يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ يُدۡنِيۡنَ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ جَلَابِيۡبِهِنَّ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَنۡ يُّعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞- سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 59
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ يُدۡنِيۡنَ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ جَلَابِيۡبِهِنَّ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَنۡ يُّعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞
ترجمہ:
اے نبی ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں، اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہیے کہ وہ (گھر سے نکلتے وقت) اپنی چادروں کا کچھ حصہ (اپنے منہ پر) لٹکا لیاکریں، یہ اس کے بہت قریب ہے کہ ان کو پہچان لیا جائے (کہ یہ عورتیں ہیں) تو ان کو ایذاء نہ دی جائے اور اللہ بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے نبی ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہیے کہ وہ (گھر سے نکلتے وقت) اپنی چادروں کا کچھ حصہ (اپنے منہ پر) لٹکا لیا کریں، یہ اس کے بہت قریب ہے کہ ان کو پہچان لیا جائے (کہ یہ آزاد عورتیں ہیں) تو ان کو ایذا نہ دی جائے اور اللہ بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے۔ (الاحزاب : ٥٩ )
جلباب کی تحقیق
اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ازواج مطہرات، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادیاں اور مسلمان عورتیں اپنی جلابیب (چادروں) کا کچھ حصہ اپنے (چہروں) پر ڈال لیں۔ جلابیب جلباب کی جمع ہے اس لئے دیکھنا چاہیے کہ جلباب کا معین کیا ہے۔
علامہ اسماعیل بن حماد جوہری متوفی 398 ھ لکھتے ہیں :
والجلباب الملحفۃ۔ (صحاح ج ١ ص 101، دارالعلم بیروت، ١٤٠٤ ھ) جلباب ملحفہ ہے یعنی لحاف اور کمبل کی طرح وسیع و عریض چادر ہے۔
جلباب وہ چادر ہے جس کو عورت کمبل کی طرح اوپر سے اوڑھ لیتی ہے، ابو عبید نے کہا ہے کہ ازہری نے یہ بیان کیا ہے کہ ابن الاعرابی نے جو یہ کہا ہے کہ جلباب آزار (تہمد) ہے۔ اس سے مراد وہ چادر نہیں ہے جو کمر پر باندھی جاتی ہے بلکہ اس سے مراد وہ چادر ہے جس سے تمام جسم کو ڈھانپ لیا جاتا ہے۔ (لسان العرب ج ١ ص 273، ایران 1405 ھ)
خلاصہ یہ ہے کہ جلباب سے مراد وہ وسیع و عریض چادر ہے جس سے عورت تمام جسم کو ڈھانپ لیتی ہے۔
چہرہ ڈھانپنے کی تحقیق
اس آیت میں یہ الفاظ : یدنین علیھن من جلابیھن اور یہ من تبعیضیہ ہے، یعنی عورتیں اپنی جلباب کا کچھ حصہ اپنے اوپر ڈال لیں، مفسرین نے لکھا ہے کہ علیھن میں حذف مضاف ہے یعنی علی وجوھھن ” چادروں کا کچھ حصہ اپنے چہروں پر ڈال لیں “ یعنی کا ایک پلویا آنچل یا گھونگھٹ اپنے چہروں پر اس طرح ڈال لیں کہ چہرہ ڈھک جائے اور یہی حجاب کا تقاضا ہے۔
علامہ ابن جریر طبری متوفی 310 ھ لکھتے ہیں :
امام ابن جریر، حضرت ابن عباس سے اس آیت کی فسیر میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کی بناء پر اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں سے سر کو اور چہرے کو اس طرح ڈھانپ لیں کہ فقط ایک آنکھ کھلی رہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :21861)
علامہ ابوبکر رازی جصاص حنفی نے اس تفسیر کو عبیدہ سے نقل کیا ہے۔ (احکام القرآن ج ٣ ص 371 مطبوعہ لاہور)
قاضی ناصر الدین بیضاوی شافعی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یغطین وجوھھن وابدانھن اذا برزن لحاجۃ ومن للتبعیض فان المراۃ ترخی بعض جلبابھا وتتلفح ببعض۔ جب عورتیں کسی کام سے باہر نکلیں تو اپنے چہرے اور بدن کو ڈھانپ لیں، من تبعیض کے لئے ہے کیونکہ عورتیں چادر کے بعض حصے کو (چہرہ پر) لٹکا لیتی ہیں اور بعض کو بدن کے گرد لپیٹ لیتی ہیں۔ (بیضاوی علی ھامش الخفا جی ج ٧ ص 185، دارصادر بیروت)
علامہ شہاب الدین خفاجی حنفی متوفی 1069 ھ لکھتے ہیں :
کشاف میں ہے کہ اس آیت کے دو محمل ہیں یا تو ایک چادر کو پورے بدن پر لپیٹنے کا حکم دیا ہے یا چادر کے ایک حصہ سے سر اور چہرے کو ڈدھانپ لیں اور دوسرے حصے سے باقی بدن ڈھانپ لیں۔ (عنایۃ القاضی ج ٧ ص 185، دارصادر بیروت)
علامہ آلوسی حنفی نے بھی اس تفسیر کو نقل کیا ہے۔ (ج ٢٢ ص 89 داراحیاء التراث العربی بیروت)
