أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلِسُلَيۡمٰنَ الرِّيۡحَ غُدُوُّهَا شَهۡرٌ وَّرَوَاحُهَا شَهۡرٌۚ وَ اَسَلۡنَا لَهٗ عَيۡنَ الۡقِطۡرِؕ وَمِنَ الۡجِنِّ مَنۡ يَّعۡمَلُ بَيۡنَ يَدَيۡهِ بِاِذۡنِ رَبِّهِؕ وَمَنۡ يَّزِغۡ مِنۡهُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡهُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِيۡرِ ۞

ترجمہ:

اور سلیمان کے لئے ہوا کو مسخر کردیا، اس کی صبح کی رفتار ایک ماہ کی مسافت تھی اور شام کی رفتار ایک ماہ کی مسافت تھی اور ہم نے ان کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور ہم نے بعض جنات ان کے تابع کردیئے تھے وہ اپنے رب کے حکم سے ان کے سامنے کام کرتے تھے (اور ہم نے فرما دیا تھا کہ) اور جو ان میں سے ہمارے حکم کی نافرمانی کرے گا ہم اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب چکھائیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور سلیمان کے لئے ہوا کو مسخر کردیا، اس کی صبح کی رفتار ایک ماہ کی مسافت تھی، اور شام کی رفتار ایک ماہ کی مسافت تھی، اور ہم نے ان کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہادیا، اور ہم نے بعض جنات ان کے تابع کردیئے تھے، وہ اپنے رب کے حکم سے ان کے سامنے کام کرتے تھے (اور ہم نے فرما دیا تھا کہ) اور جو ان میں سے ہمارے حکم کی نافرمانی کرے گا، ہم اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب چکھائیں گے۔ سلیمان جو کچھ چاہتے تھے وہ (جنات) ان کے لئے بنادیتے تھے، قلعے اور مجسمے اور حوضوں کے برابر ٹب اور چولہوں پر جمی ہوئی دیگیں، اے آل دائود ! تم شکر ادا کرنے کے لئے نیک کام کرو، اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔ پس جب ہم نے ان کے اوپر موت کا حکم نافذ کردیا تو جنات کو ان کی موت پر صرف گھن کے کیڑے دیمک نے مطلع کیا جو ان کے عصا کو کھارہا تھا، پھر جب سلیمان گرپڑے تب جنات پر یہ بات آشکار ہوئی کہ اگر ان کو غیب کا علم ہوتا تو وہ اس ذلت والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔ (سبا : ۱۴۔ ۱۲ )

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خصوصی فضائل 

اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کو دی ہوئی فضیلتوں کا ذکر فرمایا تھا اور اب جو آیات آرہی ہیں ان میں حضرت دائود (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو دی ہوئی فضیلتیں کا ذکر فرمایا ہے اور اس کا ربطہ پہلی آیتوں سے اس طرح ہے کہ بیٹے کے فضائل بھی دراصل اس کے باپ کے فضائل ہی ہوتے ہیں۔ 

علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ لکھتے ہیں :

سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جب تخت پر بیٹھتے تھے تو ان کے اردگرد چارسو کرسیاں ہوتی تھیں، جن پر آگے معزز انسان بیٹھتے تھے اور ان کے پیچھے عام انسان بیٹھتے تھے، اور ان کے بعد جنات میں سے سردار بیٹھتے تھے، پھر ان کے بعد عام جن بیٹھتے تھے اور ہر کرسی کے اوپر ایک پرندہ ہوتا تھا جس کے سپرد کوئی ڈیوٹی ہوتی تھی، پھر ہوا اس تخت کو اٹھا لیتی تھی اور پرندے ان پر سایا کرتے تھے، صبح کو وہ بیت المقدس سے اصطخر (شیراز سے بارہ فرسخ دور ایک اہم شہر) کی طرف جاتے تھے، ابن زید نے کہا وہ شام سے عراق کی طرف جاتے تھے، اور بھی روایات ہیں۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ٤١، ص ٣٤٢، دارالفکر، ٥١٤١ ھ)

حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیر متوفی ٤٧٧ ھ لکھتے ہیں :

ہوا کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حکم کے تابع کردیا تھا وہ ایک ماہ کی مسافت صبح کی سیر میں اور ایک ماہ کی مسافت شام کی سیر میں طے کرلیتی تھی، وہ دمشق سے حضرت سلیمان کے تخت کو مع سازوسامان اڑاتی اور تھوڑی دیر میں اصطخرپہنچا دیتی، اسی طرح شام کو دمشق سے کابل پہنچا دیتی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے تانبے کو پانی بناکر اس کے چشمے رواں کردیئے تھے کہ اس سے وہ جو چیز بنانا چاہیں آسانی سے بنالیں، جنات کو حضرت سلیمان کا ماتحت کردیا تھا وہ ان سے جس طرح چاہتے تھے کام لیتے تھے اور جو جن ان کے کام سے جی چراتا فوراً آگ میں جھلسا دیا جاتا۔ امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابو تعلبہ الخشنی رصی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنات کی تین قسمیں ہیں ایک قسم ان جنات کی ہے جن کے پر ہوتے ہیں وہ ہوا میں اڑتے ہیں، دوسری قسم وہ ہے جس میں سانپ اور کتے ہوتے ہیں، جو سواریوں پر سوار ہوتے ہیں اور سفر کرتے ہیں۔ یہ عجیب و غریب حدیث ہے (مطبوعہ تفسیر امام ابن ابی حاتم میں یہ روایت نہیں ہے) ابن انعم نے تیسری قسم میں ان جنات کا ذکر کیا ہے جن کو ثواب اور عذاب ہوتا ہے، بکر نے بیان کیا ہے کہ جنات کی تین قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جو قیامت کے دن عرش الٰہی کی سائے میں ہوگی، دوسری قسم جانوروں سے زیادہ گم راہ ہے تیسری قسم ہے وہ ہے جو انسانوں کی شکلوں میں ہیں اور ان کے دل شیاطین کی طرح ہیں، حسن بصری نے کہا جنات ابلیس کی اولاد ہیں اور انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں ان دونوں قسموں میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی اور عذاب اور ثواب میں شریک ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٩٧٥، دارالفکر بیروت، ٩١٤١ ھ)

حضرت سلیمان (علیہ السلام) جہاں جانا چاہتے تھے ہوا ان کو وہاں لے جاتی تھی اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس چیز کو دیکھنا چاہتے تھے وہ چیز خود آپ کے سامنے آجاتی تھی جیسا کہ جب مشرکین نے آپ سے مسجد اقصیٰ کے متعلق سوالات کئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے بیت المقدس رکھ دیا۔ 

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠١٧٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٠٧١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣١٣)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 12