أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡهُهُمۡ فِى النَّارِ يَقُوۡلُوۡنَ يٰلَيۡتَـنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰهَ وَاَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا ۞

ترجمہ:

جس دن ان کے چہرے آگ میں پلٹ دیئے جائیں گے، وہ کہیں گے کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہوتی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جس دن ان کے چہرے آگ میں پلٹ دیئے جائیں گے وہ کہیں گے کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔ اور وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی، سو انہوں نے ہمیں گم راہ کردیا۔ اے ہمارے رب ! ان کو دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت فرما !۔ (الاحزاب :66-68)

دوزخ میں کفار کے عذاب کی کیفیت 

دوزخ کی آگ میں ان کے چہرے پلٹنے کا معنی یہ ہے کہ جس طرح سالن پکاتے وقت جب دیگچی میں جوش آتا ہے تو گوشت کی بوٹیاں ایک طرف سے دوسری طرف پھرتی ہیں اسی طرح جب کفار دوزخ میں پڑے ہوں گے اور دوزخ کی آگ تیز ہوگی تو ان کے چہرے دوزخ میں ایک طرف سے دوسری طرف پھر رہے ہوں گے اور جوش کی وجہ سے ایک طرف سے دوسری طرف گھوم رہے ہوں گے، یا اس دن ان کے چہرے دوزخ میں ایک طرف دوسری طرف متغیر ہو رہے ہوں گے اور اس دن کے مصیبت ناک اور ہولناک احوال کی وجہ سے ان کے چہروں پر بہت قبیح کیفیات مرتب ہو رہی ہوں گی، یا اس دن ان کو آگ میں منہ کے بل ڈال دیا جائے گا۔

ہر چند کہ ان کے پورے جسم پر یہ کیفیات طاری ہوں گی لیکن خصوصیت کے ساتھ چہرے کا ذکر اس لئے فرمایا ہے کہ چہرے انسان کے جسم کا سب سے مکرم اور معظم عضو ہوتا ہے اور جب ان کا چرہ آگ میں جھلس رہا ہوگا تو یہ ان کے لئے بہت زیادہ ذلت اور رسوائی کا باعث ہوگا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 66