یہ تو ایک کھلی ہوئی بدیہی بات ہے کہ احکام حجاب نازل ہونے سے پہلے مسلمان عورتیں جب کسی ضرورت کی بناء پر گھر سے باہر نکلتی تھیں تو چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ ان کا سارا جسم مستور ہوتا تھا خصوصاً سورة نور میں احکام ستر نازل ہونے کے بعد تو اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اب سورة الاحزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد بھی اگر مسلمان عورتیں اسی طرح کھلے منہ پھرتی رہتیں یا ان کا اسی طرح کھلے منہ پھرنا جائز ہوتا تو احکام حجاب نازل ہونے کا کیا ثمرہ مرتب ہوا اور آیات حجاب کو نازل کرنے سے کیا مقصد حاصل ہوا ؟ اس لئے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ آیات حجاب میں عورتوں کو اپنے منہ اور ہاتھوں کو چھپانے کا حکم دیا ہے اور حجاب ستر سے زائد چیز ہے، ستر عورت کے جسم کے اس حصہ کو چھپانا ہے جس کو شہر کے سوا کسی اور شخص کے سامنے ظاہر نہیں کیا جاسکتا اور یہ ہاتھوں اور چہرے کے سوا عورت کا سارا جسم ہے، عورت اپنے محارم (باپ، بھائی وغیرہ) کے سامنے صرف چہرہ اور ہاتھ ظاہر کرسکتی ہے اور باقی جسم چھپائے گی اور حجاب کا تقاضا یہ ہے کہ عورت غیر محرم اجنبیوں کے سامنے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو بھی چھپائے گی، چونکہ پہلے مسلمان عورتیں اور ازواج مطہرات اجنبی مردوں کے سامنے چہرے کو نہیں چھپاتی تھیں اسی لئے حضرت عمر مضطرب رہتے تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے آیات حجاب نازل کردیں تو ازواج مطہرات اور عام مسلمان عورتوں نے اجنبی مردوں سے اپنے چہروں کو حجاب میں مستور کرلیا۔
عورت کے حجاب کے متعلق قرآن مجید کی آیات
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
(الاحزاب : ٥٣) اور جب تم نبی کی ازواج (مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور ان کے لئے بہت ہی پاکیزگی کا سبب ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(الاحزاب : ٥٩) اے نبی ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو یہ حکم دیں کہ وہ (گھر سے نکلتے وقت) اپنی چادروں کا کچھ حصہ (آنچل، پلویا گھونگھٹ) اپنے چہروں پر لٹکائے رہیں، یہ پردہ ان کی اس شناخت کے لئے بہت قریب ہے (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں آوارہ گرد باندیاں نہیں ہیں) سو ان کو ایذاء نہ دی جائے اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔
ذالک ادنیٰ ان یعرفن سے چہرہ ڈھانپنے پر استدلال
(الاحزاب : ٥١) یہ پردہ ان کی شناخت کے بہت قریب ہے (کہ وہ آزاد عورتیں ہیں آوارہ گرد باندیاں نہیں ہیں) سو ان کو ایذا نہ دی جائے۔
علامہ ابن جریر طبری لکھتے ہیں :
جب کوئی باندی راستہ سے گذرتی تھی تو فساق فجار اس کو ایذاء پہنچاتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو باندیوں کی مشابہت سے منع فرما دیا، مجاہد نے یدنین علیھن من جلابیھن کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ ” آزاد عورتیں اپنے چہروں پر آنچل ڈال لیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ آزاد عورتیں ہیں اور فساق ان کو آوازیں کس کر یا چھیڑ خانی کر کے اذیت نہ پہنچائیں۔ “ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ذلک ادنی ان یعرفن فلایوذین ” یہ ان کی (باندیوں سے) شناخت کے زیادہ قریب ہے تاکہ ان کو ایذاء نہ پہنچائی جائے۔ “ (جامع البیان جز ٢٢ ص 57-58 دارالفکر بیروت)
امام رازی متوفی 606 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
زمانہ جاہلیت میں آزاد عورتیں اور باندیاں چہرہ کھول کر باہر نکلتی تھیں اور فساق اور فجار ان کے پیچھے دوڑتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو چادر سے چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا۔ (تفسیر کبیرج ٩ ص 184)
علامہ ابوالحیان اندلسی متویف 754 ھ لکھتے ہیں :
زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ تھا کہ آزاد عورتیں اور باندیاں دونوں قمیص اور دوپٹے میں چہرہ کھول کر نکلتی تھیں اور جب وہ رات کے وقت قضاء حاجت کے لئے کھجوروں کے جھنڈ اور نشینبی زمینوں میں جاتیں تو بدکار لوگ بھی ان کے پیچھے جاتے اور بعض اوقات وہ آزاد عورت پر بھی دست درازی کرتے اور یہ کہتے کہ ہم نے اس کو باندی گمان کیا تھا۔ تب آزاد عورتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ باندیوں سے مختلف وضع قطع اختیار کریں بایں طور کہ بڑی چادروں اور کمبلوں سے اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانپ لیں تاکہ وہ باحیاء اور معزز رہیں اور کوئی شخص ان کے متعلق بری خواہش نہ کرے۔ (البحر المحیط ج ٧ ص 250 دارالفکر بیروت)
