لَقَدۡ كَانَ لِسَبَاٍ فِىۡ مَسۡكَنِهِمۡ اٰيَةٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنۡ يَّمِيۡنٍ وَّشِمَالٍ ۖ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ رَبِّكُمۡ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ بَلۡدَةٌ طَيِّبَةٌ وَّرَبٌّ غَفُوۡرٌ ۞- سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 15
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَقَدۡ كَانَ لِسَبَاٍ فِىۡ مَسۡكَنِهِمۡ اٰيَةٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنۡ يَّمِيۡنٍ وَّشِمَالٍ ۖ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ رَبِّكُمۡ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ بَلۡدَةٌ طَيِّبَةٌ وَّرَبٌّ غَفُوۡرٌ ۞
ترجمہ:
بیشک اہل سبا کے لئے ان کی بستیوں میں ہی نشانی تھی، دو باغ دائیں اور بائیں جانب تھے، اپنے رب کے رزق سے کھائو اور اس کا شکر ادا کرو، (سبا) پاکیزہ شہر ہے اور رب بہت بخشنے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک اہل سبا کے لئے ان کی بستیوں میں ہی نشانی تھی، دو باغ دائیں اور بائیں جانب تھے، اپنے رب کے رزق سے کھائو اور اس کا شکر ادا کرو، سباپاکیزہ شہر ہے اور رب بہت بخشنے والا ہے۔ پھر انہوں نے اعراض کیا تو ہم نے ان پر تندوتیز سیلاب بھیج دیا پھر ہم نے ان کے دو باغوں کو ایسے دو باغوں سے تبدیل کردیا جن میں بدذائقہ پھل اور جھائو کے درخت اور بیری کے بہت کم درخت تھے۔ یہ ہم نے ان کی ناشکری کی سزادی اور ہم صرف ناشکروں کو (ایسی) سزادیتے ہیں۔ (سبا : ۱۷۔ ۱۵ )
قوم سبا کی خوش حالی اور بدحالی
سبایمن کا ایک علاقہ ہے، جو صنعاء اور حضرموت کے درمیان ہے، اس کا مرکزی شہر مآرب تھا، اس علاقے کو سبا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقہ میں سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کی ایک شاخ آباد تھی۔
قوم سبایمن میں رہتی تھی، قوم تبع بھی ان ہی میں سے تھی، بلقیس بھی یہیں کے رہنے والی تھیں، یہاں کے لوگ بہت نعمتوں اور راحتوں میں تھے، اللہ کے رسول ان کے پاس آئے اور ان کو شکر کرنے کی تلقین کی اور ان کو یہ دعوت دی کہ یہ اللہ تعالیٰ کو واحد لاشریک مانیں، اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے طریقے بتائے، جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا یہ اسی طرح رہتے رہے، پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے روگردانی کی تو ان پر بہت تندوتیز سیلاب آیا جس سے تمام باغات، کھیت اور ملک برباد ہوگیا۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ سبا کوئی مرد ہے یا کوئی عورت ہے یا کسی ملک کا نام ہے ؟ آپ نے فرمایا ساب ایک مرد تھا جس کے دس بیٹے تھے، ان میں سے چھ یمن میں چلے گئے تھے اور چار شام میں۔
(مسند احمد ج ١ ص ٦١٣ طبع قدیم، حافظ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٠٠٩٢، مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ، ٦١٤١ ھ)
امام احمد نے متعدد اسانید کے ساتھ اس مضمون کی احادیث روایت کی ہیں۔
ان کے دونوں جانب پہاڑ تھے جہاں سے نہریں اور چشمے بہہ بہہ کر ان کے شہروں میں آتے تھے، اسی طرح نالے اور دریا بھی ادھر ادھر سے آتے تھے، قدیم بادشاہوں میں سے کسی نے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک مضبوط پشتہ بنوادیا تھا، دریا کی دونوں جانب باغ اور کھیت اگا دیئے گئے تھے، پانی کی کثرت اور زرخیز میں ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ بہت سرسبز رہا کرتا تھا، قتادہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی عورت اپنے سر پر ٹوکرارکھ کر نکلتی تو کچھ دور جانے کے بعد وہ ٹوکراپھلوں سے بھر جاتا تھا، درختوں سے اتنا زیادہ پھل گرتے تھے کہ ہاتھ سے توڑنے کی ضرورت نہیں پیش آتی تھی، مآرب میں ایک دیوار تھی جو صنعاء سے تین منزل پر تھی اور سدمآرب کے نام سے مشہور تھی، وہاں زہریلے جانور اور مکھی اور مچھر بھی نہیں ہوتے تھے، اللہ تعالیٰ کی یہ تمام نعمتیں اس لئے تھیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے پر برقرار رہیں اور اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کریں یہ اس نشانی کی تفصیل ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے : بیشک اہل سبا کے لئے ان کی بستیوں میں ہی نشانی تھی، دو باغ دائیں اور بائیں جانب تھے، اپنے رب کے رزق سے کھائو اور اس کا شکر ادا کرو، لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کو نہیں مانا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا اور سورج کی پرستش کرنے لگے۔
روایت ہے کہ ان کے پاس بارہ یا تیرہ رسول آئے تھے، آخر کار ان کے کفر اور ان کی سرکشی کا وبال ان پر آیا، انہوں نے دریا پر جو بند باندھ رکھا تھا وہ ٹوٹ گیا اور دریا چشموں اور بارش کے نالوں کا تمام پانی ان کے باغات اور کھیتوں کو بہاکر لے گیا، اس کے بعد اس زمین میں کوئی پھل دار درخت اگ نہ سکا، پیلو کے جھاڑ، کیکر کے درخت اور اسی طرح کے بےمیوہ، بےمزہ اور بدذائقہ درخت اگتے تھے البتہ کچھ بیری کے درخت اگ آئے تھے جو ان درختوں کی بہ نسبت کارآمد تھے، یہ ان کے کفر، شرک، سرکشی اور تکبر کی سزا تھی اور کافروں کو اسی طرح کی سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر ج ٤٨٥۔ ٢٨٥ ملخصا، دارالفکر بیروت، ٩١٤١ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 15