جناب طاہر القادری صاحب افضلیت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے منکر نکلے !!

اہلسنت نے آج تک کسی تفضیلی کے لیے گنجائش نہیں رکھی ۔وقت گزرتا رہا ،لوگ پینترے بدل بدل کر اہلسنت میں گھس کر بد عقیدگی پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ۔لیکن کامیاب نہ ہوسکے ۔ایسی ہی کوشش آج کے ایک شیخ صاحب نے کی ظاہری لبادہ اہلسنت کا اوڑھا اور باطن میں تفضیلیت لے بیٹھے ۔ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ظاہر کو لباس پہنایا اور باطن کا انکار کر دیا ۔اور باطن میں مولا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل اور افضل البشر کہنا شروع کر دیا ۔جب کوئی سوال کرے کہ جناب آپ سنی ہیں ۔۔ابو بکر صدیق کی افضلیت کو مانتے ہوں۔۔جواب جی ہاں۔۔کیوں نہیں ۔۔۔نعرہ صدیقیہ یا صدیق اکبر ۔۔۔۔لیکن باطنی خلافت اور افضلیت مولا علی کو حاصل ہے ۔ساتھ میں لکھ دیا ۔۔ظاہری کی کوئی فضیلت نہیں ۔۔۔باطن کی ہی فضیلت ہے ۔۔۔ظاہر لوگوں کا بنایا ہوا ہے باطنی اللہ کا بنایا ہوا ہے ۔ طاہر قادری کی کتب کا مطالعہ کرنےوالا تھوڑے سے غور فکر میں ہی جان لے گا کہ جناب حضرت علی کو حضرت ابوبکر صدیق سے افضل جانتے ہیں۔

جوکہ سراسر تفضیلیت ہے ۔۔آپ بھی ملاحظہ کیجیے!!!

القول الوثیق فی منا قب الصدیق: صفحہ 41۔

جبکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت، فرائضِ خلافت، اقامتِ دین، اسلام اور امت کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے۔ ائمہ نے افضلیت کی جو ترتیب بیان کی ہے وہ خلافت ظاہری کی ترتیب پر قائم ہے۔ ولایت باطنی جو ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا ہوئی اس میں وہی یکتا ہیں۔

گویا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ساری فضیلتیں خلافت کے بعد ہے پہلے کی نہیں ہیں۔۔۔کونسی خلافت کیسی خلافت اس کا وزن کیا ہے ؟؟؟؟

السیف الجلی کے مقدمہ میں ڈاکٹرصاحب لکھتے ہیں:(خلاصہ بیان کیا ہے مکمل صفحات کمنٹس میں ملاحظہ کیجیے!)

*خلافتِ ظاہری دین اسلام کا سیاسی منصب ہے۔ یہ انتخابی و شورائی امر ہے۔۔ خلیفۂ ظاہری کا تقرّر عوام کے چناؤ سے عمل میں آتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمّت کے لئے خلیفہ کا انتخاب عوام کی مرضی پر چھوڑ دیا۔خلیفہ ظاہر جمھور کی ووٹنگ سے بنتا ہے ۔اس کی حد فرش تک ہے ۔ یہ تخت نشینی کے بغیر مؤثر نہیں ہوتی۔

یہ حضرت ابوبکر اور عمر کو ملی ہے ۔رضی اللہ عنہما

*خلافتِ باطنی خالصتاً روحانی منصب ہے۔یہ محض وہبی و اجتبائی امر ہے۔اس کا تقرّر خدا کے چناؤ سے عمل میں آتا ہے۔ ۔یہ ولایت آسمانی نظام کے حسن کو نکھارنے کیلئے قائم ہوتی ہے۔ولایت تخت و سلطنت کے بغیر بھی مؤثر ہے۔

یہ حضرت علی کو ملی ہے۔۔رضی اللہ عنہ(السیف الجلی مقدمہ)

اردو جاننے والا شخص بھی اس خلاصے سے یہی نتیجہ نکالے گا کہ حضرت علی حضر ت ابوبکر اور عمر سے افضل ہیں۔۔یہ بات اجکل منھاجی سرے عام کرتے نہیں تھکتے ۔۔ڈاکٹر صاحب کے کلام میں کتنی بدیانتی ہے ملاحظہ کیجیے ۔

1 شیخین کریمین کی جو بھی فضیلت ہے وہ مشاورتی ووٹنگ سے ہے افضلیت بھی اسی طرح ملی گویا کہ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ سے کوئی فضیلت نھیں ۔افضل البشر کا عقیدہ بعدکا ہے ۔۔کاش کہ عمدہ القاری ہی دیکھ لیتے !!!

علامه عینی لكھتے هیں :

4 – (باب فضل أبي بكر بعد النبي صلى الله عليه وسلم)

ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بار ے میں باب

أي: هذا باب في بيان فضل أبي بكر، رضي الله تعالى عنه، بعد فضل النبي صلى الله عليه وسلم. وليس المراد البعدية الزمانية، لأن فضل أبي بكر كان ثابتا في حياته صلى الله عليه وسلم.

