أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَفۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَمۡ بِهٖ جِنَّةٌ ؕ بَلِ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ فِى الۡعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الۡبَعِيۡدِ ۞

ترجمہ:

کیا اس شخص نے اللہ پر بہتان باندھا ہے یا اس کو جنون ہے ! بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لائے وہ عذاب اور پرلے درجہ کی گمراہی میں مبتلا ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا اس شخص نے اللہ پر بہتان باندھا ہے یا اس کو جنون ہے ! بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لائے وہ عذاب اور پرلے درجہ کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ پس کیا انہوں نے ان چیزوں کی طرف نہیں دیکھا جو ان کے آگے اور پیچھے (پھیلی ہوئی) ہیں یعنی آسمان اور زمین، اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا ہم ان کے اوپر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں، بیشک اس میں ہر رجوع کرنے والے بندے کے لئے نشانیاں ہیں۔ (سبا : ٩-٨)

صدق اور کذب کی صحیح تعریفات اور نظام اور جاحظ کی تعریفات پر تبصرہ 

اس آیت میں کذب اور افتراء کے الفاظ ہیں، افترا کا معین ہے از خود کسی کے متعلق جھوٹی باتیں کہنا اور کذب کا لفظ عام ہے، از خود کسی کے متعلق جھوٹی بات کہے یا کسی سے سن کر اس کے متعلق جھوٹی بات کہے، اور اس کے بعد جنون کا ذکر ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں ہم پہلے صدق اور کذب کی تعریف اور اس میں مذاہب بیان کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ کے کذب کے محال ہونے پر دلیل اور اس پر اعتراضات کے جوابات کا ذکر کریں گے اور آخر میں جنون کا معنی باین کریں گے، فنقول وباللہ التوفیق :

کلام میں جو نسبت خبر یہ ہوتی ہے اس نسبت سے قطع نظر خارج اور واقع میں بھی نسبت ہوتی ہے اس کو نسبت خارجیہ کہتے ہیں کلام کی نسبت کو حکایت اور واقع اور خارج کی نسبت کو محکی عنہ کہتے ہیں، اگر کلام کی نسبت اور حکایت کا واقع کی نسبت اور محکی عنہ سے مطابقت کا قصد کیا جائے اور واقع میں حکایت محکی عنہ کے مطباق بھی ہو تو یہ کلام صادق ہوگا، جیسے کوئی شخص کہے کہ زید قائم ہے یعنی کھڑا ہوا ہے اور واقع میں زید قائم بھی ہو تو یہ کلام صادق ہے، اور اگر حکایت کے محکی عنہ سے مطابقت کا قصد کیا جائے اور واقعہ میں حکایت محکی عنہ کے مطابق نہ ہو مثلاً کوئی شخص کہے کہ زید قائم ہے اور زید قائم نہ ہو تو یہ کلام کاذب ہے اور اگر نسبت کلامیہ کے نسبت خارجیہ سے مطابقت کا قصد نہ کیا جائے تو پھر یہ کلام صادق ہے نہ کاذب ہے، جیسے نحو کے معلم پڑھاتے وقت زید قائم کہتے ہیں اور کسی نسبت خارجیہ سے مطابقت کا قصد نہیں کرتے۔

نظام معتزلی نے یہ کہا کہ خبر صادق وہ ہے جو مخبر کے اعتقاد کے مطابق ہو خواہ اس کا اعتقاد خطاء ہو اور خبر کاذب وہ ہے جو مخبر کے اعتقاد کے مطابق نہ ہو اس نے اپنے موقف پر اس آیت سے استدلال کیا ہے :

(المنافقون : ١) جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ ضرور اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کو علم ہے کہ بیشک آپ ضرور اللہ کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بیشک منافقین ضرور جھوٹے ہیں۔

نظام کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کو اس لئے جھوٹا فرمایا کہ ان کا آپ کو رسول کہنا ان کے اعتقاد کے مطابق نہ تھا، اگرچہ واقع کے مطابق تھا اس سے معلوم ہوا کہ خبر صادق وہ ہوتی ہے جو مخبر کے اعتقاد کے مطابق ہو، اور ان کے اس استدلال کو رد کردیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو ان کو جھوٹا فرمایا ہے اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ اس خبر دینے میں جھوٹے ہیں بلکہ اس کا معنی ہے وہ گواہی دینے میں جھوٹے ہیں یا اپنی اس خبر کو گواہی کہنے میں جھوٹے ہیں کیونکہ گواہی صمیم قلب سے ہوتی ہے اور وہ صرف زبان سے آپ کو رسول اللہ کہتے تھے اور دل سے انکار کرتے تھے۔

