يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰى فَبَـرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَكَانَ عِنۡدَ اللّٰهِ وَجِيۡهًا ۞- سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 69
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰى فَبَـرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَكَانَ عِنۡدَ اللّٰهِ وَجِيۡهًا ۞
ترجمہ:
اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسیٰ کو اذیت پہنچائی تھی، تو اللہ نے موسیٰ کو ان کی تہمت سے بری کردیا، اور وہ اللہ کے نزدیک معزز تھے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جانا، جنہوں نے موسیٰ کی اذیت پہنچائی تھی تو اللہ نے موسیٰ کو ان کی تہمت سے بری کردیا اور وہ اللہ کے نزدیک معزز تھے۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور درست بات کہا کرو۔ اللہ تمہارے لئے تمہارے اعمال کو دسرت فرما دے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور جس نے اللہ کی اطاعت کی اور اس کے رسول کی، تو اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔ (الاحزاب :69-71)
منافقوں کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اذیت ناک کلام کرنا اور آپ کا ان کو سزا نہ دینا
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان منافقین اور ان کفار کا ذکر کیا تھا جنہوں نے اپنی باتوں سے اللہ تعالیٰ کو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور مسلمانوں کو اذیت پہنچائی تھی، اب اس آی میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ نادانستگی میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اذیت کا موجب ہو۔
علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی البصری الشافعی المتوفی 450 ھ لکھت یہیں :
مسلمانوں کی جن باتوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت پہنچی تھی اس میں دو قول ہیں :
(١) نقاش نے کہا بعض مسلمان حضرت زید بن حارثہ (رض) کو زید بن محمد کہتے تھے اس سے آپ کو اذیت پہنچتی تھی۔
(٢) ابو وائل نے کہا بعض مسلمانوں نے آپ کی تقسیم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا یہ تقسیم اللہ کی رضا کے لئے نہیں ہے اس سے آپ کو اذیت پہنچی تھی۔ (النکت والعیون ج ٤ ص 426، دارالکتب العلمیہ بیروت)
ابو وائل نے جس اعتراض کا حوالہ دیا ہے اس کا ذکر اس حدیث میں ہے :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنگ حنین کے دن مال غنیمت کی قسیم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض مسلمانوں کو ترجیح دی، آپ نے اقرع بن حابس کو سو اونٹ عطا فرمائے، عینیہ کو بھی آپ نے اتنے ہی اونٹ دیئے، عرب کے دیگر سرداروں کو بھی آپ نے زیادہ دیا تو ایک شخص نے یہ کہا : اللہ کی قسم ! اس تقسیم میں عدل نہیں کیا گیا اور نہ اس سے اللہ کی رضا کا ارادہ کیا گیا ہے، میں نے دل میں کہا اللہ کی قسم ! میں ضرور اس بات کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دوں گا میں نے آپ کو خبر دی (دوسری روایت میں ہے آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا) آپ نے فرمایا جب اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کرے گا تو اور کون عدل کرے گا، اللہ حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے ان کو اس سے زیادہ اذیت پہنچائی گئی تھی سو انہوں نے صبر کیا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدی :6059-3150 صحیح مسلم رقم الحدیث :1062، مسند احمد رقم الحدیث :3608 عالم الکتب )
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن لوگوں کو دوسروں سے زیادنہ مال غنیمت عطا کیا تھا یہ مئولفتہ القلوب تھے، تہذیب و تمدن سے نا آشنا بادیہ نشین تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی دل جوئی اور ان کو اسلام پر ثابت قدم اور برقرار رکھنے کے لئے اوروں سے زیادہ دیتے تھے۔
جس شخص نے آپ کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا اس کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ علامہ و اقدینے لکھا ہے کہ اس کا نام معتب بن قشیر تھا، اس کا تعلق بنو عمرو بن عوف سے تھا اور یہ منافقین میں سے تھا۔ (فتح الباری ج ٨ ص 379، دارالفکر بیروت، 1419 ھ)
علامہ محمد بن عمر بن واقد المتوفی 207 ھ نے اس واقعہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ (کتاب المغازی للواقدی ج ٣ ص 949 عالم الکتب بیروت، 1404 ھ)
علامہ محمد بن عمر بن واقد المتوفی 207 ھ نے اس واقعہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ (کتاب المغازی للواقدی ج ٣ ص 949 عالم الکتب بیروت، 1404 ھ)