علامہ ابن جوزی حنبلی لکھتے ہیں :
آزاد عورتیں چادروں سے اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانپ لیں تاکہ معلوم ہوجائے وہ آزاد عورتیں ہیں۔ (زاد المسیر ج ٦ ص ٤٢٢ )
علامہ ابو سعود حنفی لکھتے ہیں :
عورتیں جب کسی کام سے جائیں تو چادروں سے اپنے چہروں اور بدنوں کو چھپا لیں۔ (تفسیر ابو سعود ج ٥ ص 239، دارالکتب العلمیہ بیروت)
علامہ ابو الحیان اندلسی لکھتے ہیں :
ابوعبیدہ سلمانی بیان کرتے ہیں کہ جب ان سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ تم چادر کو اپنی پیشانی پر رکھ کر چہرے کے اوپر لپیٹ لو، سدی نے کہا ایک آنکھ کے سوا باقی چہرے کو ڈھانپ لو (علامہ ابو الحیان کہتے ہیں) اندلس کے شہروں کا بھی یہی طریقہ ہے عورتیں ایک آنکھ کے سوا باقی چہرے کو ڈھانپ کر رکھتی ہیں، حضرت ابن عباس اور قتادہ نے کہا چادر سے چہرے کو ڈھانپ لے اور دونوں آنکھوں کو وکھلا رکھے۔ من جلابیھن کا مطلب یہ ہے کہ چادر کے ایک پلو سے چہرہ کو ڈھانپ لیا جائے یہ پردہ ان کی شناخت کے بہت قریب ہے کیونکہ جب آزاد عورتیں اپنے چہرے کو ڈھانپ لیں گی تو وہ بےپردہ پھرنے والی بےحیا باندیوں سے ممتاز ہوجائیں گی اور فساق اور فجار کی ایذاء رسانی اور چھیڑ خانی سے محفوظ رہیں گی۔ (البحر المحیط ج ٨ ص 504 دارالفکر)
مشہر شیعہ مفسر شیخ ابو جعفر بن حسن طوسی لکھتے ہیں :
(التبیان ج ٨ ص 361) حس نے کہا کہ جلابیب سے مراد وہ چادریں ہیں جن کو عورتیں اپنے چہروں پر ڈال لیتی ہیں۔
جلباب کی تفسیر جو ہم نے معتمد مفسرین اسلام سے نقل کی ہے، ان میں علامہ ابن جریر طبری، علامہ ابوبکر رازی جصاص حنفی، علامہ ابن کثیر حنبلی، علامہ ابن جوزی حنبلی، قاضی بیضاوی شافعی، علامہ ابو سعود حنفی، علامہ خفا جی حنفی، علامہ آلوسی حنفی، علامہ ابوالحیان اندلسی اور شیعہ مفسر شیخ طوسی وغیرہ سب اس پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج آپ کی صاحبزادیوں اور عام مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت کی بناء پر گھر سے باہر نکلیں تو اپنی چادروں کا پلوا اپنے چہرے پر ڈال کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیں۔
ان تفاسیر سے یہ ظاہر ہوگیا کہ سورة نور میں عورتوں کو جو چہرے اور ہاتھوں کے سوا تمام جسم کے ستر کا حکم دیا گیا تھا اس آیت میں اس سے زائد حکم بیان کیا گیا ہے کہ وہ اجنبی مردوں کے سامنے اپنے چہروں کو بھی ڈھانپ کر رکھیں۔
مصنف یہ کہتا ہے کہ آج بھی یہی طریقہ ہے جو عورت مکمل پردہ میں باہر نکلتی ہے وہ کسی شخص کی ہوا و ہوس کا نشانہ نہیں بنتی اس پر کوئی بری نظر ڈالتا ہے نہ کوئی آواز کستا ہے، نہ اس کا پیچھا کرتا ہے اور جو عورت بےپردہ تنگ اور چست لباس پہن کر، سرخی پائوڈر سے میک اپ کر کے اور اپنے لباس پر پر فیوم اسپرے کر کے خوشبوئوں کلی لپٹوں میں گھر سے نکلتی ہے وہ تمام ہوس ناک نگاہوں کا ہدف بنتی ہے اوباش لوگ اس پر آوازیں کستے ہیں اور چھیڑ خانی کرتے ہیں اور بسا اوقات اس کی عزت لٹ جاتی ہے۔ العیاذ باللہ ! ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو کہتے ہیں اسلام عورت کو پردے کی بوبو بنانا چاہتا ہے ! مغربی ممالک میں جہاں کوئی پردہ ہے نہ کوئی حدود وقیوم ہیں لڑکیاں نیم عریاں لباس میں برسر عام پھرتی ہیں اور راہ چلتے برسر عام مرد اور عورت بوس و کنار کرتے ہیں، پارکوں اور تفریح گاہوں میں بغیر کسی پردے اور حجاب کے حیوانوں کی طرح مرد اور عورتیں ہم آغوش ہوتے ہیں اور جنسی عمل کرتے ہیں، ایک لڑکی کئی کئی بوائے فرینڈز رکھتی ہے، دفتروں، کارخانوں، ہوٹلوں اور سیرگاہوں میں ہر جگہ مرد اور عورت ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ایک ساتھ کام کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ناجائز بچوں سے ان کی سڑکیں بھری رہتی ہیں اور ہسپتالوں میں اسقاط حمل کرانے والی عورتوں کی بھرممار رہتی ہے اور اس جنسی بےراہی روی سے ان کا ذہنی سکون جاتا رہتا ہے اور وہ لوگ مالیخولیائی کیفیات میں مبتلا ہوجاتے ہیں پھر وہ سکون اور نروان کی تلاش میں سستے نشوں کی تلاش میں پھرتے ہیں۔ پہلے وہ اپنے آپ کو شراب میں ڈبو دیتے تھے لیکن اس سے بھی ان کو سکون نہیں ملا، اب وہ چرس، کو کین، ہیروئن اور راکٹ کی پناہ لیتے ہیں وہ ایسا تیز سے تیز نشہ چاہتے ہیں جو ان کے ذہن کو زیادہ سے زیادہ دیر کے لئے سلا دے، بےحس کر دے اور دنیا اور مافیہا سے بیخبر کر دے۔ مغربی ممالک کی حکومتیں ان منشیات پر پابندیاں لگا رہی ہیں اس کے باوجود منشیات کی کھپت بڑھتی جا رہی ہے، پابندیوں سے کام نہیں چلے گا لوگ سکون چاہتے ہیں ان کو سکون مہیا کیجیے راکٹ اور مارفیا کا سکون ناپائیدار اور عاضری ہے، صحت کے لئے تباہ کن ہے، حقیقی سکون صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت میں ہے :
(الانعام : ٨٢) جو لوگ ایمان لائے اور ایمان کے ساتھ انہوں نے گناہ نہ کئے (یعنی اسلامی احکام کی مخالفت اور ان سے بغاوت نہیں کی) انہی کے لئے امن اور سکون ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔
یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ جنسی بےاعتدالی اور بےراہ روی انسان کے ذہنی سکون کو ختم کردیتی ہے، اس لئے اگر ہم دنیا کو ذہنی سکون فراہم کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو جنسی بےراہ روی اور بد چلنی کو ختم کرنا ہوگا اور اس کی پہلی بنیاد پردہ اور حجاب ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(الاحزاب : ٥٩) یہ پردہ ان کی شناخت کے بہت قریب ہے (کہ وہ آزاد وتریں ہیں آوارہ گرد باندیاں نہیں ہیں) سو ان کو ایذا نہ دی جائے۔
علامہ محمد امین بن مختار جگنی شنفطی لکھتے ہیں :
صحابہ کرام اور مابعد کے تمام مفسرین نے یہ تفسیر کی ہے کہ اہلم دینہ کی خواتین رات کو قضاء حاجت کے لئے گھروں سے باہر نکلتیں تھیں اور مدینہ میں بعض فساق تھے جو باندیوں کی پیچھے پڑجاتے تھے اور آزاد عورتوں سے تعرض نہیں کرتے تھے اور بعض آزاد عورتیں ایسی وضع میں نکلتی تھیں جس سے وہ باندیوں سے ممتاز نہیں ہوتی تھیں، سو وہ فساق ان کو بھی باندیاں سمجھ کر ان کے پیچھے پڑجاتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی ازواج اپنی صاحبزادیوں اور مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیں کہ وہ اپنی وضع قطع میں باندیوں سے ممتاز رہیں بایں طور کہ چادروں سے اپنا چہرہ چھپائے رکھیں اور جب وہ ایسا کریں گی تو فساق کو پتا چل جائے گا کہ یہ آزاد عورتیں ہیں اور ان کو ستایا نہیں جائے گا، اہل علم نے اس کی یہی تفسیر کی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فساق کا باندیوں کو چھیڑنا اور ان سے فحش حرکات کرنا جائز ہے بلکہ یہ حرام ہے اور ان فحش کاموں کے در پے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں داخل ہیں والذین فی قلوبھم مرض ” وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے۔ “ (اضواء البیان ج ٦ ص 587-588)
مذاہب اربعہ کے بعض متقدمین فقہاء اور مفسرین نے یہ کہا ہے کہ عورت کے چہرہ کو شہوت سے دیکھنا حرام ہے اور بلا شہوت دیکھنا جائز ہے، اسی طرح انہوں نے کہا کہ عورت اپنے چہرہ کو چھپانا واجب نہیں ہے اس کے برخلاف بعض دور سے فقہاء اور مفسرین نے یہ کہا ہے کہ عورت پر اپنا چہرہ چھپانا واجب ہے اور یہی قول قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق ہے کیونکہ چہرہ کے علاوہ باقی جسم کو چھپانا تو عورت پر پہلے بھی فرض تھا جیسا کہ سورة نور میں ستر کے احکام نازل ہونے سے ظاہر ہوگیا ہے اور اس کے بعد سورة الاحزاب میں جو حجاب کی آیات نازل ہوئیں ان میں ستر سے ایک زائد حکم بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ غیر محرم اور اجنبی مردوں کے سامنے عورتیں اپنے چہروں کو بھی ڈھانپ رکھیں۔
علامہ ابوبکر رازی جصاص حنفی، مجتہدفی المسائل ہیں، وہ لکھتے ہیں :
ابوبکر رازی کہتے ہیں کہ اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ جو ان عورتوں کو اجنبیوں سے اپنا چہرہ چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اور گھر سے باہر نکلتے وقت پردہ کرنے اور پاکیزگی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ آوارہ لوگوں کے دلوں میں بری، خواہش پیدا نہ ہو۔ (احکام القرآن ج ٣ ص 372 لاہور)
