أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يَعۡمَلُوۡنَ لَهٗ مَا يَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِيۡبَ وَتَمَاثِيۡلَ وَجِفَانٍ كَالۡجَـوَابِ وَقُدُوۡرٍ رّٰسِيٰتٍ ؕ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكۡرًا ؕ وَقَلِيۡلٌ مِّنۡ عِبَادِىَ الشَّكُوۡرُ‏ ۞

ترجمہ:

سلیمان جو کچھ چاہتے تھے وہ (جنات) ان کے لئے بنا دیتے تھے، قلعے اور مجسمے اور حوضوں کے برابر ٹب، اور چولہوں پر جمی ہوئی دیگیں، اے آل دائود ! تم شکر ادا کرنے کے لئے نیک کام کرو، اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں

محراب کے داخل مسجد ہونے کی تحقیق 

اس آیت میں ذکر ہے کہ وہ محاریب اور تماثیل بناتے تھے، محاریب سے مراد ہے بلند اور حسین عمارت، قتادہ نے کہا اس سے مراد محلات اور مساجد ہیں ابن زید نے کہا اس سے مراد گھر ہیں۔ 

مسجد کی محراب کے متعلق یہ بحث کی جاتی ہے کہ یہ مسجد میں داخل ہے یا مسجد سے خارج ہے اس میں تحقیق یہ ہے کہ مسجد بنانے والا مسجد بناتے وقت جس جگہ کو مسجد میں داخل رکھے گا وہ مسجد میں داخل ہوگی اور جس جگہ کو مسجد سے خارج رکھے گا وہ مسجد سے خارج ہوگی، اور جب مسجد بنائی جاتی ہے تو تعمیر کرنے والے یہ قصد نہیں کرتے کہ محراب کو مسجد سے خارج رکھا جائے گا، بلکہ مسجد کی محراب اسلامی طرز تعمیر کا شعار اور اس کی خصوصیت ہے۔ البتہ امام کو نماز میں پیر محراب سے خارج رکھنے چاہئیں تاکہ عبادت میں امام کی مخصوص جگہ کا وہم نہ ہو اور نصاریٰ کے ساتھ تسبہ نہ ہو، محراب اس لئے بنائی جاتی ہے کہ امام مسجد کے وسط میں کھڑا ہوسکے پس حقیقی محراب مسجد کا وسط ہے اور یہ مخصوص ساخت عرفی محراب ہے۔ 

علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ٠٧٩ ھ لکھتے ہیں :

امام اور مقتدی میں مکان (جگہ) کا اختلاف نماز کے نواز سے مانع ہے اور اگر جگہ کے اختلاف کا شبہ ہو تو وہ کراہت کا موجب ہے اس لئے اگر امام محراب میں کھڑا ہو تو یہ مکروہ ہے، ہرچند کہ عادت مستمرہ (دائمہ) یہ ہے کہ محراب مسجد میں داخل ہے لیکن اس کی مخصوص ہیئت اور صورت جگہ میں اختلاف کے شبہ کی موجب ہے اس لئے اگر امام کے پیر محراب میں ہوں تو یہ مکروہ ہے اور اگر پیر محراب سے باہر ہو تو پھر کوئی کراہت نہیں ہے۔ ( البحرالرائق ج ٢١ ص ٦٢، مطبوعہ مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ)

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی ٢٥٢١ ھ لکھتے ہیں :

مسلمانوں کی دائمی عادت یہ ہے کہ محراب مسجد میں داخل ہوتی ہے تاہم اگر امام کے پیر محراب میں داخل ہوں تو اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ امام کی الگ اور ممتاز جگہ ہے اور یہ اہل کتاب کے طریقہ کے مشابہہ ہے اس لئے امام کے پیر محراب سے باہر ہونے چاہئیں اور اگر اس کے پیر محراب میں ہوں تو یہ مکروہ ہے۔ (ردالمحتارج ٢، ص ٧٥٣، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ٩١٤١ ھ )

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ٠٤٣١ ھ لکھتے ہیں :

ابن الانباری کہتے ہیں کہ محراب کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں امام اکیلا کھڑا ہوتا ہے اور لوگوں سے دور ہوتا ہے۔ (تاج العروس ج ١ ص ٧٠٢، داراحیاء الثراث العربی بیروت) علامہ ابن منظور افریقی نے لکھا کہ محاریب سے مراد جائے صدور ہے اسی سے محراب مسجد ہے اسی سے یمن میں غمدان کے محراب اور محراب قبلہ ہے۔ (لسان العرب ج ١، ص ٥٠٣، دارصادر بیروت)

خلاصۃ الوفاء کے باب چہارم کی آٹھویں فصل میں فرمایا کہ حضرت عثمان (رض) شہید ہوئے تو مسجد میں کنگرے اور محراب نہ تھے، سب سے پہلے محراب اور کنگرے بنانے والے حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) ہیں، اسی کی دوسری فصل میں ہے کہ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ظاہری حیات اور خلفاء راشدین کے دور میں محراب نہ تھا، امارت ولید بن عبدالملک میں عمر بن عبدالعزیز نے بنوایا۔ (وفاء الوفاء ج ٢ ص ٥٢٢، داراحیاء التراث العربی بیروت) حافظ عسقلانی متوفی ٢٥٨ ھ فرماتے ہیں علامہ کرمانی نے لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر کے ایک کنارے کھڑے ہوتے تھے، اس وقت مسجد میں محراب نہ تھا۔ ) (فتح الباری ج ٢ ص ١٢١، مصر)

