اسرائیل کی حالیہ کامیابی کا مختصر پس منظر
اسرائیل کی حالیہ کامیابی کا مختصر پس منظر
از: افتخار الحسن رضوی
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو “معمول” پر لانے کے لیے کیا گیا حالیہ معاہدہ ہرگز غیر متوقع نہیں تھا۔ دراصل یہ سب کچھ 1970 سے کیا جا رہا ہے۔ شمالی افریقہ میں واقع عرب ممالک کی اکثریت پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکی ہے مثلاً مصر، مراکش، لبنان اور موریطانیہ میں نہ صرف اسرائیلی یہودی خاندان آباد ہیں بلکہ وہاں ان کی عبادت گاہیں بھی موجود ہیں۔ خلیجی عربی ممالک میں قطر کے ساتھ درپردہ 1979 سے گفت و شنید جاری رہی ہے ۔ جون 2017 سے “مجلس التعاون لدول الخلیج العربیہ” کے پانچ میں سے 3 ارکان (بحرین، امارات، سعودی عرب) نے قطر کے ساتھ ہر طرح کا بائیکاٹ کر رکھا ہے تو اس دوران بھی قطر نے اسرائیل کے خلاف ایک روایتی مخالفت والا بیان نہیں دیا۔ جبکہ قطر اخوان المسلمین اور مرحوم مصری صدر محمد المرسی کا کھلا حمایتی ہے۔ لہٰذا کسی نہ کسی طور تمام خلیجی ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات “بحالی” کر ہی رہے ہیں۔
اسرائیل کی حالیہ کامیابیوں کے پیچھے جہاں مقامی سہولت کار شامل ہیں وہیں عالمی قوتوں کی کوششیں بھی ساتھ رہی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ تمام کامیابیاں میزائل اور بم سے ہرگز حاصل نہیں کی گئیں بلکہ اس ساری جنگ کے پیچھے سفارتکاری ہے جس سے مسلم امہ اس وقت بالکل محروم ہے۔
اگر آپ علاقائی الجھن سے نکل کر دنیا کا نقشہ سامنے رکھیں تو یہ سمجھنا آسان ہو گا کہ دنیا میں صرف مسلم ممالک میں ہی ملوکیت اور بادشاہت رائج ہے۔ اس کے برعکس تمام عیسائی ممالک میں جمہوریت رائج ہے۔ کچھ شمالی افریقی ممالک میں جمہوریت موجود ہے لیکن وہ جمہوریت پانی کے بلبلے سے زیادہ طاقتور نہیں ہے۔ مثلاً عراق کے صدام حسین، لیبیا کے معمر قذافی اور مصر کے حسنی مبارک کو معزول کرنے کے بعد جو جمہوریت لائی گئی ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ الجزائر اور تیونس کے مطلق العنان صدور کو آمر سمجھ کر چیلنج کیا گیا، ان کے بدلے کون سی جمہوریت پھلی پھولی ہے؟ تمام شمالی افریقی ممالک کو خانہ جنگی کا شکار بنا دیا گیا ہے۔
اس کے بر عکس عمان کے سابقہ حکمران سلطان قابوس بن سعید کو سبق سکھانے کے لیے مسقط اور صحار کے علاقوں میں احتجاج کو ہوا دی گئی، لیکن سلطان کی حکومت بچا لی گئی۔ مملکت بحرین مین سال 2012 کے دوران ریاست کو مکمل مفلوج کر دیا گیا، شیعہ سنی اختلافات پر مبنی احتجاج کو سیاسی رنگ دے کر ملک کا بیڑا غرق کرنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن حکومت بچا لی گئی۔ یوں خلیجی عرب ممالک کی بادشاہت و ملوکیت آج بھی قائم و دائم بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ لہٰذا شمالی عرب ممالک میں حکومتیں کمزور کر دی گئیں، خلیجی ممالک میں من چاہیں حکومتیں مضبوط کر دی گئیں اور یوں اسرائیل کی راہیں ہموار کی گئیں۔ اسی تناظر میں دو برس قبل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں سلطان قابوس نے خوش آمدید کہاتھا۔
یہ حقیقت بھی سمجھیں کہ اسرائیل کی ٹیکنالوجی کمپنیاں پہلے سے اپنا “ہوم ورک” مکمل” کر چکی ہیں۔ خلیجی عربی ممالک ہوں یا پاکستان جیسا نظریاتی اسلامی ملک، ہر طرف ان کا جال مکمل بچھ چکا ہے۔ مثلاً HTC موبائل فون کچھ عرصہ قبل تک پوری دنیا کی پانچ بڑی موبائل فون مینوفکچرنگ یونٹس میں شمار ہوتی تھی اور اس کی devices تمام مسلم ممالک میں موجود تھیں۔ آج کل ہر موبائل فون آپ کی fingers & eyes سکین کرتا ہے۔ لہٰذا یہ کمپنیاں آپ کی تمام معلومات لے چکی ہیں۔ اسی طرح Microsoft, google, oracle, apple, siemens, allot RM, ICTS communication, وغیرہ جیسی سینکڑوں کمپنیاں ایسی ہی جو براہ راست اسرائیلی ملکیت میں ہیں یا ان کی Key Management کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ مثلاً گوگل اور مائکروسافٹ امریکہ کی معروف کمپنیاں ہیں، لیکن دونون کمپنیوں کے ریجنل آفس امارات میں واقع ہیں، دونوں کی Key Management یورپین اور امریکی پاسپورٹ ہولڈرز ہیں۔ یہ تمام اہلکار مکمل معلومات اسرائیل کو فراہم کرتے آئے ہیں۔ مزید یہ کہ ان کمپنیوں کی وسط و جنوب ایشیاء کی آپریشنز ٹیم میں مسلمان نظر نہیں آئیں گے بلکہ متشدد و متعصب ہندو تمام عہدوں پر براجمان ہیں۔
اسرائیل ان تمام ٹیکنالوجی کمپنیوں کی مدد سے مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دیتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ تل ابیب میں باقاعدہ قادیانی عبادت گاہ موجود ہے اور انہیں مکمل اسرائیلی سرپرستی حاصل ہے۔ اسرائیل کی ٹیکنالوجی کمپنیاں قادیانیوں کے ساتھ بہت قربت رکھتی ہیں۔ عرب ممالک میں گاڑیوں کی LCDs اور android پر سفر کے دوران استعمال ہونے والے maps اسرائیلی کمپنی RM کے ڈیزائن کیے ہوئے ہیں۔ دو سال قبل مجھے ایک عدد اضافی چھوٹی گاڑی خریدنی پڑی جس میں LCD and Maps نہیں تھے، ایک دوکان سے جب یہ کام کروایا تو RM کا نیا برانڈ دیکھ کر مجھے یہ ساری تحقیق کرنی پڑی تھی۔
لہٰذا اسرائیل کی ان تمام کامیابیوں کو ٹیکنالوجی اور سفارت کاری کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں اور ان کا حل و دفاع بھی اسی منہج و انداز میں کرنا ہو گا ورنہ وائرلیس موجودگی کے ساتھ ساتھ یہود و ہنود اپنے وجود غیر مسعود کے ساتھ آپ کے گھر تک پہنچنے کو ہیں۔