“رد انجینئر مرزا فسادی

از قلم حسیب احمد مجددی” (20/8/2020)

اساعتراضکےدوحصے ہیں۔

1۔پہلے وما ینطق عن الھوی کے احادیث پر منطبق ہونے اور حدیث کے وحی ہونے پر دلائل دیتے ہیں:

1۔پہلے تو جاننا چاہئے وما ینطق عن الھوی میں “ما” عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔جس سے صرف قرآن نہیں بلکہ رسول اللہ کی عام گفتگو، خواب،الہام،القاء،عمل اور قول بھی شامل ہیں۔

2۔اگر قرآن ہی صرف وحی ہوتا تو اللہ تعالیٰ آپ کے خواب کو اپنی طرف کیوں منسوب کرتا؟ وحی کیوں قرار دیتا؟ قرآن میں فرمایا:

{وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ}(اسرائیل:٦٠)

اور وہ خواب جو ہم نے تمہیں دکھایا۔

پھر دوسری جگہ فرمایا:

{لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ}

بے شک النے اپنے رسول کا خواب سچا کر دکھایا۔

3۔پھر احادیث مبارکہ کے وحی ہونے پر صحیح مسلم میں روایت بھی موجود ہے:

“ان اللہ اوحی الی ان تواضعوا حتی لایفخر احد علی احد ولا ینبغی احد علی احد”

بےشک اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی کہ تم تواضع اختیار کرو اور کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی ایک دوسرے سے زیادتی کرے۔

( أخرجه مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، رقم٢٥٨٨).

مرزا جہلمی مجھے بتائے یہ قرآن کے کس پارہ میں ہے؟ کس سورہ میں ہے؟ معلوم ہوا کہ رسول اللہ کے فرامین بھی وحی ہیں۔رسول اللہ نے خود اپنی احادیث کو وحی فرمایا۔

  1. پھر رسول اللہ کا عمل بھی وحی ہے۔ خیبر کے محاصرہ کے دوران جب یہودیوں کے درخت کاٹے گئے اور باغات اجاڑے گئے تو کچھ لوگوں نے اعتراض کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی جلی نازل فرما دی:

    {فباذن اللّٰہ} پس یہ اللہ کے حکم سے تھا۔(الحشر:٥)

اب مجھے مرزا بتائے کہ قرآن کی کس آیت میں آیا تھا کہ درخت کاٹو،باغات اجاڑ دو؟ صرف رسول اللہ کے عمل کو اللہ نے فرمایا یہ میرا حکم تھا۔ تو ماننا پڑے گا کہ قرآن کے علاوہ احادیث پر بھی وما ینطق عن الھوی کا قاعدہ چلے گا۔

سیدنا عمر فاروقؓ فرماتے ہیں :

یَا أَیُّہَا النَّاسُ : إِنَّ الرَّأیَ إِنَّمَا کَانَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ مُصِیْبًا لِأنَّ اللّٰہَ کَانَ یُرِیْہِ۔ لوگو: رسول اللہ ﷺ کی رائے بالکل درست ہوتی تھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی انہیں سجھاتا تھا۔

(السنن الکبری,امام بیہقی،ج١،رقم ١١٧)

امام ابن حزم احادیث وحی ہونے کا استدلال اس آیت سے لیا ہے کہ: {قُلْ إنَّمَا أَنْذِرُکُمْ بِالْوَحْیِ.}۔

ترجمہ: میں تمہیں وحی کے ذریعے ہی ڈرا رہا ہوں۔

(الانبیاء:٤٥)

فرماتے ہیں:

“یہ اللہ کی خود دی ہوئی خبر ہے کہ رسول ﷺکا کلام اور گفتگو ساری کی ساری وحی ہے اور یہ گفتگو دین ہی کے بارے میں تھی اور یہی ذکر ،دین ہے”۔(الإحکام: ۱/۹۰)

معلوم ہوا رسول اللہ کا ہر عمل وحی الہی تھا چاہے وہ قرآن ہو چاہے احادیث۔ ایسی سینکڑوں مثالیں قران و احادیث و آثار میں موجود ہیں جو وما ینطق عن الھوی کو احادیث کے لئے ثابت کرتے ہیں۔ اگر یہاں چند بھی بیان کروں تو بہت لمبی تحریر ہوجائے گی۔

(نوٹ: اگر مزید دلائل درکار ہوں تو بندہ حاضر ہے.)