علامہ عینی لکھتے ہیں : قاضی عیاض مالکی متوفی 544 ھ نے یہ کہا ہے کہ جس شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو برا کہا وہ کافر ہوگیا اور اس کو قتل کیا جائے گا اس پر یہ اعتراض ہے کہ اس حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ اس شخص کو قتل کیا گیا تھا علامہ مازری نے اس کے جواب میں یہ کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس کے کلام سے نبوت میں طعن ظاہر نہ ہوتا ہو اور اس کا مطلب صرف یہ ہو کہ آپ نے تقسیم میں عدل نہیں کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس لئے سزا نہ دی ہو کہ آپ کے نزدیک اس کا طعن اور اعتراض ثابت نہیں ہوا تھا، کیونکہ صرف ایک شخص (حضرت ابن مسعود (رض) نے اس کا طعن نقل کیا تھا اور صرف ایک شخص کی شہادت پر کسی کو قتل نہیں کیا جاتا۔ (عمدۃ القاری ج ٥ ١ ص 101 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1421 ھ)
علامہ عینی نے قاضی عیاض مالکی پوری عبارت نقل نہیں کی، قاضی عیاض مالکی نے اس کے بعد علامہ مازری کے جواب کو رد کردیا ہے وہ لکھتے ہیں :
علامہ مازری کا یہ جواب اس لئے مردود ہے کہ اس شخص نے کہا تھا : اے محمد ! عدل کیجیے ! اے محمد اللہ سے ڈریئے اور اس نے لوگوں کے سامنے یہ طعن کیا تھا، حتیٰ کہ حضرت عمر (رض) نے اور حضرت خالد (رض) نے اس کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : معاذ اللہ ! لوگ یہ کہیں گے کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کو قتل کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ دیگر منافقین کے متعلق بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہی رویہ تھا آپ نے متعدد بار منافقین سے اس قسم کا اذیت ناک کلام سنا لیکن آپ نے دیگر مسلمانوں کو اسلام پر برقرار رکھنے کے لئے صبر اور حلم سے کام لیا، تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ آپ اپنے اصحاب کو قتل کردیتے ہیں اور اسلام سے برگستہ ہوں اور اسلام قبول کرنے سے گریز کریں، ہم نے الشفاء کی القسم الرابع میں تفصیل سے لکھا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی تنقیص کرنا کفر ہے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٣ ص 608، دارالوفاء بیروت، 1419 ھ)
انبیاء (علیہم السلام) کا جسمانی عیوب سے بری ہونا اور دیگر مسائل
نبو اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جو ایذاء رساں کلام کیا تھا اس کی مفسرین نے دو تقریریں کی ہیں ایک یہ ہے :
(١) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بنو اسرائیل برہنہ نہایا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہتے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تنہائی میں غسل کرتے تھے تو بنو اسرائیل آپس میں کہنے لگے کہ حضرت موسیٰ جو ہمارے ساتھ مل کر غسل نہیں کرتے اس کی ضرور یہی وجہ ہے کہ ان کیخصیے غیر معملوی بڑے ہیں (یعنی ان میں جسمانی عیب ہے اس کو چھپانے کے لئے یہ تنہا غسل کرتے ہیں) ایک مرتبہ حضرت موسیٰ غسل کرنے گئے اور اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے وہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگ یا حضرت موسیٰ اس کے پچیھے یہ کہتے ہوئے دوڑے اے پتھر ! میرے کپڑے دو ، حتیٰ کہ بنو اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو دیکھ لیا اور انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! حضرت موسیٰ میں تو کوئی جسمانی عیب نہیں ہے، حضرت موسیٰ نے اس پتھر سے اپنے کپڑے لے لئے اور اس پتر پر لاٹھی سے ضرب لگائی۔ حضرت ابوہریرہ نے قسم کھا کر کہا اس پتھر پر حضرت موسیٰ کی ضرب سے متعدد نشانات پڑگئے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :278 صحیح مسلم رقم الحدیث :239، مسند احمد رقم الحدیث :8158)
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ انسان تنہائی میں برہنہ غسل کرسکتا ہے، ہرچند کہ تنہائی میں بھی چادر باندھ کر غسل کرنا افضل ہے، کیونکہ یعلی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو میدان میں غسل کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے منبر پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا بیشک اللہ حیا دار ہے، پردہ کرنے والا ہے، وہ حیاء اور پردہ کو پسند کرتا ہو سو جب تم میں سے کوئی شخص غسل کرے تو وہ پردہ کرے لے (سنن النسائی رقم الحدیث :404) دوسری روایت میں ہے : جب تم میں سے کوئی شخص غسل کا ارادہ کرے تو اپنے آپ کو کسی کپڑے سے چھپالے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث :405 سنن ابو دائود رقم الحدیث :4012-4013)
