تعداد میں آپ کے پاس رہیں گے یا وہ بہت کم عرصہ آپ کے پاس رہ کسیں گے۔

اس سے پہلی آیت الاحزاب : ٥٧ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا ذکر فرمایا تھا جن کا کفر ظاہر تھا اور اللہ تعالیٰ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کو ایذاء پہنچاتے تھے اور اس آیت میں منافقین کا ذکر فرمایا ہے جو اپنے کفر کو چھپاتے تھے اور اللہ رسول اور مومنین کو ایذا پہنچاتے تھے، منفاقین کی ایذاء تو ظاہر ہے اور جن کے دلوں میں فسق کی بیماریھی وہ مسلمانوں کی عورتوں کا بری نیت سے تعاقب کر کے مسلمانوں کو ایذاء پہنچاتے تھے اور جھوٹی افواہیں پھیلانے والے بھی مسلمانوں کو ایذاء پہنچاتے تھے اور ان کو دشمنوں کے حملہ کی خبر دے کر تشویش میں مبتلا کرتے رہتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے متعلق فرمایا :” تو ہم آپ کو ضرور ان پر مسلط فرما دیں گے کہ پھر وہ آپ کے پاس مدینہ میں زیادہ عرصہ نہیں ٹھہر کسیں گے “ یعنی ہم آپ کو انہیں قتل کرنے کا یا ان کو مدینہ بدر کرنے کا حکم دیں گے، آیت کے اس حصہ میں لنغرینک کا لفظ ہے، یہ اغراء سے بنا ہے، اس کا معنی ہے ہم آپ کو برانگیختہ کریں گے، حضرت ابن عباس (رض) نے کہا اس کا معنی ہے ہم آپ کو ان پر مسلط کردیں گے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 60