نگار سجاد ظہیر کی وال سے


امریکہ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کا مشترکہ اعلامیہ:

اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان، امریکی کوششوں کے نتیجے میں، قربتوں کا جو سلسلہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے شروع ہوا وہ ایک اور نتیجہ خیز موڑ پر آ پہنچا ہے، اور یہ موڑ یقینا تشویشناک ہے کیونکہ اب آگے کے مراحل نسبتا زیادہ تیزی سے طے ہوں گے ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور ابو ظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید(جو متحدہ عرب امارات کے ڈپٹی سپریم کمانڈر بھی ہیں ) کے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق اسرائیل اور یو اے ای کے وفود اگلے ہفتے ملاقات کر کے دو طرفہ تعلقات کے معاہدے پر دستخط کریں گے ۔اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک سرمایہ کاری، سیاحت،براہ راست پروازیں،سیکیورٹی، ٹیلی کمیونیکیشن، انرجی،ٹکنالوجی، صحت، کلچر اور ماحولیات کے شعبوں میں اشتراک عمل اور ایک دوسرے سے تعاون کریں گے ۔

اس اعلامیہ میں اسرائیل نے صرف اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ مزید فلسطینی علاقوں کا الحاق نہیں کرے گا ۔ حالانکہ اگر یہ ڈیل اسرائیل کے 1967 والی پوزیشن پر واپس جانے کی بنیاد پر ہوتی تو آج ہم بھی تالی بجانے والوں میں شامل ہوتے ۔یہ تو اب تک کے اسرائیلی قبضوں کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہے ۔

جوائنٹ اسٹیٹمنٹ کے یہ جملے عرب اور اسلامی ممالک کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں:

“…(Israel) focus its efforts now on expanding ties with other countries in the Arab and Muslim world. The US,Israel and UAE are confident that additional diplomatic breakthroughs with other nations are possible, and will work together to achieve this goal. “

مشرق وسطی کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ بین السطور کیا کہا جا رہا ہے ۔اس کے بعد مزید کچھ چھوٹے عرب ممالک کے ساتھ ایسے ہی معاہدے کئے جائیں گے پھر سعودی عرب اور اس کے بعد پاکستان کو شدید دباو میں ڈال کر اسی قسم کے معاہدے ہوں گے، اور اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اسرائیل کے حلقہ اثر میں آ جائے گی ۔

اسرائیل اپنے وعدوں اور باتوں میں کتنا سچا ہے اس کا اندازہ کل ہی ہو گیا تھا جب اسرائیل کے طیاروں نے غزہ پر ہوائی حملہ کیا اور غزہ کو گیس کی سپلائی ایک بار پھر بند کر دی۔

پاکستان کو سعودی عرب پر اپنا انحصار رفتہ رفتہ کم کرنا پڑے گا تاکہ وہ آقا بن کر ہمیں احکامات نہ دے سکے ۔

(نگار سجاد ظہیر )

امریکہ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کا مشترکہ اعلامیہ:

اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان، امریکی کوششوں کے نتیجے میں، قربتوں کا جو سلسلہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے شروع ہوا وہ ایک اور نتیجہ خیز موڑ پر آ پہنچا ہے، اور یہ موڑ یقینا تشویشناک ہے کیونکہ اب آگے کے مراحل نسبتا زیادہ تیزی سے طے ہوں گے ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور ابو ظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید(جو متحدہ عرب امارات کے ڈپٹی سپریم کمانڈر بھی ہیں ) کے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق اسرائیل اور یو اے ای کے وفود اگلے ہفتے ملاقات کر کے دو طرفہ تعلقات کے معاہدے پر دستخط کریں گے ۔اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک سرمایہ کاری، سیاحت،براہ راست پروازیں،سیکیورٹی، ٹیلی کمیونیکیشن، انرجی،ٹکنالوجی، صحت، کلچر اور ماحولیات کے شعبوں میں اشتراک عمل اور ایک دوسرے سے تعاون کریں گے ۔

اس اعلامیہ میں اسرائیل نے صرف اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ مزید فلسطینی علاقوں کا الحاق نہیں کرے گا ۔ حالانکہ اگر یہ ڈیل اسرائیل کے 1967 والی پوزیشن پر واپس جانے کی بنیاد پر ہوتی تو آج ہم بھی تالی بجانے والوں میں شامل ہوتے ۔یہ تو اب تک کے اسرائیلی قبضوں کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہے ۔

جوائنٹ اسٹیٹمنٹ کے یہ جملے عرب اور اسلامی ممالک کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں:

“…(Israel) focus its efforts now on expanding ties with other countries in the Arab and Muslim world. The US,Israel and UAE are confident that additional diplomatic breakthroughs with other nations are possible, and will work together to achieve this goal. “

مشرق وسطی کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ بین السطور کیا کہا جا رہا ہے ۔اس کے بعد مزید کچھ چھوٹے عرب ممالک کے ساتھ ایسے ہی معاہدے کئے جائیں گے پھر سعودی عرب اور اس کے بعد پاکستان کو شدید دباو میں ڈال کر اسی قسم کے معاہدے ہوں گے، اور اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اسرائیل کے حلقہ اثر میں آ جائے گی ۔

اسرائیل اپنے وعدوں اور باتوں میں کتنا سچا ہے اس کا اندازہ کل ہی ہو گیا تھا جب اسرائیل کے طیاروں نے غزہ پر ہوائی حملہ کیا اور غزہ کو گیس کی سپلائی ایک بار پھر بند کر دی۔

پاکستان کو سعودی عرب پر اپنا انحصار رفتہ رفتہ کم کرنا پڑے گا تاکہ وہ آقا بن کر ہمیں احکامات نہ دے سکے ۔

(نگار سجاد ظہیر )