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب تم عجم کے ممالک کو فتح کرو گے، وہاں تم حمام دیکھو گے سو جب تم حمام میں داخل ہو تو بغیر تہبند کے داخل نہ ہونا۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث :4011 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3748)
پتھر کے کپڑے لے کر بھاگنے والی حدیث میں یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو صوری اور معنوی اور جسمانی اور روحانی طور پر کامل پیدا کیا ہے اور ان کو جسمانی عیوب اور نقائص سے منزہ رکھا ہے، نیز اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بنو اسرائیل نے جس عیب کی حضر تمسویٰ (علیہ السلام) کی طرف نسبت کی تھی، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے اس عیب کی نسبت کو دور کردیا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کو یہ گوارہ نہیں ہے کہ اس کے نبی کی طرف کسی جسمانی عیب اور موجب نفرت مرض کو منسوب کیا جائے اور اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو حضرت ایوب (علیہ السلام) کے جسم میں کیڑے پڑنے کی اسرائیلی اور جھوٹی روایات کو بیان کرتے ہیں۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شرم گاہ کو چھپانے کا وجوب ہماری امت کی خصوصیت ہے کیونکہ بنی اسرائیل اکٹھے بےلباس ہو کر نہاتے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کو منع نہیں فرماتے تھے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پتھروں میں بھی شعور ہوتا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ نے فرمایا :” اے پتھر ! میرے کپڑے دے “ اور نبی کا کلام لغو نہیں ہوسکتا، پتھر کا کپڑے لے کر بھاگنا اور حضرت موسیٰ کا اس سے کلام فرمانا اور اس کو لاٹھی سے مارنا اور اس میں لاٹھی کے نشانات پڑجانا یہ سب امور خلاف عادت ہیں اور ان میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعدد معجزات ہیں۔
(٢) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بنی اسرائیل نے دوسری اذیت رساں بات جو کہی تھی اس کی تفصیل یہ ہے :
حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے اس آیت (الاحزاب : ٦٩) کی تفسیر میں کہا : حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) ایک پہاڑ پر چڑھے، حضرت ہارون (علیہ السلام) وہیں وفات پا گئے، تو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا آپ نے ان کو قتل کیا ہی اور وہ آپ کی بہ نسبت ہم سے زیادہ محبت کرنے والے تھے اور آپ کی یہ بہ نسبت زیادہ نرم مزاج تھے اور انہوں نے ان باتوں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اذیت پہنچائی، پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا تو وہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا جسم اٹھا کر لائے اور ان کی موت کی خبر دی، تب بنی اسرائیل نے سمجھ لیا کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) طبعی موت سے فوت ہوئے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی تہمت سے بری کردیا۔ (جامع البیان رقم الحدیث 21888، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
وجیہہ کا معنی
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :” وہ اللہ کے نزدیک وجیہ تھے۔ “
وجہ کا معنی ہے، چہرہ، وجیہ اس شخص کو کہتے ہیں جس کا چہرہ کسی کے نزدیک قدر و منزلت والا ہو اور وہ شخص اس کے نزدیک معزز اور مکرم ہو اور وہ اس کی کوئی بات رد کرتا ہو نہ ٹالتا ہو۔
امام رازی متوفی 606 ھ وجیہ کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وجیہ اس شخص کو کہتے ہیں جو نیکی میں معروف ہو اور جس کی سیرت پسندیدہ اور لائق تحسین ہو۔ (تفسری کبیرج ٩ ص 186، داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)
علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی 1137 ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وجیہ وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ س۔ جس چیز کا بھی سوال کرے اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز عطا فرما دے۔ (روح البیان ج ٧ ص 291، دار احیاء التراث العربی بیروت، 1421 ھ)
علامہ ابو الحسین علی بن محمد الماوردی المتوفی 450 ھ لکھتے ہیں :
ابن زید نے کہا اس کا معنی ہے مقبول، حسن بصری نے کہا اس کا معنی ہے مستجاب الدعوات، ابن سنان نے کہا دیدار کے سوا جس کے ہر سوال کو پورا کردیا ہو، قطرب نے کہا وجیہ، وجہ سے بنا ہے کیونکہ وجہہ (چرہ) جسم میں سب سے بلند عضو ہے۔ (النکت والعیون ج ٤ ص 427، دارالکتب العلمیہ بیروت)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 69