یہ باب نبی کریم ﷺ کے بعد ابوبکر صدیق کے افضل ہونے کے بارے میں ہے ۔بعد سے یہ مراد نہیں کہ آپ کے وصال کے بعد فضیلت ملی (جیسا کہ منھاجیوں نے سمجھا) بلکہ ابوبکر صدیق کی فضیلت حضور ﷺ کی حیات میں ہی ثابت شدہ ہے ۔کہ

5563 – حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثنا سليمان عن يحيى بن سعيد عن نافع عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال كنا نخير بين الناس في زمن النبي صلى الله عليه وسلم فنخير أبا بكر ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان رضي الله تعالى عنهم. (الحديث 5563 طرفه في: 7963) .

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگوں کے درمیان بہتری کے درجے بنایا کرتے تھے ۔ہم یہ کہا کرتے تھے کہ ابوبکر سب سے بہتر ہیں ۔پھر ان کے بعد عمر پھر ان کے بعد عثمان۔۔۔یہ فضیلت صحابہ سرکارﷺ کے زمانے میں ہی دیتے تھے۔

مطابقته للترجمة من حيث إن فضل أبي بكر ثبت في أيام النبي صلى الله عليه وسلم، بعد فضل النبي صلى الله عليه وسلم،

(علامہ عینی فرماتے ہیں)اس حدیث اور باب کے عنوان میں مناسبت یہی ہے کہ حضورﷺ کے بعد ابوبکر صدیق کی فضیلت آپ کے زمانے میں ثابت شدہ ہے۔

عمدہ القاری صفحہ 246 جلد 16

حافظ ابن حجر عسقلانی کیا فرماتے ہیں؟ ملاحظہ کیجیے!!!

(قوله باب فضل أبي بكر بعد النبي صلى الله عليه وسلم)

أي في رتبة الفضل وليس المراد البعدية الزمانية فإن فضل أبي بكر كان ثابتا في حياته صلى الله عليه وسلم كما دل عليه حديث الباب

نبی کریمﷺکے بعد ابوبكر كی فضیلت كے بارے میں باب۔

یعنی فضیلت کے رتبے کے بارے میں ۔بعد سے زمانے کا بعد مراد نہیں ہے کیونکہ ابوبکر کی فضیلت توسرکار کے زمانے میں ثابت تھی جیسا کہ اس باب کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے ۔

فتح الباری ۔صفحہ 16 جلد 7

خلیفہ بننے سے پہلے۔۔۔۔۔

ڈاکڑ طاہر قادری کے استدلال کا رد بلیغ کرتے ہوئے پیر سائیں غلام رسول قاسمی قادری لکھتے ہیں:

اولا تو سائل کو اتنی سمجھ بھی نہیں کہ خلافت کی ترتیب میں افضلیت نہیں بلکہ اولیت کہنا درست ہے ۔افضلیت کا تعلق باطنی درجات اور ولایت باطنی سے ہی ہوا کرتا ہے نہ کہ خلافت کی ترتیب سے ۔یہی وجہ ہے کہ علماء و صوفیا ء نے مولا علی کو ولایت میں افضل کہنے والے کو رافضی قرار دیا ہے کماسیاتی بیانہ(جس کا بیان آئے گا)

*نبی کریمﷺ نے خلفاء راشدین کی خلافت ظاہری سے پہلے سیدنا صدیق اکبر کو مصلائے امامت پر کھڑا کیا (بخاری)۔خلافت ظاہری سے پہلےہی فرما دیا میرے بعد ابو بکر اور عمر کی پیروی کرنا (ترمذی) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرمادیاتھا ابوبکر اور عمر جنتی بوڑھوں کے سردار ہیں (ترمذی) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرمادیاتھاکہ اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا(بخاری)خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرمادیاتھاکہ مجھ پر تمام لوگوں سے زیادہ احسانات ابوبکر کے ہیں(ترمذی)خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرمادیاتھاکہ میری امت میں سے میری امت پر سب سے بڑا رحم دل ابوبکر ہے۔(ترمذی)خلافت ظاہری سے پہلے ہی خلفاء اربعہ کو تمام نبیوں اور رسولوں کے بعد سب سے افضل قرار دیا (شفاء)خلافت ظاہری سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام کااس بات پر اجماع تھا کہ اس امت میں نبی کریمﷺ کے بعد سب سے افضل ابوبکر پھر عمر پھر عثمان رضی اللہ عنہم ہیں۔(بخاری) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرمادیا تھا کہ ابوبکر سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا۔(مجمع الزوائد)

ضرب حیدری صفحہ 97

خلافت ظاہری سے پہلے ہی آقا کریمﷺ نے فرمایا دیا تھا اللہ اور مومنین ابوبکر کے سوا کسی اور کے لیے راضی ہی نا ہوں گے (مسلم) ۔اس سے بڑی کیا دلیل ہو گی ۔

قاسمی صاحب قبلہ صفحہ نمبر 98 کے آخر میں سے ثابت کرتے ہیں افضلیت کہتے ہیں کثرت ثواب کو.. جیسا کہ شیخ محقق اور ملا علی قاری کے فرمان سے واضح ہوتا ہے۔۔

