رات کو درگاہِ محدث اعظم پاکستان سے متصل‌ ، سُنی رضوی جامع مسجد فیصل آباد میں حاضری نصیب ہوئی ۔

ہم چار لوگ تھے ، ہم نے ارادہ کیا کہ باجماعت نماز پڑھیں ۔

جوں ہی جماعت کروانے لگے تو ہمیں منع کردیا گیا کہ آپ جماعت نہیں کروا سکتے ، اکیلے اکیلے نماز پڑھیں ۔

اِس مسجد میں باقاعدہ لکھ کر بھی لگایا ہوا ہے کہ:

دوسری جماعت کروانا منع ہے ۔

اور اگر کوئی مسافر یا معذورِ شرعی دوسری جماعت کروانا چاہے ، تو اُسے پورے التزام سے منع کرتے ہیں ۔

مسجدوالوں کا یہ رویہ بالکل غلط ہے ، جماعتِ ثانی کے متعلق اس شدت کی حمایت نہیں کی جاسکتی ۔

جماعت ثانی کی جب خود رسول اللہ ﷺ نے عملاً ترغیب دلائی ہے تو پھر کسی کو اِس شدت سے منع کرنے کا کیسے حق پہنچتا ہے ۔

جب علماے ربانیین کے مابین تفہیمِ مسئلہ‌مختلف فیہ‌ ہو جائے تو شدت ویسے ہی ختم‌ ہوجاتی ہے ، نہ کہ وہ مسئلہ شدت پسندی کی‌بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے ۔

جامع ترمذی وغیرہ میں صحیح حدیث ہےکہ:

ایک صحابی مسجد میں اس وقت پہنچے جب رسول اللہ ﷺ جماعت کروا چکے تھے ۔

سرکارﷺ نے جب دیکھا کہ‌ان کی جماعت رہ گئی ہے تو صحابہ سے فرمایا:

تم میں سے کون ہےجو اس کے ساتھ تجارت کرے گا ؟

( یعنی ان کے ساتھ نفل کی نیت سے کھڑا ہو گا ، تاکہ یہ جماعت کرا لیں ۔

اس طرح اِنھیں باجماعت فرض پڑھنے کا ثواب مل جائے ، اور ساتھ کھڑے ہونے والے کو نفل کا اجر مل جائے ، اور اجر و ثواب کی ایک طرح سے تجارت ہوجائے )

آپ ﷺ کا ارشاد سن کر ایک شخص کھڑے ہوئے اور اُن کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی ۔ رضی اللہ عنھما

اجلہ صحابہ ، تابعین ، ائمہ اور علما نے دوسری‌ جماعت کی اجازت دی ہے ۔

سیدی اعلیٰ حضرت نوراللہ مرقدہ کا فتوی بھی دوسری جماعت کے جواز پر ہے ۔

منتظمین سنی رضوی جامع مسجد سے مودبانہ گزارش ہے کہ جہاں آپ نے اور بہت ساری چیزوں کی عملاً چھوٹ دے رکھی ہے ، اِس کارِ خیر کی بھی دے دیں ۔

اللہ آپ سے راضی ہو ، اُسﷻ کے بندوں کو صفیں باندھ کر اسے یاد کرنے دیا کریں !

✍️لقمان شاہد

25-8-2020 ء