أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَقَالُوۡا رَبَّنَا بٰعِدۡ بَيۡنَ اَسۡفَارِنَا وَظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ فَجَعَلۡنٰهُمۡ اَحَادِيۡثَ وَمَزَّقۡنٰهُمۡ كُلَّ مُمَزَّقٍ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لّـِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوۡرٍ‏ ۞

ترجمہ:

پھر انہوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہماری منزل سفر کو دور دور کر دے، انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے ان کو داستانیں بنادیا اور ہم نے ان کے مکمل ٹکڑے ٹکڑے کردیئے، بیشک اس میں بہت صبر کرنے والوں اور نہایت شکر کرنے والوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں

اس کے بعد فرمایا : پھر انہوں نے کہا : اے ہمارے رب ! ہماری منازل دور دور کردے، یعنی جب وہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں پر اترانے اور اکڑنے لگے اور اس امن اور عافیت پر انہوں نے قناعت نہیں کی، تو انہوں نے یہ تمنا کی کہ ان کیمنازل سفر دور دور ہوجائیں اور انہیں سفر کرنے میں مشقت اٹھانے کا مزا بھی آئے، جیسے اللہ نے میدان تیہ میں بنی اسرائیل پر جنت کے کھانوں میں سے من اور سلویٰ نازل کیا تھا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے زمین میں پیدا ہونے والی سبزیوں کو طلب کیا، اعلیٰ چیزوں کے بدلہ میں ادنیٰ چیزوں کو مانگا تھا اسی طرح ان لوگوں نے آرام اور عافیت کے بدلہ میں تھکاوٹ اور مشقت والے سفر کو طلب کیا اور یہ دعا کی کہ اے ہمارے رب ! ہماری منازل سفر کو دور دور کردے ‘ اور جب انہوں نے ناشکری کرکے اس طرح اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے ان کے کفر اور ظلم کی وجہ سے ان کو پارینہ داستانیں بنادیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے حتیٰ کہ عرب کے لوگ راتوں کو ان کے قصے اور کہانیاں سناتے تھے اور جو لوگ گناہوں سے رک کر اپنی خواہشوں پر صبر کرتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اس کا شکر ادا کرتے ہوں ان کے لئے اس واقعہ میں نشانی اور عبرت ہے۔ 

(الکشف والبیان ج ٨ ص ٥٨۔ ٤٨، الجامع لاحکام القرآن جز ٤١ ص ٢٦١، ملتقطا ومحصلا، بیروت)

القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 19