**تصویرکا دوسرا رخ **

ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کا بغور اور غیر جانب دارانہ نظر سے مطالعہ کرنے والا شخص یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ فروعی نہیں بلکہ اصولی عقائد کے معاملات میں ان کی کتب تضاد بیانی سے بھری پڑی ہیں ۔۔ایسا ہی معاملہ افضلیت کے مسئلے میں بھی ہے ۔پہلے کچھ اور بعد میں کچھ ۔اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جناب کتابیں خود نہیں لکھتے بلکہ علماءکی ٹیم بیٹھی ہے جو لکھتی ہیں اور نام ڈاکٹر صاحب کے سے چھپ جاتی ہیں۔خیر ۔۔تصویر کادوسرا رخ ملاحظہ کیجیے !!!

عقیدہ افضلیت کا دوسرا رخ جناب طاہر القادری صاحب نے بڑی طویل وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب سلوک وتصوف کا علمی دستور کے صفحہ نمبر 137اور138میں اور اس کے ساتھ ساتھ شاہ ولی اللہ اور فلسفہ خودی کے صفحہ 30 پر نقل کیا ہے۔موصوف لکھتے ہیں۔

طریق نبوت

طریق ولایت

ہر دو طریق میں واضح فرق کرتے ہوئے شاہ صاحب فرماتے ہیں طریق نبوت کلی فضیلت کا حامل ہے اور طریق ولایت جزوی فضیلت کا۔طریق نبوت کا منتہیٰ اور نقطہ عروج مفہمیت اورمجددیت کے مقامات ہیں مجددیت اور مفہمیت کا مقام ولایت کے ہر مقام سے اس لیے بلند ہےکہ مجدد نہ صرف ہمہ وقت خالق کی طرف متوجہ رہتا ہے بلکہ اس تعلق کو بکمال وبتمام قائم رکھتے ہوئے خالق کا فیضان سنت مصطفوی ﷺ کی پیروی میں خلق خدا تک پہنچاتا رہتا ہے۔اس لئے وہ مرد حق اپنے کمال کی منزل طریق نبوت سے پاتا ہے۔اس کامقام کہیں بلند ہےاس شخص سے جو کمال کو طریق ولایت سے حاصل کرتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس دوران شاہ صاحب نے فضیلت شیخین کے عجیب علمی مسئلے کو بھی حل فرمادیا۔

فرماتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر کیوں فضیلت حاصل ہے باوجودیکہ حضرت علی اس امت میں سب سے پہلے صوفی، مجذوب اور عارف ہیں اور یہ کمالات دیگر صحابہ میں نہیں ہیں مگر صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طفیل میں قلت اور کمی کے ساتھ موجود ہیں غرضیکہ یہ مسئلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حضور میں عرض کیا تو یہ چیز مجھ پر ظاہر ہوئی کہ فضل کلی نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نزدیک وہ ہے جو تمام امر نبوت کی طرف راجع ہو، جیسا کہ اشاعت علم اور دین کے لیے لوگوں کی تسخیر اور جو چیزیں اس کے مناسب ہوں اور رہا وہ فضل جو ولایت کی طرف راجع ہو جیسا کہ جذب اور فناء تو یہ ایک فضل جزئی ہے اور اس میں ایک وجہ سے ضعف ہے۔

اور شیخین رضی اللہ عنہما اول قسم کے ساتھ مخصوص تھے حتیٰ کہ میں انھیں فوارہ کے طریق پر دیکھتا ہوں کہ اس میں سے پانی پھوٹ رہا ہے تو جو عنایات نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہوئیں وہی بعینہ حضرت شیخین پر ظاہر ہوئیں تو آپ دونوں حضرات کمالات کے اعتبار سے ایسے عرض کے مرتبہ میں ہیں جو جوہر کے ساتھ قائم ہے اور اس کے تحقق کو پورا کرنے والا ہے لہٰذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اگرچہ آپ کے بہت قریب ہیں نسب و حیات اور فطرت محبوبہ میں حضرات شیخین سے اور جذب میں بہت قوی اور معرفت میں بہت زائد ہیں مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم باعتبار کمال نبوت حضرات شیخین سے کی طرف زیادہ مائل ہیں اور اسی بنا پر جو علماء معارف نبوت سے باخبر ہیں شیخین کو فضیلت دیتے ہیں اور جو علماء معارف ولایت سے آگاہ ہیں وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فضیلت دیتے ہیں اور اسی بنا پر حضرت شیخین کا مدفن بعینہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مدفن تھا۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:۔

یہی وجہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے باوجود انوار ولایت کے بھی حامل ہونے کے دین کی اشاعت کا کام زیادہ لیا گیا ہے اور سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ سے باوجود انوار نبوت کے بھی حامل ہونے کے امت میں ولایت و روحانیت کے فروغ کا کام زیادہ لیا گیا ہے چنانچہ بیشتر سلاسل طریقت آپ ہی سے شروع ہوتے ہیں۔

اگر آپ صاحب نظر اور منصف ہیں تو فیصلہ خود کیجیے!!!!

فرحان رفیق قادری عفی عنہ