شادی برائے پاسپورٹ
شادی برائے پاسپورٹ
از: افتخار الحسن رضوی
ایک پیارا چند برس قبل عرب چھوڑ کر یورپ کو پیارا ہو گیا تھا، کچھ عرصہ قبل عمرہ پر آیا تھا، لمبے عرصے بعد ملاقات ہوئی تھی، آدھا سر سفید اور آدھا گنجا ہو چکا تھا، میں نے پوچھا شادی کیوں نہیں کی؟ کہنے لگا شادی تو کر چکا ہوں، بھائی بلایا کیوں نہیں؟ شادی یورپ میں ہی کر لی تھی، قریبی و مقامی دوستوں کو ہی بلایا تھا۔۔۔۔ والدین بھی شریک نہیں ہوئے تھے۔ خیر۔۔۔ بات بڑھی تو کہنے لگا میری بیوی گوری یورپی ہے، ہماری بہت انڈر سٹینڈنگ ہیں، وہ اسلام قبول کر کے بہت خوش ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
میں نے پوچھا اس نے اسلام کیوں قبول کیا؟ کہنے لگا حق سمجھ کر، میں نے کہا حق تو یہ ہے کہ تم جو کہہ رہے ہو وہ حق نہیں ہے، بلکہ تجھے پاسپورٹ درکار تھا، اسے چھت درکار تھی، عمر میں بھی تجھ سے بڑی ہو گی، شادی سے پہلے ہی ”مبتلا“ رہی ہو گی۔ حرمِ مدینہ میں بیٹھ کر اس نے جھوٹ بولنے سے گریز کیا اور میری باتوں پر دبے لفظوں میں ہاں کہی۔ میں نے مزید سوال داغے، کیا تیری بیوی نے اسلام قبول کرنے کے بعد نمازوں کی پابندی کی؟ روزے رکھتی ہے؟ اس کا لباس بدلا؟ اس کا طعام و طرز زندگی کس حد تک بدلا؟ افسوس کچھ بھی نہیں بدلا تھا!!! یہی وجہ ہے کہ تمہاری انڈرسٹنڈنگ اچھی ہے، آج ہی تم اسے نماز روزہ، زکوٰة اور مسئلہ ختم نبوت پر عمل کے لیے کہو، وہ وہیں واپس چکی جائے گی جہاں سے آئی ہے۔ (اگر دل سے اسلام قبول کر لے تو الگ بات ہے)۔
یہ عورتیں ”حق ” سمجھ کر اسلام قبول نہیں کرتیں، بلکہ میرے ذاتی مشاہدات و تجربات ہیں کہ یہ فقط پاسپورٹ، جسم اور سٹیٹس کی تجارت ہوتی ہے۔ ورنہ اسلامی ممالک کے علاوہ یورپ میں لاکھوں لڑکیاں کنواری، مطلقہ یا بیوہ ایسی ہیں جن سے شادی مسنون کی جا سکتی ہے لیکن کوئی بھی ان کا سہارا اس لیے نہیں بنتا کہ وہ مستقل بیوی بن جائے گی، جب کہ ان پاسپورٹ و وقت پرستوں کو تو جز وقتی مفاد حاصل کرنا ہوتا ہے۔
یہی دوست معترض ہوا اور کہنے لگا تم مولویوں کی سختی کی وجہ سے ہی تو یہ گوری لڑکیاں مذہبی لوگوں سے شادیاں نہیں کرتیں کہ تم لوگ انہیں نماز روزے وغیرہ کے معاملے میں سختی کرتے ہو۔ فقیر نے ہم دونوں کے ۳ Mutual فرینڈز جو کہ یورپی پاسپورٹ والے نہیں، ان کی درست مثالیں سامنے رکھیں، انہیں متعدد بار صاف ستھرے کردار والی گوری لڑکیوں کے رشتے صرف اسی وجہ سے آفر ہوئے کہ وہ دین دار اور باحیا تھے، مغرب کے شور و شر اور فتن و فساد والے معاشرے میں انسانیت گھٹن محسوس کر رہی ہے، لوگ چاہتے ہیں کہ ان بیٹیوں کے رشتے دینی و مذہبی صلاحیت و صالحیت رکھنے والوں کے ساتھ ہوں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اب اقوام مغرب میں بسنے والے لوگ داڑھی والے لڑکوں، نمازی و پابند شریعت لوگوں کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ کیونکہ مغرب کا گورا پن اپنے اندر چھپائے سیاہ کارناموں کی وجہ سے خوب کھل چکا ہے۔
جز وقتی شادیاں، عارضی مفادات اور مادیت پرستی تباہی ہے، شادی کوئی ایسی پروڈکٹ نہیں جو سٹور سے خریدی اور پسند نہ آنے پر واپس کر دی، یہ مقدس و پاکیزہ رشتہ ہے، اسے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہوسلم کی رضا پیش نظر رکھ کر نبھائیں۔
افتخار الحسن رضوی
۲۵ اگست ۲۰۱۹