أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَلَمَّا قَضَيۡنَا عَلَيۡهِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّهُمۡ عَلٰى مَوۡتِهٖۤ اِلَّا دَآ بَّةُ الۡاَرۡضِ تَاۡ كُلُ مِنۡسَاَتَهُ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ الۡغَيۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِى الۡعَذَابِ الۡمُهِيۡنِ ۞

ترجمہ:

پس جب ہم نے ان پر موت کا حکم نافذ کردیا تو جنات کو ان کی موت پر صرف گھن کے کیڑے (دیمک) نے مطلع کیا جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا، پھر جب سلیمان گرپڑے تو تب جنات پر یہ بات آشکارا ہوئی کہ اگر ان کو غیب کا علم ہوتا تو وہ اس ذلت والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے

حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر موت کا طاری ہونا 

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پس جب ہم نے ان کے اوپر موت کا حکم نافذ کردیا تو جنات کو ان کی موت پر صرف گھن کے کیڑے (دیمک) نے مطلع کیا جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا، پھر جب سلیمان گرپڑے تب جنات پر یہ بات آشکارا ہوئی کہ اگر ان کو غیب کا علم ہوتا تو وہ اس ذلت والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔ (سبا : ۱۴ )

” منساۃ “ کا معنی ہے عصا اور یہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔ 

علامہ ابو اسحاق الثعلبی المتوفی ٧٢٤ ھ، علامہ ابوعبداللہ القرطبی لمتوفی ٨٦٦ ھ اور حافظ عماد الدین ابن کثیر الدمشقی المتوفی ٤٧٧ ھ لکھتے ہیں : 

اس آیت میں حصرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کا بیان ہے اور یہ بھی بتایا کہ جو جنات حضرت سلیمان کے حکم سے کام کرتے تھے ان پر آپ کی موت ایک سال تک مخفی رہی اس سے ان جنات کو بھی معلوم ہوگیا کہ ان کو غیب کا علم نہیں ہے اور لوگوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ جنات کو غیب کا علم نہیں ہوتا ورنہ وہ ایک سال تک کام کرنے کی مشقت میں مبتلا نہ رہتے۔ 

امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے نبی حضرت سلیمان (علیہ السلام) جب نماز پڑھتے تو اپنے سامنے ایک درخت اگا ہوا دیکھتے، آپ اس سے پوچھتے تیرا نام کیا ہے وہ اپنا نام بتاتا، پھر آپ اس سے پوچھتے تم کس مقصد کے لئے ہو اگر تم اگانے کے لئے ہو تو میں تمہیں اگائوں اور اگر تم دواء کے لئے ہو تو میں لکھ لوں، ایک درخت نے آپ کے سوال پر کہا میں اس گھر کو ویران اور کھنڈر بنانے کے لئے ہوں، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی اے اللہ ! جنات کو میری موت سے ناواقف رکھ، حتیٰ کہ انسانوں کو معلوم ہوجائے کہ جنات کو غیب کا علم نہیں ہوتا، پھر آپ عصا کے سہارے ٹیک لگاکر کھڑے ہوگئے اور اسی حال میں آپ پر موت آگئی، اور ایک سال تک اسی حال میں بےجان عصا کے سہارے کھڑے رہے اور جنات آپ کو زندہ سمجھ کر اسی طرح کام میں مشغول رہے، ادھر دیمک اس عصا کو کھاتا رہا، اور انسانوں کو یہ معلوم ہوگیا کہ جنات کو غیب کا علم نہیں ہوتا کیونکہ اگر ان کو غیب کا علم ہوتا تو وہ ایک سال تک کام کی مشقت میں مبتلا نہ رہتے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٦٧٩١٢)