علامہ بدرالدین عینی حنفی متوفی ٥٥٨ ھ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر کے پہلو میں قیام فرماتے تھے کیونکہ اس وقت مسجد میں محراب نہ تھا۔ (عمدۃ القاری ج ٤، ص ٠٨٢، ادارۃ الطباعۃ المنیریہ مصر) 

(فتاویٰ رضویہ طبع جدید ج ٧، ص ٧٤٣۔ ٥٤٣، ملخصارضا فائونڈیشن لاہور، ٥١٤١ ھ)

نیز اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی لکھتے ہیں : 

مسجد کا محراب بھی اس کی اعلیٰ و اشرف جگہ ہوتی ہے یہ امام ابوحنیفہ سے ہے ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ محراب مجالس کی اعلیٰ و اشرف جگہ ہوتی ہے اور اسی طرح مساجد کے محراب ہیں۔ (لسان العرب ج ٠١ ص ٥٠٣، ملخصا)

محراب طاق وغیرہ کی صورت کا نام نہیں بلکہ ٨٨ ھ سے پہلے مساجد قدیمہ میں اس کا وجود نہ تھا، سب سے افضل مسجد حرام اس سے اب تک خالی ہے، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ظاہری حیات، خلفاء راشدیں، امیر معاویہ اور حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) کے دور میں مسجد نبوی میں صورت محراب نہ تھی بلکہ ولید بن عبدالملک مروانی نے اپنے دورامارت میں محراب بنایا اور یہ تسلیم ہے کہ زینت کے علاوہ امام کی جگہ پر علامت کے طور پر محراب کا ہونا بہتر ہے خصوصاً بڑی مساجد میں تاکہ ہر دفعہ غور و فکر نہ کرنا پڑے اور رات کو بغیر روشنی کے امام کو پایا جاسکے، اور امام کے محراب میں سجدہ کی وجہ سے مقتدیوں کو وسعت بھی مل جاتی ہے تو جب محراب میں یہ مصالح تھے تو اس کا رواج ہوگیا اور تمام بلاد اسلامیہ میں یہ معروف ہوا۔ 

(فتاویٰ رضویہ ج ٧، ص ٥٤٣۔ ٤٤٣، ملخصا، رضا فائونڈیشن لاہور، ٥١٤١ ھ)

نیز اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں : 

علامہ شامی لکھتے ہیں : محراب کا مقصد یہ ہے کہ وہ قیام امام کی علامت ہو، تاکہ اس کا قیام صف کے درمیان ہو، یہ مقصد نہیں کہ امام محراب کے اندر کھڑا ہو محراب اگرچہ مسجد کا حصہ ہے لیکن ایک دوسرے مقام کے مشابہ ہے لہٰذا اس کے اندر کھڑے ہونے سے کراہت ہوگی۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٧ ص ٠٥٣، رضا فائونڈیشن لاہور، ٥١٤١ ھ)

مفتی وقار الدین متوفی ٣١٤١ ھ لکھتے ہیں : محراب مسجد میں داخل ہے۔ (وقار الفتاویٰ ج ٢، ص ٦٥٢، بزم وقارالدین کراچی، ٠١٤١ ھ)

محراب کے بدعت ہونے یا نہ ہونے کی تحقیق 

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ٦٩٣١ ھ نے اس جگہ لکھا ہے : اور تحقیق اور صحیح بات یہ ہے کہ اگر اس طرح کی محرابیں نمازیوں کی سہولت اور مسجد کے مصالح کے پیش نظر بنائی جائیں اور ان کو سنت مقصودہ نہ سمجھاجائے تو ان کو بدعت کہنے کی کوئی وجہ نہیں، ہاں اس کو سنت مقصودہ بنالیا جائے اس کے خلاف کرنے والے پر نکیر ہونے لگے تو اس غلو سے یہ عمل بدعت میں داخل ہوسکتا ہے۔ (معارف القرآن ج ٧، ص ٨٦٢) میں کہتا ہوں کہ اس قاعدہ کا اطلاق ان تمام امور پر کرنا چاہیے جن میں مکتب فکر بریلی اور مکتب فکر دیوبند کا اختلاف ہے، مثلا سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام اقدس پر انگوٹھے چومنا، اذان سے قبل یا بعد فصل کے ساتھ صلوٰۃ وسلام پڑھنا، محفل میلاد منعقد کرنا، وغیر ھا، علماء اہل سنت ان امور کو جائز اور مستحب ہی کہتے ہیں، سنت مقصودہ یا سنت لازمہ نہیں کہتے، لہٰذا اس مذکورہ قاعدہ کے مطابق علماء دیوبند کو ان امور کے ارتکاب پر بدعت کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے۔ 

