جشن آزادی؟
(جشن آزادی؟)
وطن سے محبت ایک طبعی و فطری امر ہے. لیکن وطن کو جغرافیائی حدود و قیود کا پابند بنا کر دنیا( بالخصوص مسلمانوں) کو چھوٹے چھوٹے وطنوں میں تقسیم کر دینا عالمی اسلامی نظام خلافت کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہے، اس طرح مسلمانوں کی اجتماعی قوت پارہ پارہ اور بالکل ناکارہ ہو جاتی ہے، بین الاقوامی شیطانی طاقتیں جیسے چاہتی ہیں تسلی سے ان کی گردنیں دبوچ سکتی ہیں.
ابلیسی سیاست میں اسے نظریہ وطنیت (نیشنل ازم) کہا جاتا ہے.
یہ جو دنیا کے تمام مسلم و کافر ممالک میں ہر سال جشن آزادی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے یہ بھی بنیادی طور پر وسیع تر تناظر میں اسی نظریہ وطنیت کا شاخسانہ ہے.
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ شیطانی طاقتیں دینی قوتوں کو بڑی چابک دستی کے ساتھ دین ہی کے نام پر اپنے کافرانہ نظاموں اور فلسفوں کے لیے استعمال کر جاتی ہیں…
اہل دین اپنے بھول پن میں سمجھتے ہیں کہ وہ دین کی سر بلندی کے لیے کاوشیں کر رہے ہیں لیکن درحقیقت اور درپردہ گیم دوسری چل رہی ہوتی ہے..
یوم آزادی، جمہوری نظام، بینکاری نظام، کاغذی کرنسی، ہر وطن کا ایک بانی وغیرہ وغیرہ سب کے سب عالمی ایجنڈے کا سوچا سمجھا حصہ ہیں.
اہل دین کو ان دین دشمن امور سے پہلو تہی کرتے ہوئے اسلام کے عالمی نظام خلافت کے لیے متفقہ اور متحدہ جد و جہد کے متعلق سوچنا چاہیے.
یہ بھی ذہن میں رہے کہ نظریہ وطنیت کے فروغ کے لیے عالم کفر نے دراصل دیابنہ کے شرذمہ قلیلہ کو آگے کیا تھا، انہوں نے ہی سب سے پہلے یہ نعرہ لگایا تھا کہ قومیں أوطان سے بنتی ہیں..
جبکہ ان کے برعکس ہم اہل سنت کے نزدیک قومیں أوطان سے نہیں اسلام سے بنتی ہیں….
علامہ اقبال نے اپنے مزاج کے برعکس اسی لیے دیوبند کا باقاعدہ نام لے کر حسین احمد مدنی کو مخاطب کر کے بڑی شدت کے ساتھ ان الفاظ سے اس کے نظریہ وطنیت رد کیا تھا.
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں، ورنہ
ز دیوبند حُسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سرِ منبر کہ مِلّت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
مگر افسوس کہ آج اہل سنت بھی سہوا اسی نظریہ وطنیت کے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں.
نظریہ وطنیت کو سمجھنے کے لیے علامہ اقبال کی یہ نظم پوری توجہ کے ساتھ پڑھنے سمجھنے کی ضرورت ہے.
اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بِنا کی روِشِ لُطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کِیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبَوی ہے
بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے
نظّارۂ دیرینہ زمانے کو دِکھا دے
اے مصطفَوی خاک میں اس بُت کو ملا دے!
ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزادِ وطن صُورتِ ماہی
ہے ترکِ وطن سُنّتِ محبوبؐ الٰہی
دے تُو بھی نبوّت کی صداقت پہ گواہی
گُفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوّت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیّتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
(پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی)