وَجَعَلۡنَا بَيۡنَهُمۡ وَبَيۡنَ الۡقُرَى الَّتِىۡ بٰرَكۡنَا فِيۡهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَّقَدَّرۡنَا فِيۡهَا السَّيۡرَ ؕ سِيۡرُوۡا فِيۡهَا لَيَالِىَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 18
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَجَعَلۡنَا بَيۡنَهُمۡ وَبَيۡنَ الۡقُرَى الَّتِىۡ بٰرَكۡنَا فِيۡهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَّقَدَّرۡنَا فِيۡهَا السَّيۡرَ ؕ سِيۡرُوۡا فِيۡهَا لَيَالِىَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ہم نے ان لوگوں کے اور ان بستیوں کے درمیان جن کو ہم نے برکت دی تھی کئی نمایاں بستیاں بنادیں، اور ہم نے ان بستیوں میں سفر کی منازل مقدر کردیں، تم اس میں دن اور رات کے اوقات میں بےخوفی سے سفر کرو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے ان لوگوں کے اور ان بستیوں کے درمیان جن کو ہم نے برکت دی تھی کئی نمایاں بستیاں بنادیں، اور ہم نے ان بستیوں میں سفر کی منازل مقدر کردیں، تم ان میں دن اور رات کے اوقات میں بےخوفی سے سفر کرو۔ پھر انہوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہماری منازل سفر کو دور دور کردے، انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے ان کو داستانیں بنادیا اور ہم نے ان کے مکمل ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور بیشک اس میں بہت صبر کرنے والوں اور نہایت شکر کرنے والوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں۔ (سبا : ٩١۔ ٨١)
اہل سبا کی ناشکری اور اس کا انجام
اس سے پہلے کی آیتوں میں اہل سبا کی ان نعمتوں کا ذکر فرمایا تھا کہ ان کو سرسبز باغات اور لہلہاتے ہوئے کھیت عطا فرمائے تھے اور اس قوم کے لئے کھانے پینے کی فراوانی تھی، ان آیتوں میں ان کو دی ہوئی ایک اور نعمت کا ذکر فرمارہا ہے کہ ان کی بستیاں اور آبادیاں قریب قریب تھیں، کسی مسافر کو اپنے سفر کے لئے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ تھی، اس کی ہر منزل پر کوئی نہ کوئی آبادی اور بستی ہوتی تھی وہاں اس کو تازہ پھل اور میٹھا پانی مل جاتا تھا۔
حسن بصری نے کہا ہے کہ یہ بستیاں یمن اور شام کے درمیان تھیں اور جن بستیوں کے متعلق فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو برکت دی تھی وہ بستیاں شام، اردن اور فلسطین کی بستیاں تھیں، ایک قول یہ ہے کہ وہ چارہزار سات سو بستیاں تھیں اور ان بستیوں کے درختوں، کھیتوں اور غلے اور پھلوں میں برکت دی گئی تھی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ برکت سے مراد یہ ہو کہ ان بستیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، وہ بستیاں نمایاں تھیں اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بستیاں راستے سے متصل تھیں، وہ صبح کو ایک بستی میں ہوتے تھے اور شام کو دوسری بستی میں ہوتے تھے، ایک قول یہ ہے کہ ہر میل کے بعد ایک بستی آجاتی تھی اس کا سبب یہ تھا کہ وہ پرامن راستے تھے، حسن بصری نے کہا ایک عورت اپنے ساتھ سوت کاتنے کا چرخا لے کر جاتی اور اس کے سر پر ٹوکرا ہوتا تھا اور اس کا ٹوکرا مختلف قسموں کے پھلوں سے بھرجاتا تھا شام اور یمن کے درمیان سفر میں اسی طرح ہوتا تھا۔
اور فرمایا : اور ہم نے ان بستیوں میں سفر کی منازل مقدر کردیں، یعنی جن بستیوں میں ہم نے برکت دی تھی ان میں ہم نے ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف اور ایک بستی سے دوسری بستی کی طرف منازل سفر کو مقرر کردیا تھا حتیٰ کہ وہ دوپہر کے وقت ایک بستی میں آرام کرتے اور شام کے وقت دوسری بستی میں نیند کرتے تھے، اور انسان بغیر آرام اور کھانے پینے کے لمبا سفر اس لئے کرتا ہے کہ اس کو دوران سفر کھانے پینے کی چیزیں میسر نہیں ہوتیں اور سفر پرخطر ہوتا ہے اور جب اس کو کھانے پینے کی چیزیں میسر ہوں اور راستہ پرامن ہو تو وہ مشقت نہیں اٹھاتا اور جہاں چاہتا ہے راستہ میں قیام کرلیتا ہے، اس لئے فرماتا تم ان میں دن اور رات کے اوقات میں بےخوفی سے سفر کرو۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 18