مَّلۡـعُوۡنِيۡنَ ۛۚ اَيۡنَمَا ثُقِفُوۡۤا اُخِذُوۡا وَقُتِّلُوۡا تَقۡتِيۡلًا ۞- سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 61
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مَّلۡـعُوۡنِيۡنَ ۛۚ اَيۡنَمَا ثُقِفُوۡۤا اُخِذُوۡا وَقُتِّلُوۡا تَقۡتِيۡلًا ۞
ترجمہ:
وہ لعنت کئے ہوئے ہیں، وہ جہاں بھی جائیں گے پکڑے جائیں گے اور ان کو چن چن کر قتل کیا جائے گا
منافقین کو قتل کرنے اور مدینہ بدر کرنے کی سزا کیوں نہیں دی گئی
اس کے بعد فرمایا : وہ لعنت کئے ہوئے ہیں، وہ جہاں بھی جائیں گے پکڑے جائیں گے اور ان کو چن چن کر قتل کیا جائے گا۔ (الاحزاب :61)
یعنی اس سے پہلے کی امتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہی حکم تھا کہ جو لوگ زمین پر فساد کرتے تھے ان کو قتل کردیا جاتا تھا یا گرفتار کیا جاتا تھا یا شہر بدر کیا جاتا تھا اور یہ حکم ان احکام کی مثل نہیں ہے جن کو منسوخ کردیا جاتا ہے یا تبدیل کردیا جاتا ہے۔
امام ابن ابی حاتم نے ان آیات کی تفسیر میں کہا ہے کہ نفاق تین قسم کا تھا، ایک عبداللہ بن ابی کی طرح کے منافق تھے، جو زنا کرنے سے حیاء کرتے تھے اور اس آیت میں منافق سے یہی لوگ مراد ہیں، دوسرے وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں فسق کی بیماری تھی اگر ان کو زنا کرنے کا موقع مل جاتا تو کرلیتے ورنہ مجتنب رہتے اور تیسرے وہ لوگ تھے جو بغیر کسی احتیاط کے بدکاری کرتے تھے وہ عورتوں کا تعاقب کرتے تھے اور جس پر قابو پالیتے اس کے ساتھ زنا کرتے تھے، ان تنیوں قسموں کے متعلق فرمایا کہ ان کو قتل کیا جائے اور ان کو مدینہ بدر کیا جائے۔
علامہ قرطبی نے المھدوی سے نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ترک و عید کے جواز کی دلیل ہے، کیونکہ ان آیات کے نازل ہنے کے بعد بھی منفاقین مدینہ میں رہے ان کو قتل کیا گیا نہ مدینہ سے نکالا گیا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ٢٢٤، دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ قرطبی کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حکم اس وقت تک تھا جب تک منافقین اپنی روش پر قائم رہتے اور باز نہ آتے لیکن انہوں نے اس روش پر اصرار کو ترک کردیا تھا، البتہ یہودیوں نے اس روش کو ترک نہیں کیا تھا، لہٰذا ان میں سے بعض کو قتل کیا گیا اور بعض کو مدینہ بدر کیا گیا۔
القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 61