چونکہ بوڑھی عورتوں کے حجاب کے متعلق قرآن مجید میں تخفیف کی گئی ہے اس لئے علامہ ابوبکر رازی نے حجاب کی اس آیت کو جوان عورتوں پر محمول کیا ہے اور اس عبارت میں یہ تصریح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ان عورتوں کو چہرہ ڈھانپنے کا امر کیا ہے اور امر کا تقاضا وجوب ہے اس لئے جو عورتیں بوڑھی نہ ہوں ان پر اپنے چہرہ کو چھپانا واجب ہے۔
بوڑھی عورتوں کے حجاب میں تخفیف سے عمومی حجاب پر استدلال
جس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بوڑھی عورتوں کے حجاب میں تخفیف کی ہے وہ یہ ہے :
(النور : ٦٠) وہ بوڑھی عورتیں جن کو نکاح کی امید نہیں ہے اگر وہ اپنے (چہرہ ڈھاپننے کے) کپڑے اتار دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے درآں حالیکہ وہ اپنی زینت دکھاتی نہ پھریں اور اگر وہ اس سے بچیں (یعنی نقاب نہ اتاریں) تو یہ ان کے لئے بہتر ہے۔
اس آیت میں بوڑھی عورتوں کو جن کپڑوں کے اتارنے کی اجازت دی ہے اس سے مراد وہ چادریں ہیں جن سے آیت جلباب میں چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اس آیت سے یہ تو ہرگز مراد نہیں ہے کہ بوڑھی عورت قمیض اور شلوار اتار کر بالکل برہنہ ہوجائے کیونکہ یہ کھلی بےحیائی ہے اور نہ یہ مراد ہے کہ بوڑھی عورت سینہ سے دوپٹہ اتار کر اپنے سینہ کا ابھار لوگوں کو دکھاتی پھرے کیونکہ غیر متبرجات بزینۃ میں اس سے منع کردیا ہے، تو پھر معین ہوگیا کہ اس آیت میں بوڑھی عورتوں کو چہرہ سے صرف نقاب اتارنے کی اجازت دی ہے یا اس چادر کو اتارنے کی اجازت دی ہے جس سے آیت جلباب میں چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا ہے۔ نیز یہ فرمایا کہ ان کے لئے بھی افضل اور مستحب یہی ہے کہ وہ اس چادر کو نہ اتاریں اور چہرہ ڈھانپ کر رکھیں اور اس آیت سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ جو عورتیں سن ایاس کو نہ پہنچی ہوں ان پر چہرہ چھپانا لازم اور واجب ہے۔
علامہ ابوبکر رازی جصاص الحنفی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
حضرت ابن مسعود اور مجاہد نے بیان کیا کہ یہاں وہ بڑھی عورتیں مراد ہیں جو نکاح کا ارادہ نہ رکھتی ہوں اور جن کپڑوں کو اتارنے کی اجازت دی اس سے مراد جلابیب (وہ چادریں جن کے پلو سے چہرہ ڈھانپتے ہیں) ہیں، حس نے کہا جلابیت اور پٹکے مراد ہیں، ابراہیم اور ان جبیر نے کہا چادر مراد ہے جابر بن زید سے چادر اور دوپٹے کی روایت ہے، علامہ ابوبکر اس روایت کو مسترد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بوڑھی عورت کے بال بالا اتفاق ستر ہیں جس طرح جوان عورت کے بال ستر ہیں، اس لئے اجنبی شخص کا بوڑھی عورت کے بالوں کو یکھنا جائز نہیں ہے، اور اگر بوڑھی عورت نے ننگے سر نماز پڑھی تو جوان کی طرح اس کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی اس لئے اس آیت سے یہ مراد نہیں ہوسکتا کہ بوڑھی عورت اجنبی مردوں کے سامنے اپنا دوپٹہ اتار دے۔ اگر یہ سوال ہو کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بوڑھی عورت کو تنہائی میں دوپٹہ اتارنے کی اجازت دی ہے، جبکہ اسے کوئی دیکھ نہ رہا ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ پھر بوڑھی عورتوں کی تخصیص کی کیا ضرورت ہے کیونکہ جوان عورت بھی تنہائی میں اپنا دوپٹہ اتار سکتی ہے، اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ جب بوڑھی عورت کا سرڈھکا ہوا ہو تو وہ لوگوں کے سامنے اپنی جلباب اتار سکتی ہے اور اس کے لئے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کھولنا جائز ہے کیونکہ اس پر شہوت نہیں آتی۔ (احکام القرآن ج ٣ ٢٤، لاہور)
علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
صحیح یہ ہے کہ وہ بوڑھی عورت بھی سیرت میں جوان عورت کی طرح ہے مگر بوڑھی عورت اس جلباب کو اتار سکتی ہے جو قمیص اور دوپٹہ کے اوپر اوڑھا ہوا ہوتا ہے حضرت ابن مسعود اور ابن جبیر وغیرہ کا یہی قول ہے۔
امام رازی لکھتے ہیں :
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بوڑھی عورتوں کو تمام کپڑے اتارنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس سے ہر ستر کا کھولنا لازم آئے گا اس لئے مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں کپڑے سے مراد وہ جلباب چادریں اور اوڑھنیاں ہیں جن کو دوپٹہ کے اوپر اوڑھنا جاتا ہے۔ (تفسیر کبیرج ٦ ص 307 دا الفکر بیروت، 1398 ھ)
علامہ ابن جوزی حنبیلی متوفی 597 ھ لکھتے ہیں :
