أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَيَرَى الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ الَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ هُوَ الۡحَـقَّ ۙ وَيَهۡدِىۡۤ اِلٰى صِرَاطِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَمِيۡدِ ۞

ترجمہ:

اور اہل علم کو معلوم ہے کہ جو کلام آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہی برحق ہے اور وہی اس کے راستہ کی ہدیات ہے جو غالب ہے (اور) تعریف کیا ہوا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اہل علم کو معلوم ہے کہ جو کلام آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، وہی برحق ہے اور وہی اس کے راستہ کی ہدایت دیتا ہے جو غالب ہے (اور) تعریف کیا ہوا ہے۔ اور کافروں نے کہا ہم ایسے مرد کی طرف تمہاری رہنمائی کریں جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مکمل ریزہ ریزہ ہو جائو گے تو پھر تم از سر نو پیدا کئے جائو گے۔ (سبا : ٧-٦)

اہل علم کا مصداق 

اس سے پہلی آیت میں یہ بتلایا تھا کہ کفار اور مشرکین قرآن مجید کے وحی الٰہی ہونے کا انکار کرتے ہیں اور قرآن مجید کو باطل کہتے ہیں اور چونکہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے اس لئے اب ان کے مقابلہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کا ذکر فرمایا اور ان کو اہل علم سے تعبیر فرمایا جو قرآن مجید کو برحق اور وحی الٰہی قرار دیتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اہل علم سے مراد علماء اہل کتاب ہیں، جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور حضرت ابی بن کعب (رض) وغیرہ اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے تمام مسلمان مرد مراد ہیں، بعض مفسرین نے کہا اس سے علماء اہل کتاب کو مراد لینا صحیح نہیں ہے، کیونکہ یہ مکی سورت ہے اور وہ مدینہ میں مسلمان ہوئے تھے اور بعض مفسرین نے کہا اس آیت میں اوتوا العلم یعنی اہل علم کا لفظ ہے اور وہ عام ہے اس لئے اولیٰ یہ ہے کہ اس سے امت کے تمام اہل علم مراد لئے جائیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 6