تصویروں کا شرعی حکم 

تماثیل کا معنی ہے، صورتیں اور مجسمے، مجاہد نے کہا یہ پیتل کے مجسمے تھے، ضحاک نے کہا یہ مٹی اور شیشے کے مجسمے تھے، اسلام میں مجسموں کا بنانا اور ان کو رکھنا جائز نہیں ہے، صرف چھوٹی بچیوں کے لئے گڑیاں کھیلنے کا جواز ہے اور تصاویر کا بنانا بھی جائز نہیں ہے خواہ وہ تصاویر ہاتھ سے پینٹنگ کے ذریعہ بنائی جائیں یا کیمرے کا فوٹو گراف ہو یا وڈیو کیمرے کی تصاویر ہوں یا سینما کی تصویر ہوں۔ 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ کیمرے کی تصاویر بھی آئینہ کے عکس کی طرح ہیں اس لئے ان کو بھی جائز ہونا چاہیے، اس کا جواب یہ ہے کہ آئینہ میں عکس ناپائیدار ہوتا ہے جب کہ کیمرے کے ذریعہ اس تصویر کو اپنے اختیار سے قائم اور پائیدار کرلیا جاتا ہے لہٰذا کیمرے کے فوٹو گراف کو آئینہ کے عکس پر قیاس کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کی مفصل بحث ہم نے تبیان القرآن کی آٹھویں جلد میں لانمل ٠٦ کی تفسیر میں ذکر کی ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ 

جفان، الجواب، قدور اور راسیات کے معانی 

اس کے بعد اس آیت میں جفان، الجواب، قدور اور راسیات کے الفاظ ہیں : 

جفان : جفنتہ کی جمع ہے، اس کا معنی ناند، لگن یا ٹب ہے، یہ ٹب اس لئے بنوائے تھے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بہت بڑی فوج تھی اس کو کھانا کھلانے کے لئے اس میں کھانا ڈال کر ان کو پیش کیا جائے۔ 

الجواب جابیۃ کی جمع ہے اس کا معنی بہت بڑا حوض یا تالاب ہے، یہاں مراد یہ ہے کہ وہ ٹب بہت بڑے حوض کی مانند تھے۔ 

قدور قدر کی جمع ہے اس کا معنی ہانڈی یا دیگ ہے

راسیات : یہ راسیۃ کی جمع ہے اس کا معنی ہے وہ چیز جو کسی چیز پر قائم ہو اور اس پر رکھی ہوئی ہو، مراد یہ ہے کہ وہ دیگیں چولہوں پر جمی ہوئیں تھیں۔ 

اس کے بعد فرمایا : اے آل دائود تم شکرادا کرنے کے لئے نیک کام کرو، اور میرے بندوں میں شکرادا کرنے والے کم ہیں۔ 

آل دائود کو شکر کرنے کا حکم 

شکر کا لغوی اور اصطلاحی معنی اور شکر کے متعلق قرآن مجید کی آیات اور چالیس احادیث ہم تفصیل سے ابراہیم : ٧ میں بیان کرچکے ہیں۔ 

حکیم ترمذی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر چڑھے، آپ نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا : جس شخص کو تین نعمتیں دی گئیں اس کو آل دائود کی مثل نعمتیں دی گئیں، ہم نے پوچھا وہ کون سی نعمتیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا رضا اور غضب کی حالت میں عدل کرنا، اور فقر اور غنا میں درمیانہ روی قائم رکھنا، اور تنہائی اور مجلس میں اللہ سے ڈرنا۔ (نوادر الاصول ج ٢، ص ٧، دارالجیل بیروت، ٢١٤١ ھ)

روایت ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے کہا اے میرے رب ! میں تیری نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی طاقت کس طرح رکھ سکتا ہوں ! کیونکہ شکر ادا کرنے کا باعث دل میں ڈالنا اور تیرے شکر ادا کرنے کی قدرت بھی تیری دی ہوئی نعمت ہے، فرمایا : اے دائود ! اب تم نے مجھے پہچان لیا۔ 

نعمت کا اعتراف کرنا اور اس نعمت کو اللہ کی اطاعت میں خرچ کرنا شکر کی حقیقت ہے اور نعمت کا انکار کرنا اور اس نعمت کو اللہ کی معصیت میں خرچ کرنا کفران نعمت اور شکر کی ضد ہے۔ 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اتنا قیام کرتے تھے کہ آپ کے پیر پھٹ جاتے تھے، حضرت عائشہ نے آپ سے کہا آپ اس قدر مشقت اٹھا رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلاف اولیٰ سب کام معاف فرما دیئے ہیں، آپ نے فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٠٢٨٢)

ظاہر قرآن اور سنت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان نیک عمل اور عبادت کرکے شکر ادا کرے اور صرف زبان سے نعمت کا شکر ادا نہ کرے، تاہم زبان سے نعمت کا اعتراف کرنا زبان کا عمل ہے لیکن صرف اس پر اقتصار نہ کرے۔ 

القرآن – سورۃ نمبر 34 سبإ آیت نمبر 13