اس آیت میں کپڑوں سے مراد وہ جلباب، چادریں اور اوڑھنیاں ہیں جو دوپٹہ کے اوپر ہوتی ہیں، تمام کپڑے اتارنا مراد نہیں ہیں، قاضی ابویعلی نے کہا بوڑھی عورت کا اجنبی مردوں کے سامنے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کھولنا جائز ہے اور اس کے بالوں کو دیکھنا جوان عورت کے بالوں کو دیکھنے کی طرح ناجائز ہے۔ (زاد المسیرج ٦ ص 63 بیروت)
مذاہب اربعہ کے مفسرین کی تصریحات سے یہ ظاہر ہوگیا کہ وہ بوڑھی عورت جس کو نکاح کی امید نہ ہو اور جو سن ایاس کو پہنچ چکی ہو صرف اس کو اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت دی ہے کہ وہ اجنبی مردوں کے سامنے وہ جلباب اتار سکتی ہیں جس کے آنچل سے چہرے کو ڈھانپا جاتا ہے اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کو ظاہر کرسکتی ہے پھر بھی اس کے لئے افضل اور مستحب یہی ہے کہ اجنبی مردوں کے سامنے اپنے چہرے کو ڈھانپ کر رکھے۔
اب اگر بوڑھی عورتوں کے علاوہ دوسری عورتوں کے لئے بھی اجنبی مردوں کے سامنے اپنا چہرہ کھولنا جائز ہو تو بتلائے اس آیت میں بوڑھی عورتوں کی تخصیص کا کیا فائدہ ہوا ؟ اور جب بوڑھی عورتوں کے لئے بھی اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ چھپانا مستحب ہے تو جوان عورتوں کے چہرہ چھپانے کے واجب ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے !
عہد رسالت میں حجاب اور نقاب کے معمولات
امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (خیبر سے) مدینہ تشریف لائے درآں حالیکہ آپ نے حضرت صفیہ بنت حیی سے شادی کی ہوئی تھی انصار کی عورتوں نے آ کر حضرت صفیہ کے متعلق بیان کیا میں نے اپنا حلیہ بدلا اور نقاب پہن کر (انہیں دیکھنے) گھر سے نکلی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری آنکھ کو دیکھ کر پہچان لیا، میں (واپس) تیزی سے دوڑی، آپ نے مجھے پکڑ کر گود میں اٹھا لیا اور فرمایا : تم نے (ان کو) کیسا پایا، میں نے کہا اس یہودی عورت کو یہودیوں میں بھیج دیجئے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1980)
اس حدیث میں حضرت عائشہ (رض) کے نقاب پہننے کا ذکر ہے اور یہ کہ ازواج مطہرات اور مسلم خواتین جب کسی ضرورت سے گھر سے باہر نکلتی تھیں تو نقاب پہنتی تھیں یا چادروں سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیتی تھیں۔
امام بخاری حضرت عائشہ (رض) سے واقعہ افک کی حدیث میں روایت کرتے ہیں :
میں اپنے پڑائو پر بیٹھی ہوئی تھی کہ مجھ پر نیند غالب آگئی اور میں سو گئی اور حضرت صفوان بن معطل اسلمی (رض) لشکر کے پیچھے تھے، وہ رات کے آخری حصہ میں چلے اور صبح کے وقت میرے پڑائو پر پنچے تو انہوں نے ایک انسانی ہیولا دیکھا، جب وہ میرے پاس آئے تو انہوں نے مجھے پہچان لیا کیونکہ انہوں نے حجاب کے حکم سے پہلے مجھے دیکھا ہوا تھا انہوں نے کہا انا للہ وانا الیہ راجعون میں یہ سن کر بیدار ہوگئی اور میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4141)
یہ حدیث اس بات کی واضح اور روشن دلیل ہے کہ احکام حجاب نازل ہونے کے بعد ازواج مطہرات چادروں سے اپنے چہروں کو ڈھانپتی تھیں۔ وللہ الحمد۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ ! آپ احرام میں ہمیں کون سے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قمیض اور شلواریں نہ پہنو، عمایم اور ٹوپیاں نہ پہونو، البہت اگر کسی کے پاس جوتیاں نہ ہوں تو وہ موزے پہن سکتا ہے لیکن ان کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس کو زعفران یاورس (ایک گھاس جس سے سرخ رنگ نکلتا ہے) سے رنگا ہوا ہو اور احرام کی حالت میں عورت نقاب ڈالے نہ دستانے پہنے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1838، سنن ابودائود رقم الحدیث :1823، صحیح مسلم رقم الحدیث :1177 سنن النسائی رقم الحدیث :2666)
احرام میں نقاب ڈالنے کی ممانعت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عام حالات میں خواتین نقاب ڈالتی تھیں۔
حضرت شماس (رض) روایت کرتے ہیں کہ ام خلاد نام کی ایک عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی درآں حالیکہ اس نے نقاب پہنی ہوئی تھی۔ اس کا بیٹا شہید ہوگیا تھا وہ اس کے متعلق پوچھنے آئی تھی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض صحابہ نے کہا : تم اپنے بیٹے کے متعلق پوچھ رہی ہو اور اس حال میں بھی تم نے نقاب پہنی ہوئی ہے ! اس نے کہا میں نے اپنے بیٹا کھویا ہے اپنی حیاء نہیں کھوئی۔ (نن ابودائود رقم الحدیث :2488)
