ترکی اور اسرائیل تعلقات کا سوال
ترکی اور اسرائیل تعلقات کا سوال
ترکی کی طرف سے یو اے اى (متحدہ عرب امارات) کے حالیہ ناروا اقدام پر تنقید کیا سامنے آئی کہ یار لوگوں نے الٹا ترکی اسرائیل تعلقات کا شوشہ چھوڑ دیا,
ترکی کے اسلام پسندانہ اقدامات کی وجہ سے, ہر پر امید مسلمان کی طرح, میں بھی ترکی کی سیاست اور اس کے موجودہ بین الاقوامی تعلقات کا ایک خاموش اور پر امید قاری ہوں، اور اس وجہ سے ترکی کے اسلامی کاز سے متعلق اقدامات کی ہر چھوٹی بڑی خبر دل چسپی سے پڑھتا ہوں۔
لیکن حیرت اس وقت ہوئی جب بعض سنجیدہ صحافیوں (حامد میر وغیرہ) اور کچھ دانشور قسم کے لوگوں تک نے یہ “جذباتی” سوال اٹھایا کہ ترکی یو اے ای پر تنقید کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے سے پہلے اسرائیل سے اپنا سفیر بلالے۔۔!!
میں نے عرب دنیا میں ترکی کے ایک سیاسی صحافی اور مبصر کے سامنے جب یہ سوال رکھا تو اس کا جواب حسب توقع بڑا دل چسپ تھا، کہنے لگے:
“سوال کرنے والوں کا احترام کرتا ہوں، لیکن یہ سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جو ترکی کی بین الاقوامی سیاست کی ابجد سے بھی ناواقف ہو۔۔”۔
ان کے ساتھ کی گئی پر مغز گفتگو کا خلاصہ اور اپنا تجزیہ قارئین کے سامنے رکھتا ہوں، جس میں اس سوال کا جواب بھی ان شاء اللہ مل جائے گا۔
ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات صدر رجب اردوان کی حکومت سے پہلے، بلکہ بہت پہلے سے، قائم چلے آرہے ہیں۔
اُس وقت کے سیکولر (بلکہ لادین اور ملحد) ترکی کا خمیر یہودیت پسندی سے اٹھایا گیا تھا۔
اب سے تقریبا دو دہائی قبل جب صدر رجب اردوان حکومت میں آئے، تو ان کی پوزیشن بہت کمزور تھی, اس لیے اگر وہ یکایک ترکی اور اسرائیل کے سابقہ معاہدات پر خط تنسیخ پھیر دیتے, تو یہ بادی النظر میں تو ممکن تھا، لیکن اس کا انجام صدر اردوان کی معزولی یا قتل کی صورت میں ظاہر ہوتا۔ اس سے پہلے “عدنان میندریس” کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ اس لیے یہ جذباتی اقدام کم از کم صدر اردوان جیسے مدبر سیاست دان کے بس کا روگ نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے کمال حکمت وفراست سے کام لیتے ہوئے پہلے ترکی کی ترقیاتی اور فلاحی خدمت پر توجہ مرکوز رکھی، عوام کا اعتماد حاصل کیا، ترکی کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ یوں جب ان کی پوزیشن مضبوط ہوئی, تو انہوں نے اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی, پھر اس کو آنکھیں دکھانا شروع کیں, لیکن یہاں بھی حسب عادت “جذباتیت” کی رو میں بہنے کی بجائے حکمت عملی سے آگے بڑھے۔
اس پس منظر میں ترکی کی مثال دلدل میں پھنسے اس ہاتھی کی سی تھی, جو دلدل سے نکلنے کے لیے ظاہر ہے کہ ہوا میں نہیں اڑ سکتا تھا, بلکہ دلدل سے نکلنے کی یہی سبیل تھی کہ رفتہ رفتہ اسی دلدل میں واپس آکر باہر نکلے۔
چنانچہ گذشتہ دس سالوں کے دوران ترکی نے اسرائیل سے اپنے تعلقات کو بتدریج کم کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے:
1۔ پہلے ترکی اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی مشقوں کا سلسلہ ختم کیا۔
2۔ جب امریکہ نے بڑھی ڈھٹائی سے القدس کو فلسطین کے بجائے اسرائیل کا دارالحکومت ڈیکلیئر کیا, تو ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو بھگایا, جو آج تک “راندہ درگاہ ترکی” پھر رہا ہے۔ اور آج تک ترکی “القدس” کو فلسطین کا کیپٹل قرار دینے کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔
3۔ ترکی اور اسرائیل کے فوجی تعلقات کا گراف صفر پر کھڑا ہے۔
4۔ سفارتی تعلقات تاریخ کے سب سے نچلے لیول پر آگئے ہیں۔
5۔ فلسطینیوں کے امدادی سامان پر مشتمل ترکی بحری بیڑے “فریڈم فورٹیلا” پر اسرائیل کا حملہ سب کے سامنے ہے۔
6۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں صدر رجب اروان نے نقشہ لے کر دنیا کو اسرائیلی مظالم اور ناجائز قبضہ سے روشناس کرایا۔
7۔صدر اردوان اور اسرائیلی صدر کے درمیان ٹوئٹر وغیرہ پر سخت الفاظ کا تبادلہ کس رویہ کی نشان دہی کرتا ہے؟
ان اقدامات سے ترکی کا مجموعی طور پر کیا رویہ سامنے آتا ہے؟! یہی نا کہ ترکی اسرائیل کو سائیڈ پر لگانے کی پالیسی پر گامزن ہے، اور بتدریج اس سے اپنا ہاتھ کھینچ رہا ہے، چنانچہ ترکی فلسطین پر اسرائیلی ظلم کے خلاف سب سے توانا آواز ہے,۔
آیا صوفیا کے افتتاح کے موقع پر صدر اردوان نے یہ کہہ کر ایک اور سگنل بھی دے دیا کہ آیا صوفیا کی آزادی “القدس” کی آزادی کی طرف پہلا قدم ہے۔
لے دے کر اب ترکی اور اسرائیل کے درمیان صرف تجارتی اور اقتصادی قسم کے تعلقات رہ گئے ہیں۔
لیکن فلسطین اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں ہی کی مصلحت کی خاطر یہ تعلقات بھی ترکی کی مجبوری ہے, ترکی نے آخری آپشن کے طور پر ان تعلقات کو باقی رکھا ہوا ہے, اور وہ اس طرح کہ اگر ترکی یہ تعلقات بھی ختم کرلے تو ترکی سے فلسطین اور فلسطین سے ترکی آمد و رفت کے راستے مسدود ہوجائیں گے, ترکی کی طرف سے فلسطین کی ساحلی پٹی اور غزہ امدادی سامان نہیں جاسکے گا، اس لیے کہ یہ سامان اسرائیلی ائیر پورٹس کے ذریعے ہی جاتا ہے۔
اس مقصد کے لیے برائے نام سفارتی تعلقات باقی رکھنے کے سوا, ترکی کے پاس کوئی چارہ کار نہیں۔
آپ کے پاس اگر اس مسئلے کا کوئی ایسا حل ہو جو ترکی کی مدبر اور دلیر قیادت کے سامنے نہ آیا ہو تو ضرور تجویز کیجیے گا۔
یو اے ای کے خلاف ترکی کا یہ سخت رویہ خود بتا رہا ہے کہ ترکی اسرائیل کو کس نظر سے دیکھتا ہے!
یو اے ای کے خلاف ترکی کے اس موقف کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ آج اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے, تو کل کلاں “مندر کے معماروں” سے یہ بھی بعید نہیں کہ القدس کو انہیں لگے ہاتھوں فروخت کردیں!
ترکی نے ماضی میں شرق اوسط کے نام سے آباد جدید عرب دنیا (جس میں فلسطین بھی شامل ہے) پر حکومت کی ہے, ترکی آج بھی اپنے زیر نگین رہنے والے اس عرب خطہ میں کسی بڑے فیصلے سے لاتعلق نہیں رہنا چاہتا، بالخصوص جب اس فیصلے کا اس کی دینی اور مذہبی اقدار وروایات کے ساتھ گہرا تعلق بھی ہو۔
بہرحال، ترکی کی موجودہ مدبرانہ سیاست جس خاردار راستے سے آگے بڑھ رہی ہے، اس کے زمینی حقائق، مضمرات اور چیلینجز کو سامنے رکھے بغیر اس قسم کے جذباتی شوشے چھوڑنا بہت سطحی ذہنیت یا واضح بد نیتی کی عکاسی کر رہا ہے۔
آج کل ترکی کے خلاف مغربی میڈیا کے ساتھ عرب میڈیا کا بھی ایک بڑا حصہ یک آواز ہوگیا ہے، ترکی سے متعلق رائے قائم کرنے کے لیے صرف ان میڈیائی تبصروں کا یک رخا مطالعہ ہی ایسی منفی آرا کو جنم دیتا ہے۔
آخر سیکولر آئین اور پچاس فی صد کے قریب سیکولر عوام اور اپوزیشن جماعتوں کے باوجود، ترکی اسلام اور اسلامی شعائر و مقدسات کو جس اسٹریٹجی کے ساتھ پروموٹ کررہا ہے، اگر آپ کو یہ سب گوارا نہیں، تو پھر آپ کو چاہیے کہ کوئی ایسی مشین ایجاد کریں جس سے راتوں رات ایک بٹن دباتے ہی “خلافت راشدہ” کا آئیڈیل سسٹم بر آمد ہو۔
کیا خیال ہے!
🖋️عبدالوہاب سلطان دِیروی
25 ذوالحجہ 1441ھ