جاحظ نے یہ کہا کہ خبر صادق وہ ہوتی ہے جو واقع اور اعتقاد مخبر دونوں کے مطابق ہو اور خبر کاذب وہ ہوتی ہے جو واقع اور اعتقاد مخبر دونوں کے مطابق نہ ہو، اور اس تعریف کی بناء پر خبر صادق اور خبر کاذب میں ایک واسطہ نکل آئے گا کیونکہ اگر خبر واقع کے مطابق ہو اور اعتقاد مخبر کے مطابق نہ ہو یا اعتقاد مخبر کے مطابق ہو اور واقع کے مطابق نہ ہو تو پھر یہ خبر صادق ہوگی اور نہ کاذب اور ایسی خبر جو صادق ہو نہ کاذب ہو اس کی مثال قرآن مجید کی یہ آیت ہے :

(سبا : ٨) اس شخص نے اللہ پر قداً جھوٹ باندھا ہے یا اس کو جنون ہے۔

جاحظ کہتا ہے کہ ام بہ جنۃ سے مراد خبر صادقن ہیں ہے کیونکہ کفار آپ کو صادق نہیں مانتے تھے اور اس سے مراد خبر کاذب بھی نہیں ہے کیونکہ خبر کاذب کا ذکر تو پہلی قسم میں آچکا ہے اور اقسام متقابل اور متضاد ہوتی ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ ام بہ جنۃ سے مراد یہ ہے کہ یا اس شخص نے افتراء نہیں کیا کیونکہ افتراء عمداً جھوٹ بولنے کو کہتے ہیں اور مجنون افتراء نہیں کرسکتا، پس افتراء عمداً جھوٹ بولنے کو کہتے ہیں اور مجنون کسی چیز کا قصد نہیں کرتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اس شخص نے افتراء کیا ہے یا افتراء نہیں کیا، گویا کفار نے آپ کی خبر کو کاذب قرار دے کر اس کی دو قسمیں کردی تھیں عمداً جھوٹی خبر اور بلا عمد جھوٹی خبر۔ (مختصر معانی ص 39-43، ملحضاً میر محمد کتاب خانہ کراچی)

اللہ تعالیٰ کے کلام میں کذب کے محال ہونے پر دلائل 

اللہ تعالیٰ کے کلام میں کذب محال ہے اور صدق واجب ہے کیونکہ صدق اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

ومن اصدق من اللہ حدیثاً (النسائ : ٨٧) اور کون ہے جس کی بات اللہ سے زیادہ سچی ہو ؟

ومن اصدق من اللہ قیلاً (النسائ : ١٢٢) اور کون ہے جس کا قول اللہ سے زیادہ سچا ہو ؟ 

مفتی احمد یار خاں (رح) متوفی 1391 ھ (رح) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا جھوٹ ممتنع بالذات ہے، کیونکہ پیغمبر کا جھوٹ ممتنع بالغیر اور رب تعالیٰ تمام سے زیادہ سچا تو اس کا سچا ہونا واجب بالذات ہونا چاہیے ورنہ اللہ کے صدق اور رسول کے صدق میں فرق نہ ہوگا۔ (نور العرفان حاشیۃ القرآن ص ١٤٤، ادارہ کتب اسلامیہ گجرات)

نیز قرآن مجید سے واضح ہوگیا کہ صدق اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات قدیم ہیں اور کذب صدق کا عدم ہے، پس اگر اللہ تعالیٰ کو کاذب فرض کیا جائے تو وہ صادق نہیں ہوگا اور صدق جا نہیں سکتا تو کذب آ نہیں سکتا اور جس چیز کا قدم ثابت ہو اس کا عدم ممتنع ہوتا ہے پس جب صدق کا قدم ثابت ہے تو اس کا عدم ممتنع ہوگیا اور کذب صدقکا عدم ہے تو کذب ممتنع ہوگیا۔

اللہ تعالیٰ کے کلام میں کذب کے محال ہونے پر اعتراضات کے جوابات 

اللہ تعالیٰ کے کلام میں کذب کے ممتنع بالذات ہونے پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی دو قسمیں ہیں کلام لفظی اور کلام نفسی، معترض کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفت قدیم ہے وہ کلام نفسی ہے اور ہم کلام نفسی میں امکان کذب نہیں مانتے ہم امکان کذب کلام لفظی میں مانتے ہیں اور کلام لفظی حادث اور ممکن ہے اور ممکن کا عدم بھی ممکن ہے لہٰذا جب اللہ کے کلام صادق کا عدم ممکن ہوا تو کذب ممکن ہوگیا۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کلام لفظی کے عدم کے ممکن ہونے کا معنی یہ ہے کہ سرے سے وہ کلام لفظی نہ ہو یا کلام لفظی تو ہو مگر صادق نہ ہوا اور یہ مخالف کا مطلوب نہیں ہے، مخالف کا مطلوب یہ ہے کہ کلام لفظی ہو اور کاذب ہو اور کلام لفظی کے ممکن ہونے سے اس خاص معنی کا ثبوت لازم نہیں آتا بلکہ ایک عام معنی کا ثبوت لازم آتا ہے یعنی سرے سے کلام لفظی صادق نہ ہو یا کلام لفظی تو ہو مگر کاذب ہو پس کلام لفظی کے ممکن ہونے سے جو چیز لازم آرہی ہے وہ عام ہے اور معترض اور مخلاف کا مطلوب خاص ہے اور عام خاص کو مستلزم نہیں ہوتا پس اللہ کے کلام لفظی میں بھی کذب کا امکان ثابت نہیں ہوا۔ (واللہ الحمد 