عہد توریت میں نقاب اور حجاب کا معمول
اسلام سے پہلے دوسرے آسمانی مذاہب میں بھی حجاب اور نقاب کے ساتھ گھروں سے باہر نکلنے کی ہدایت کی جاتی تھی، تو ریت میں ہے :
اور ربقہ نے نگاہ کی اور اضحاق کو دیکھ کر اونٹ سے اتر پڑی۔ اور اس نے نوکر سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے جو ہم سے ملنے کو میدان میں چلا آ رہا ہے اس نوکر نے کہا یہ میرا آقا ہے۔ تب اس نے برقع لے کر اپنے اوپر ڈال لیا۔ (پیدائش : باب ٢، آیت 65-66)
اور تم کو یہ خبر ملی کہ تیرا خسر اپنی بھیڑوں کو پشم کترنے کے لئے تمنت کو جا رہا ہے۔
تب اس نے اپنے رنڈاپے کے کپڑوں کو اتار پھینکا اور برقع اوڑھا اور اپنے کو ڈھانکا۔ (پیدائش : باب 37، آیت :14-15)
پھر وہ اٹھ کر چلی گی اور برقع اتار کر رنڈاپے کا جوڑا پہن لیا۔ (پیدائش : باب 38، آیت :20)
چہرے کے حجاب پر شبہات اور ان کے جوابات
بعض احادیث بظاہر حجاب کے خلاف ہیں جن میں اجنبی مردوں کی طرف دیکھنے اور عورتوں کے اجنبی مردوں کی طرف دیکھنے کا ثبوت ہے اسی لئے ہم ان احادیث کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، امام مسلم روایت کرتے ہیں، حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اپنی چادر میں چھپائے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کی طرف دیکھ رہی تھی درآں حالیکہ وہ (جنگی کھیل) کھیل رہے تھے، میں اس وقت لڑکی تھی، سوچو کہ کم عمر شائقہ لڑکی کے شوق کا کیا عالم ہوگا ! (صحیح مسلم رقم الحدیث :2029)
اس حدیث میں مردوں کے کھیل کی طرف دیکھنے کا جواز ہے، جبکہ مردوں کے بدن کی طرف (پسندیدگی سے) نہ دیکھا جائے اور عورتوں کا اجنبی مرد کے چہرہ کی طرف شہوت سے دیکھنا حرام ہے اور بغیر شہوت کے دیکھنے میں دو قول ہیں اور زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقل للمومنات یغضضن من ابصارھن ” آپ مسلمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ام سلمہ اور حضرت ام حبیبہ (بلکہ حضرت میمونہ) سے فرمایا ” تم دونوں تو نابینا نہیں ہو، تم اس سے (یعنی حضرت ابن ام مکتوم سے) پردہ کرو “ یہ حدیث حسن ہے اس کو امام ترمذی اور دور سے ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے اور حضرت عائشہ (رض) کی اس روایت کے دو جواب ہیں، قوی جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت عائشہ نے ان کے چہروں اور بدنوں کی طرف (بالذات) دیکھا تھا اس حدیث میں صرف یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے ان کے کھیل اور ان کی جنگ کی طرف دیکھا تھا اور ان کی جنگی مشقوں کے دیکھنے سے یہ الزم نہیں آتا کہ حضرت عائشہ نے ان کے بدن کی رطف دیکھا ہو اور اگر بالفرض حضرت عائشہ کی نظر بلا قصدان کے بدن پر پڑگئی تو آپ نے فوراً نظر کو ہٹا یا تھا، دوسرا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ واقعہ حجاب نازل ہونے سے پہلے کا ہو اور تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ اس وقت کمسن تھیں اور حد بلوغ کو نہیں پہنچیں تھیں۔
دوسری حدیث جس سے حجاب کے خلاف شبہ پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ امام بخاری نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ان سے ایک شخص نے سوال کیا آپ عید الفطر یا عید الاضحیٰ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا ہاں ! اگر میں اس وقت کمسن نہ ہوتا تو حاضر نہ ہوتا ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (عیدگاہ) گئے اور آپ نے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا اور اذان کا ذکر کیا نہ اقامت کا، پھر آپ عورتوں کے پاس گئے ان کو وعظ و نصیحت کی اور ان کو صدقہ دینے کا حکم دیا پھر میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے کانوں اور گلوں کی طرف ہاتھ بڑھائے اور حضرت بلال کو زیورات دیئے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :977)
اس حدیث سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت بلال نے اس موقع پر اجنبی عورتوں کو دیکھا، حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کا جواب تو خود اس حدیث میں ہے کہ وہ کم سن تھے اور حضرت بلال اگرچہ اس وقت آزاد ہوچکے تھے لیکن وہ عورتیں حجاب میں لپٹی ہوئی تھیں اور اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ حضرت بلال نے ان کے چہروں کی طرف دیکھایا ان کے چہرے کھلے ہوئے اور بےحجاب تھے۔
