لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ الۡمُنٰفِقِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتِ وَالۡمُشۡرِكِيۡنَ وَالۡمُشۡرِكٰتِ وَيَتُوۡبَ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞- سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 73
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ الۡمُنٰفِقِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتِ وَالۡمُشۡرِكِيۡنَ وَالۡمُشۡرِكٰتِ وَيَتُوۡبَ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞
ترجمہ:
تاکہ انجام کار اللہ منافق مردوں اور منفاق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے اور اللہ بہت بخشنے والا ہے، بےحد رحم فرمانے والا ہے ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تاکہ انجام کار اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے اور اللہ بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے۔ (الاحزاب : ٧٣)
جنس انسان پر امانت پیش کرنے کی حکمت کفار کو عذاب دینا، توبہ کرنے … والے مومنوں کو بخشنا اور انبیاء اور صالحین کو نوازنا ہے
اللہ تعالیٰ کے افعال معلل بالاغراض نہیں ہوتے اس لئے یہ نہیں کہا جائے گا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمینوں، پہاڑوں اور انسانوں پر اپنے احکام کی امانت کو اس لئے پیش کیا تاکہ منافقوں اور مشرکوں کو عذاب دے اور مومنوں کی توبہ قبول فرمائے اور ان کو بخش دے۔ اس لئے بالعموم مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ لام عاقبت ہے جی اس کہ اس آیت میں ہے :
فالتفطۃ ال فرعون لیکون لھم عدواً وخرناً (القصص : ٨) فرعون کے متبعین نے موسیٰ کو اٹھا لیا تاکہ انجام کار وہ ان کے لئے دشمن اور باعث غم بن جائے۔
اسی طرح اس آیت میں فرمایا ہے کہ انسان کے اکثر افراد نے اس امانت میں خیانت کی اور کفر و شرک کو مخفی رکھا یا کفرو شرکت کو ظاہر کیا تاکہ انجام کار اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دے اور بعض نے کفر و شرک کو ترک کیا، پھر ان بعض میں سے اکثر وہ تھے کہ ایمان سے متصف ہونے کے باوجود ان سے خطائیں سر زد ہوگئیں اور تقصیرات اور کو تاہیاں ہوئیں پھر انہوں نے اپنی تقصیرات اور خطائوں پر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور ان کے متعلق فرمایا : اور وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے گا اور بعض کاملین تھے جو انبیاء اور مرسلین ہیں اور اولیاء عارفین ہیں ان کے متعلق فرمایا اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔
اس آیت کی دوسری تقریر اس طرح ہے کہ ہرچند کہ یہ لام عاقبت ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو لام علت اور غرض کی صورت میں ذکر فرمایا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جنس انسان پر اپنے احکام کی امانت کو اس لئے پیش فرمایا تھا کہ جنس انسان کے بعض افراد اس امانت کو ظاہراً قبول کرنے کے بعد اس کو ضائع کردیں اور وہ منافقین ہیں اور بعض افراد اس مانت کو بالکل قبول نہ کریں اور وہ مشرکین ہیں اور دونوں کے متعلق فرمایا تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور جنس انسان کے بعض افراد اللہ تعالیٰ کے احکام کی امانت میں خیانت نہ کریں، لیکن ان سے کچھ تقصیرات ہوں اور وہ اس پر ندامت کا اظہار اور توبہ کریں ان کے متعلق فرمایا اور وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے گا اور جنس انسان کے بعض افراد جو کاملین ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی امانت میں بالکل خیانت نہ کریں وہ انبیاء اور مرسلین ہیں اور الویاء عارفین ہیں ان کے متعلق فرمایا اور اللہ بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے، اور ان میں سے ہر فرد کو اس کے مرتبہ اور ظرف کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت اور رحمت سے نوازے گا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے تین طبقات کا ذکر ہے، ایک طبقہ منافقین اور مشرکین کا ہے، دوسرا طبقہ توبہ کرنے والے گناہگار مسلمانوں کا ہے اور تیسرا طبقہ انبیاء ومرسلین اور اولیاء عارفین کا ہے، اور ان تین طبقوں کو بنانے کی حکمت یہ تھی کہ متعدد آئینوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے عکوس نظر آئیں سو منافقین اور مشرکین وہ آئینہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات قہر اور جلال کا عکس نظر آتا ہے اور توبہ کرنے والے گنہگار مسلمان وہ آئینہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات ستاری اور غفاری کا عکس نظر آتا ہے اور انبیاء ومرسلین اور اولیاء کا ملین وہ آئینہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال اور اس کے الطاف و عنایات کی صفات کا عکس دکھائی دیتا ہے۔
ان تینوں طبقوں میں سے دوسرے طبقہ پر اس حدیث میں دلیل ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تم کو لے جائے گا اور ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو گناہ کریں گے اور اللہ سے استغفار کریں گے پھر اللہ کو بخش دے گا۔ صحیح مسلم کتاب التوبہ : ١١ رقم الحدیث بلاتکرار : ٢٧٤٠ الرقم المسلسل : ٦٨٣٢)
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے گناہ کریں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ گناہوں سے منع کرنے کے لئے نبیوں اور رسولوں کو کیوں بھیجتا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے اپنے آپ کو گناہگار اور خطاء کار سمجھیں، خواہ وہ کسی قدر صالح اور نیک ہوں کم از کم اتنی بات تو ہے کہ کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کی اتنی عبادت نہیں کرسکا جتنی اللہ تعالیٰ نے اس کو نعمتیں عطا کی ہیں تو وہ کم از کم اسی تقصیر پر اللہ سے استغفار کرتا رہے اور توبہ اور استغافر کو ترک کرنا بھی گناہ ہے، سو اگر لوگ اپنی نیکیوں پر مطمئن ہوجائیں اور توبہ اور استغفار نہ کریں تو وہ ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو نیکیاں کرنے کے باوجود تقصیر طاعات کے خوف سے توبہ اور استغفار کرتے رہیں گے۔
اختتام سورت
آج ٢ شوال ١٤٢٣ ھ/٧ دسمبر ٢٠٠٢ ء بہ روز ہفتہ بعد فجر سورة الاحزاب کی تفسیر ختم ہوگئی، ١٥ اکتوبر ٢٠٠٢ ء کو یہ تفسیر شروع کی تھی اس طرح تقریباً دو ماہ اور تین دنوں میں یہ تفسیر پایہ تکمیل کو پہنچ گئی، الہ العلمین ! جس طرح آپ نے اس سورت کی تفسیر کو مکمل کرا دیا ہے، قرآن مجید کی باقی سورتوں کی تفسیر کو بھی مکمل فرما دیں، مجھے تاحیات صحت و عافیت اور نیکی اور تقویٰ اور اطاعت اور اتباع سنت کے ساتھ قائم رکھیں، عزت و کرامت کے ساتھ ایمان پر میرا خاتمہ فرمائیں، موت کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت اور مرنے کے بعد آپ کی شفاعت عطا فرمائیں، دنی کے مصائب اور آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھیں اور دنیا اور آخرت کی سعادت اور سرخ روئی کو مقدر فرما دیں۔ اس تفسیر کو تاقیام قیامت باقی، مرغوب، مقبول اور فیض آفریں بنادیں اور اس کی تحریر اور تقریر کو عمل کے لئے مئوثر بنادیں، اس کو موافقین کے لئے وجہ استقامت اور طمانیت اور مخالفین کے لئے موجب ہدایت کردیں۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز۔
میرے والدین میرے اساتذہ میرے احباب، میرے قرابت دار اور جمہ مسلمین کو بخش دیں۔ اے میرے رب ! قیامت کے کے دن مجھے شرمندہ نہ کرنا، میری عزت رکھنا مجھے سرخرو اٹھانا اور علماء صالحین، مفسرین، محدثین اور فقراء مجتہدین کے زمرہ میں میرا حشر کرنا اور جنت الفردوس عطا کرنا اور مجھے اپنی رضا سے نوازنا !
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبین سیدالمرسلین، قائد الغر المحجدین شفیع المذنبین و علی الہ الطییبین و اصنحابہ الراشدین وعلی ازواجہ الطاھرات امھات المومنین و علی علماء ملتہ واولیاء امتہ و علی سائر السلمین اجمعین۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 73