اہل تاریخ نے کہا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عمر تریپن سال تھی اور ان کی حکومت کی مدت چالیس سال تھی اور جس وقت وہ تخت سلطنت پر بیٹھے تو ان کی عمر تیرہ سال تھی اور اپنی وفات سے چار سال پہلے انہوں نے بیت المقدس کی تعمیر شروع کی تھی۔ (الکشف والبیان ج ٨ ص ١٨۔ ٩٧، داراحیاء التراث العربی بیروت، ٢٢٤١ ھ، الجامع لاحکام القرآن جز ٤١ ص ١٥٢، دارالفکر بیروت، ٥١٤١ ھ، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٨٥، دارالفکر بیروت، ٩١٤١ ھ)

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب حضرت سلیمان بن دائود (علیہما السلام) نے بیت المقدس بنالیا تو انہوں نے اللہ عزوجل سے تین چیزوں کا سوال کیا، انہوں نے اللہ عزوجل سے ایک سوال یہ کیا کہ ان کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ہو، سو ان کا یہ سوال پورا کردیا گیا، انہوں نے اللہ عزوجل سے دوسراسوال یہ کیا کہ اللہ ان کو ایسا ملک عطا فرمائے جو ان کے بعد کسی اور کو سزاوار نہ ہو، ان کا یہ سوال بھی پورا کردیا گیا، اور جب وہ مسجد بنانے سے فارغ ہوگئے تو انہوں نے اللہ عزوجل سے تیسرا سوال یہ کیا کہ جو شخص بھی اس مسجد میں صرف نماز پڑھنے کے لئے آئے تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل جائے جس طرح جس دن وہ اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٩٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٠٤١ )

حضرت انبیاء (علیہم السلام) کی حیات اور وفات کے بعد ان کا قبروں سے نکلنا 

حضرت سلیمان (علیہ السلام) عصا کے سہارے کھڑے ہوئے تھے اور اسی حال میں ان کی روح قبض کرلی گئی اور ایک سال تک جن اور انسان یہی گمان کرتے رہے کہ آپ زندہ ہیں، آپ کے جسم میں کوئی تغیر نہیں ہوا اور نہ چہرے کی آب وتاب اور عب و جلال میں کوئی فرق آیا، اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) کی حیات جسمانی ہوتی ہے اور موت سے ان کا جسم بوسیدہ نہیں ہوتا اور ان کی حیات اور موت میں کوئی فرق نہیں ہوتا، باقی رہا یہ کہ وہ عصا کے سہارے کھڑے تھے اور جب دیمک نے ان کے عصا کو کھالیا تو وہ زمین پر آرہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تجہیز وتکفین کرانی تھی اور ان کی تدفین کرانی تھی اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ امور کیسے واقع ہوتے، انبیاء (علیہم السلام) اپنی قبروں سے نکل کر زمین و آسمان کی اطراف میں آتے جاتے ہیں اور تصرف کرتے ہیں اس پر دلیل حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی ازرق سے گزرے تو آپ نے فرمایا : یہ کون سی وادی ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ وادی ازرق ہے، آپ نے فرمایا گویا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کی ثنیہ (گھاٹی) سے اترتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور وہ بلند آواز سے تلبیہ (اللھم لبیک) پڑھ رہے تھے پھر آپ ایک گھاٹی ھرشیٰ پر آئے، آپ نے پوچھا یہ کون سی گھاٹی ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ ھرشیٰ گھاٹی ہے، آپ نے فرمایا گویا کہ میں یونس بن متی (علیہ السلام) کی طرف دیکھ رہا ہوں وہ ایک طاقت ور سرخ اونٹنی پر سوار ہیں جس کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے انہوں نے ایک اونی جبہ پہنا ہوا ہے اور وہ اللھم لبیک کہہ رہے ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٦١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٨٢)

حضرت عبداللہ بن عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے کعبہ کے پاس گندمی رنگ کا ایک شخص دیکھا جس کے بال سیدھے تھے اور ان سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اس نے دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے، میں نے پوچھایہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ عسیٰ بن مریم یا مسیح بن مریم (علیہ السلام) ہیں۔ الحدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧١، الرقم المسلسل : ٢٢٤ )

القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 14