وَالَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ بِغَيۡرِ مَا اكۡتَسَبُوۡا فَقَدِ احۡتَمَلُوۡا بُهۡتَانًا وَّاِثۡمًا مُّبِيۡنًا۞- سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 58
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ بِغَيۡرِ مَا اكۡتَسَبُوۡا فَقَدِ احۡتَمَلُوۡا بُهۡتَانًا وَّاِثۡمًا مُّبِيۡنًا۞
ترجمہ:
اور جو لوگ ایمان والے مردوں کو اور ایمان والی عورتوں کو بلا خطا ایذاء پہنچاتے ہیں ‘ تو بیشک انہوں نے بہتان کا اور کھلے ہوئے گناہ کا بوجھ اپنے سر پر اٹھایا
اللہ اور رسول اور مومنوں کو ایذا پہنچانے کا فرق
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور جو لوگ ایمان والے مردوں کو اور ایمان والی عورتوں کو بلا خطاء ایذا پہنچاتے ہیں تو بیشک انہوں نے بہتان کا اور کھلے ہوئے گناہ کا بوجھ اپنے سر پر اٹھایا۔ (الاحزاب :58)
ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو بھی اہانت والی باتوں اور شر انگیز کاموں سے تکلیف پہنچتی ہے، مثلاً جھوٹے الزام لگانا اور صحیح اور سچی باتوں کی تکذیب کرنا، یا کسی کی مذمت کرنا، اس کا مذاق اڑانا، اس کو اس کے کسی کمزور پہلو سے عار دلانا، اللہ تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول کی ایذاء میں اور مسلمانوں کی ایذاء میں یہ فرق کیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی ایذاء کو کفر قرار دیا ہے اور مسلمانوں کی ایذاء کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔
امام عبدالرحمٰن بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی 597 ھ لکھتے ہیں : اس آیت کی فسیر میں حسب ذیل اقوال ہیں :
(١) حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے دیکھا کہ ایک باندی زیب وزینت سے مزین ہو کر بازاروں میں جا رہی تھی، حضرت عمر نے باندی کو مارا اور اس کو بنائو سنگھار کرنے سے منع کیا، اس نے جا کر اپنے مالکوں سیشکایت کی، انہوں نے آ کر حضرت عمر سے توہین آمیز کلام کیا تو ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نیکی کے حکم اور برائی سے منع کرنے پر غضب ناک ہونا جائز نہیں ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے۔
(٢) بدکار اور زانی جب مدینہ کے رساتوں میں جاتے تو جو عورتیں قضاء حاجت کے لئے رات کو گھر سے باہر نکلتیں تھیں وہ ان کا پیچھا کرتے تھے اور ان سے چھیڑ خانی کرتے تھے، وہ عموماً باندیوں کو چھیڑتے تھے لیکن چونکہ آزاد اور پاکباز عورتیں لباس اور ہئیت میں باندیوں سے ممیز اور ممتاز نہیں تھیں اسلئے وہ بھی ان کی فحش حرکات کا شکار ہوجاتی تھیں، پھر انہوں نے اپنے خاوندوں سے اس کیشکایت کی اور انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ راستے میں جانے والی عورتوں سے چھیڑ خانی کرنا ان کو تنگ کرنا اور فحش حرکات کرنا گناہ کبیر ہے۔
(٣) حضرت عائشہ (رض) اور حضرت صفوان بن معطل (رض) پر جن منافقوں نے بدکاری کی تہمت لگائی تھی ان کی مذمت میں یہ آیت نازل ہوئی اور تہمت کا گناہ کبیرہ ہونا بالکل واضح ہے۔
(٤) بعض منافقین نے حضرت علی (رض) سے بدتمیزی کے ساتھ کلام کیا تو ان کی مذمت میں یہ آیت نازل ہوئی۔
حضرت علی (رض) کی شان میں بتمیزی کرنا نہ صرف یہ کہ گناہ کبیرہ ہے بلکہ نفاق کی علامت ہے۔ (زاد المسیر ج ٦ ص ٤٢١، المکتب الاسلامی بیروت، ١٤٠٧ ھ)
القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 58