ایک اور حدیث جس سے حجاب کے خلاف شبہ پیش کیا جاتا ہے یہ ہے، امام بخاری روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حجتہ الوداع کے موقع پر حضرت فضل بن عباس، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے، قبیلہ شعم کی ایک عورت نے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھا، حضرت فضل اس عورت کی طرف دیکھنے لگے او وہ عورت حضرت فضل کی طرف دیکھنے لگی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فضل (رض) کا چہرہ دوسری رف کردیا، اس عورت نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے اور میرا باپ بہت بوڑھا ہے سواری پر بیٹھ کر حج نہیں کرسکتا، کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! اور یہ حجتہ الوداع کا واقعہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6228)
بعض علماء نے کہا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے چہرہ پر نقاب ڈالنا اور حجاب کرنا واجب نہیں ہے ورنہ وہ عورت بےپردہ نہ آتی اور اگر آہی گئی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو چہر چھپانے کا حکم دیتے۔
حاظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ عورت محرمہ تھی البتہ اس کے برخلاف اس حدیث میں یہ ثبوت ہے کہ اجنبی عورت کے چہرہ کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے، اس لئے نبی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے حضرت فضل بن عباس کی گردن پھیر دی، جامع ترمذی میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” میں نے جوان مرد اور جوان عورت کو دیکھا اور میں ان پر شیطان (کے حملہ) سے بےخوف نہیں ہوا۔ “ اس وجہ سے آپ نے حضرت فضل بن عباس کی گردن کو دوسری طرف پھیر دیا۔ اجنبی مردوں اور عورتوں کے ایک دور سے کی طرف دیکھنے کے معاملہ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام پر اعتماد نہیں تھا حالانکہ خوف خدا اور تقویٰ اور پرہیز گاری میں ان کا سب سے اونچا مقام تھا تو پھر بعد کے لوگوں پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے اور یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اگر ان کو شہوت کا خطرہ نہ ہو تو پھر وہ اجنبی عورتوں کو دیکھ سکتے ہیں، اس لئے جن بعض فقہاء نے یہ کہا ہے کہ اگر شہوت کا خطرہ نہ ہو تو اجنبی عورت کو یکھنا جائز ہے، یہ صحیح نہیں ہے، صحیح یہی ہے کہ اجنبی عورتوں کو دیکھنا مطلقاً جائز نہیں ہے، البتہ ضرورت کے مواقع اس سے مستثنیٰ ہیں جن کو ہم نے اس سے پہلے تفصیل سے بیان کردیا ہے، اس لئے اس حدیث پر غور کرنا چاہیے :
(سنن الترمذی الحدیث :885) حضرت عباس نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے اپنے غم زاد کی گردن کیوں پھیر دی آپ نے فرمایا میں نے مرد اور جوان عورت کو دیکھا اور میں ان پر شیطان (کے حملہ) سے بےخوف نہیں ہوا۔
بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں غض بصر ” نگاہیں نیچی رکھنے کا “ حکم دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ چہرہ چھپانا ضروری نہیں ہے بس نگاہیں نیچی کرلینا کافی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں صرف غض بصر کا حکم نہیں ہے چہرہ چھپانے کا بھی حکم ہے جیسا کہ ہم نے آیات حجاب میں اس کو بیان کردیا ہے۔ رہا یہ سوال کہ جب عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی چھپانے کا بھی حکم ہے جیسا کہ ہم نے آیات حجاب میں اس کو بیان کردیا ہے۔ رہا یہ سوال کہ جب عورتوں کو کھلے نہ پھرنے کی اجازت ہی نہیں ہے تو پھر غض بصر کے حکم کی کیا ضرورت ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عورت کے نقاب اور حجاب میں رہنے کے باوجود ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں جب اچانک کسی مرد اور عورت کا سامنا ہوجائے اور ایک باپردہ عورت کو بھی نماز اور حج کے مواقع پر چہرہ کھولنے سے سابقہ پڑجاتا ہے سو ایسے تمام مواقع پر مردوں اور عورتوں دونوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
خواتین کے ستر اور حجاب اور اس سے متعلقہ جملہ مسائل پر ہم نے شرح صحیح مسلم میں بہت مفصل اور جامع گفتگو کی ہے اس کے لئے شرح صحیح مسلم ج ٥ ص 612-691 کا مطالعہ فرمائیں اس موضوع پر اس سے زیادہ بحث شاید اور کہیں نہ مل سکے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 59