اگر بقول مرزا انجینئر یہ وحی نہیں تو نماز،روزہ،حج، زکوٰۃ جیسے فرائض کی ادائیگی ان کے احکامات کس طرح حجت قرار پائیں گے؟ پھر تو ان کی حیثیت ہی ثانوی ہوگئی۔

حصہ_دوم

اب آتے ہیں اس کے اس غلیظ عقیدے اور اعتراض کی طرف کہ “رسول اللہ سے اجتہادی غلطیاں ہوئی جس پر اللہ نے معاذاللہ گرفت کی”.

اول تو یہ کہنا ہی کفر ہے اور رسول اللہ کی گستاخی ہے کہ رسول اللہ سے غلطی ہوئی۔ غلطی غلط سے ہے اور غلط کام کو انبیاء کی جانب منسوب کرنا ہی کفر ہے۔

ثانیاً اس گندے انڈے نے کہا کہ اللہ نے گرفت کی۔ ارے ظالم گرفت تو باطل کی کی جاتی ہے،گرفت تو اعداء کی ہوتی ہے مجرم کی ہوتی ہے۔ اے قادیانیوں کے پلے تجھے ذرا شرم نہ آئی تو اللہ و رسول کی طرف کس چیز کی نسبت کررہا ہے؟

اب آتے ہیں اس کے منافق کا جنازہ پڑھنے والے اعتراض کی طرف جس بنا پر اس نے وحی غیر متلو کا ہی انکار کردیا۔

الجواب:

جاننا چاہئے کہ رسول اللہ کے قول کو سنت قولی، آپ کے فعل کو سنت فعلی کہا جاتا ہے اور اگر آپ کے سامنے کوئی کام یا بات کی گئی ہو اور آپ نے سکوت فرمایا ہو تو اس کو حدیث تقریری یا حدیث سکوتی کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ محال ہے کہ نبی کے سامنے کوئی خلاف شرع کام ہو اور وہ منع نہ کریں۔ اس لئے آپ کے سکوت کو رضامندی سے تعبیر کر کے حدیث ہی کہا جاتا ہے۔

بالکل اسی طرح وحی کی اقسام میں سے ایک قسم وحی تقریری یا وحی سکوتی ہے جسے وحی حکمی بھی کہا جاتا ہے۔

کہ رسول اللہ جو اجتہاد کرتے ہیں اور ان پر عمل فرماتے ہیں مگر اللہ کی طرف سے سکوت ہوتا ہے تو اسے وحی سکوتی کہتے ہیں۔

اور اگر آپ سے کوئی ایسا اجتہاد ہو جو خلاف اولی ہو یا اللہ کی مرضی اس میں مزید اصلاح کی ہو تو اسی وقت وحی جلی نازل ہوجاتی ہے۔ جیسے اجتہاد سے منافقین کا جنازہ پڑھایا تو اسی وقت وحی نازل فرمائی کہ جنازہ نہیں پڑھنا۔

پھر اجتہاد سے ایک روایت کے مطابق شہد خود پر حرام کیا تو اللہ نے اسی وقت وحی نازل فرمادی۔(سورہ تحریم:۱)

مرزا نے جس دجل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس واقعے کو اپنی دلیل بنایا ہے اصل میں وہ تو دلیل ہی ہماری اہلسنت کی ہے۔ جو ہم وحی سکوتی کے ہونے پر دیتے ہیں۔

یعنی نبی کریم کا قول فعل تقریر سب وحی ہے یہاں تک کہ اجتہاد اگر درست ہو اور من جانب اللہ سکوت ہو جیسے مواخات مہاجر و انصار،میثاق مدینہ، مسجد نبوی کی تعمیر وغیرہ تو یہ وحی سکوتی ہے اور اگر خلاف اولیٰ ہو تو وحی جلی نازل کردی جاتی ہے۔

لہذا رسول اللّٰہ کا ہر فعل،قول،سکوت، چلنا، پھرنا ،عام گفتگو ہر ہر شے وحی ہے۔ اور وما ینطق عن الھوی میں داخل ہے۔آپ اندازہ فرمائیں جس ہستی کا چپ رہنا بھی وحی بنے اس کی شان کیسی ہوگی۔

یہ بات تو طے ہے کہ یہ شخص اہلسنت میں سے نہیں کیونکہ اس کی باتیں کفریہ اس کے عقائد باطل اس کی گفتگو گمراہ کن اور اس کا انداز متکبرانہ جاھلانہ ہے۔ جس کا اہلسنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