اللہ تعالیٰ کے کلام میں کذب کے محال ہونے پر دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مثلاً دس بجے زید قائم یعنی کھڑا ہوا ہے اب اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا ممکن ہے کہ زید قائم ہے اور گیارہ بجے زید قائم نہیں ہے، مثلاً وہ بیٹھ گیا ہے، اب اللہ تعالیٰ کے لئے یہ کہنا ممکن ہے کہ زید قائم ہے یا نہیں، اگر اب اس کے لئے یہ کہنا ممکن ہے تو یہ کذب ہے، سو اللہ تعالیٰ کا کذب ممکن ہوگیا اور اگر اب اس کے لئے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ زید قائم ہے تو جو چیز پہلے ممکن تھی وہ اب محال ہوگئی، حالانکہ جو چیز ممکن ہو وہ ہمیشہ ممکن رہتی ہے کبھی محال نہی ہوتی۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ گیارہ بجے جب زید قائم نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ جب زید قائم کہے گا تو کسی محکی عنہ سے مطابقت کا قصد کرے گا دس بجے والے محکی عنہ سے جب زید قائم تھا یا گیارہ بجے والے محی عنہ سے جب زید قائم نہیں ہے، اگر وہ دس بجے والے محکی عنہ سے مطابقت کا قصد کر کے کہتا ہے تو یہ کہنا ممکن ہے اور یہ کلام واقع کے مابق ہے اور صادق ہے اور اگر گیارہ بجے والے محکی عنہ سے مطابقت کا قصد کرے تو یہ کلام کاذب ہے اور محال ہے اور یہ کہنا درست نہیں کہ جو پہلے ممکن تھا محکی عنہ سے مطابقت کے قصد سے کہنا ہے، سو جو کہنا ممکن ہے وہ صادق ہے اور جو کہنا کاذب ہے وہ ممکن نہیں ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ کسی محکی عنہ سے مطابقت کا قصد نہیں کرتا تو پھر یہ کلام صادق ہوگا نہ کاذب کیونکہ صدق اور کذب کے تحقیق کے لئے ضروری ہے کہ کسی محکی عنہ سیمطابقت کا قصد کیا جائے۔

جنون کا لغوی اور اصطلاحی معنی 

کذب اور افتراء کے بعد اس آیت میں دوسرا اہم لفظ جنون ہے، اس لئے اب ہم جنون کا لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کر رہے ہیں :

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں :

انسان کے نفس اور اس کی عقل کے درمیان جو کیفیت حائل ہوجاتی ہے، اس کو جنون کہتے ہیں۔ (المفردات ج ١ ص 128، مکتبہ نزار مصطفیٰ البارز مکہ مکرمہ، 1418 ھ)

قاضی عبدالنبی بن عبدالرسول احمد نگری لکھتے ہیں :

جنون کی تعریف ہے عقل کا زائل ہوجانا، یا عقل میں ایسے خلل کا واقع ہوجانا جس کی بناء پر اقوال اور افعال بہت کم عقل کے تقاضے کے مطابق صادر ہوں۔ (دستور العلماء ج ١ ص 282، دارالکتب العلمیہ بیروت، 1421 ھ)

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں :

تلویح میں مذکور ہے، اچھے اور برے کاموں میں تمیز کرنے والی قوت اور کسی کام کے نتیجہ کے ادراک کرنے والی قوت میں خلل واقع ہوجانے کو جنون کہتے ہیں، بایں طور کہ عقل کے آثار ظاہر نہ ہوں اور اس کے افعال معطل ہوجائیں اس کا سبب یا تو قدرتی طور پر اس کے دماغ میں نقصان اور کمی ہو یا کسی حادثہ کی و ہ سے اس کا دماغ اعتدال پر نہ رہا ہو، یا شیاطن کا اس پر غلبہ ہو اور اس نے اس کے ذہن میں ایسے فاسد خیالات ڈال دیئے ہوں جن کی بناء پر وہ بغیر کسی سبب کے ہنستا ہو اور خوش ہوتا ہو یا ڈرتا ہو اور گھبراتا ہو۔ (ردا المختارج ٤ ص ٣٣٢، داراحیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 8