وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ بِهٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَلَا بِالَّذِىۡ بَيۡنَ يَدَيۡهِؕ وَلَوۡ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ مَوۡقُوۡفُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ ۖۚ يَرۡجِعُ بَعۡضُهُمۡ اِلٰى بَعۡضِ اۨلۡقَوۡلَۚ يَقُوۡلُ الَّذِيۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِلَّذِيۡنَ اسۡتَكۡبَرُوۡا لَوۡلَاۤ اَنۡـتُمۡ لَـكُـنَّا مُؤۡمِنِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 31
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ بِهٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَلَا بِالَّذِىۡ بَيۡنَ يَدَيۡهِؕ وَلَوۡ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ مَوۡقُوۡفُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ ۖۚ يَرۡجِعُ بَعۡضُهُمۡ اِلٰى بَعۡضِ اۨلۡقَوۡلَۚ يَقُوۡلُ الَّذِيۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِلَّذِيۡنَ اسۡتَكۡبَرُوۡا لَوۡلَاۤ اَنۡـتُمۡ لَـكُـنَّا مُؤۡمِنِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور کافروں نے کہا ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور نہ (ان) کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل کی گئیں اور کاش آپ ظالموں کو اس وقت دیکھتے جب وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ہوں گے (تو آپ ایک عبرت ناک منظر دیکھتے) ان میں سے ہر ایک دوسرے کی بات کا رد کررہا ہوگا، پس ماندہ لوگت متکبرین سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آتے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور کافروں نے کہا ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور نہ (ان) کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل کی گئیں، اور کاش آپ ظالموں کو اس وقت دیکھتے جب وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ہوں گے (تو آپ ایک عبرت ناک منظر دیکھتے) ان میں سے ہر ایک دوسرے کی بات کا رد کررہا ہوگا، پس ماندہ لوگ متکبرین سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آتے۔ اور متکبرین پس ماندہ لوگوں سے کہیں گے کیا ہدایت کے آنے کے بعد ہم نے تم کو ہدایت کے قبول کرنے سے روکا تھا بلکہ تم خود ہی مجرم تھے۔ (سبا : ٣٢۔ ٣١)
قیامت کے دن متکبر اور پسماندہ کافروں کا مناظرہ
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس مناظرہ کو بیان فرمایا ہے جو متکبر کافروں اور پسماندہ کا نفروں کے درمیان ہوگا، کفار قریش کہیں گے، ہم اس قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے اور نہ ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں یا نہ ان انبیاء پر جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے مبعوث کئے گئے ہیں، ایک قول یہ ہے کہ ان کی مراد یہ تھی کہ نہ وہ آخرت پر ایمان لائیں گے۔
ابن جریج نے کہا اس قول کا قائل ابو جہل بن ہشام تھا، ایک قول یہ ہے کہ اہل کتاب نے مشرکین سے کہا ہماری کتاب میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات مذکور ہیں تم ہم سے ان صفات کو پوچھ لو، جب مشرکین نے ان سے سوال کیا تو آپکی صفات اہل کتاب کی بیان کردہ صفات کے موافق تھیں، تب مشرکین نے کہا ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور نہ ان کتابوں پر ایمان لائیں گے جو اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں یعنی تورات اور انجیل بلکہ ہم سب کا کفر کریں گے، اور اس واقعہ سے پہلے وہ اہل کتاب سے مسائل معلوم کرتے رہتے تھے اور ان کی کتابوں سے استدلال کرتے تھے، اس سے ان کے علم کی کمی، فکر کا تضاد ان کا تعصب اور ان کی ہٹ دھرمی معلوم ہوگئی۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حشر کے دن میں ان کے حال کو بیان فرمایا کہ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ ان ظالموں کو اس وقت دیکھتے جب وہ میدان حشر میں اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کو لعنت ملامت کررہے ہوں گے حالانکہ وہ دنیا میں ایک دوسرے کے حامی اور معاون تھے تو اس وقت آپ ایک نہایت عبرت ناک منظر دیکھتے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا مکالمہ اور مناظرہ ذکر فرمایا کہ کمزور، گریب اور پسماندہ لوگوں نے امراء اور متکبرین سے کہا اگر تم لوگ ہم کو نہ بہکاتے اور نہ گمراہ کرتے تو ہم ضرور ایمان لے آتے۔
پھر اس کے بعد امراء اور متکبرین کا جواب ذکر فرمایا : کیا ہم نے تم کو ہدایت کے قبول کرنے سے روکا تھا اور کیا ہم نے تم کو اس پر مجبور کیا تھا بلکہ تم خود اپنے شرک اور کفر پر اصرار کررہے تھے اور تم خود ہی مجرم تھے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 31