بعض تفضیلی مولویوں ، نعت خوانوں اور نقیبوں کی مثال ” آلو” کی طرح ہے ، جو ہر سبزی میں فٹ ہوجاتے ہیں ۔

👈ربیع الاول میں میلاد کی پُر نور محفلیں ہوں تو سامعین کے بار بار ہاتھ کھڑے کرواکے انہیں اُسی رات خواب میں حضور علیہ السلام کی زیارت کی بشارتیں سُناتے ہیں۔

👈بزرگان دین کے اعراس پر جائیں ، تو وہاں کے گدی نشین کو چاہے کتنے ہی پرلے درجے کا جاہل ، بے عمل اور بدعقیدہ ہو امام الاولیاء ، غوث زماں اور قطب دوراں بنا کر ہی اسٹیج سے اترتے ہیں ۔

👈کسی بڑے دنیادار یا سیاستدان کا ختمِ سوئم یا چالیسواں ہو ، تو مرنے والے کی تعریفوں کے وہ پُل باندھتے ہیں ، کہ مُردے کی روح بھی سُن کر شرمندہ ہوجاے ۔ کہ یار میں دنیا میں تو ایسا نہیں تھا اب یہ اچانک کیا ہوگیا۔😁

👈اور محرم میں رافضیوں کی مجلسیں اٹینڈ کرنی ہوں ، تو امام باڑے کے دروازے پر پہنچتے ہی اپنی بچی کُچی سُنّیت اتار کر جاتے ہیں ، اور داخل ہوتے ہی ایسا رافضیانہ لباس پہنتے ہیں ، کہ عام بندے یہی سمجھتا ہے جیسے ابھی ابھی جناب کی ” قُم ” سے آمد ہوئی ہے ۔

الغرض پیسوں کے عوض ہر جگہ آپ ان کے اندر ایک ہی رنگ اور جوش و جذبہ دیکھیں گے ، کَہ لیں جہاں گئے وہیں کے ہو کر رہ گئے ، ایسی مخلص اور وفادار قوم ہے یہ۔😄

✍️ارسلان احمد اصمعی قادری

21/8/2020ء