أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَقَدۡ صَدَّقَ عَلَيۡهِمۡ اِبۡلِيۡسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوۡهُ اِلَّا فَرِيۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور بیشک ابلیس نے ان کے متعلق اپنے گمان کو سچ کر دکھایا تو مومنوں کی ایک جماعت کے سوا سب نے اس کی پیروی کی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بیشک ابلیس نے ان کے متعلق اپنے گمان کو سچ کردکھایا تو مومنوں کی ایک جماعت ایک سوا سب نے اس کی پیروی کی۔ اور ابلیس کا ان پر کوئی تسلط نہ تھا مگر (اس کی ترغیب سے لوگوں نے جو کفر کیا) وہ اس لئے تھا کہ ہم آخرت پر ایمان لانے والوں کو ان سے الگ ممیز اور ممتاز کردیں جو آخرت کے متعلق شک میں ہیں، اور آپ کا رب ہر چیز کا نگہبان ہے۔ (سبا : ١٢۔ ٠٢)

شیطان کے پیروکاروں کا اس کی پیش گوئی کو سچ کردکھانا 

اس آیت میں ولقد صدق کی قرأت میں اختلاف ہے، عاصم، حمزہ اور کسائی نے صدق کو دال کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے، ظنہ میں نون کو زبر کے ساتھ پڑھا ہے اس بنا پر کہ وہ صدق کا مفعول ہے، اب معنی ہوگا اور بیشک ابلیس نے اہل سبا کے متعلق اپنے گمان کو سچ کر دکھایا اور باقی قراء نے اس کو صدق پڑھا ہے، دال کی تشدید کے بغیر، اور ظنہ میں نون کو پیش کے ساتھ پڑھا ہے یعنی اہل سبا کے متعلق ابلیس کا گمان سچا ہوگیا۔ (اتحاف فضلاء البشر فی القراء ات الاربعۃ عشر ص ٠٦٤، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ٩١٤١ ھ)

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٠١٣ ھ لکھتے ہیں :

میرے نزدیک اس میں صحیح قول یہ ہے کہ یہ دونوں قراء ات معروف اور متقارب المعنی ہیں، کیونکہ بنو آدم میں سے کفار کے متعلق ابلیس کا گمان سچا تھا اور بنوآدم میں سے کافروں نے بھی اس کے گمان کو سچ کردکھایا، جب اس نے یہ کہا تھا : 

(الاعراف : ٧١) پھر میں ان کے پاس ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے ضرور آئوں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والا نہیں پائے گا۔ 

اور اس نے کہا تھا : 

(النساء : ٩١١) اور میں ان کو ضرور بہ ضرور گمراہ کردوں گا اور میں ضرور بہ ضرور ان کے دلوں میں جھوٹی آرزوئیں ڈال دوں گا۔ 

اللہ کے دشمن ابلیس نے کسی علم کی بناء پر یہ پیش گوئی نہیں کی تھی، بلکہ یہ اس کا گمان تھا اور اس کے پیروکاروں نے اس کی پیروی کرکے اس کے گمان کو سچا کردکھایا، ابلیس نے اہل سبا کے متعلق یہ گمان کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معصیت کرکے اس کی پیروی کریں گے، سو انہوں نے ابلیس کی پیروی کرکے اس کے گمان کو سچ کر دکھایا، مومنوں کی ایک جماعت کے سوا جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی عبادت پر ثابت قدم اور برقرار رہے اور انہوں نے ابلیس لعنہ اللہ کی معصیت کی جیسا کہ شیطان نے خود اس کا اعتراف اور اقرار کیا تھا :

(بنی اسرائیل : ٢٦) ابلیس نے کہا تو دیکھ لے ! یہ آدم جس کو تو نے مجھ پر ترجیح اور عزت دی اگر تو نے مجھ کو قیامت تک کی مہلت دی تو میں چند لوگوں کے سوا اس کی تمام اولاد کو اپنا تابع بنالوں گا۔ 

(الحجر : ٠٤۔ ٩٣) ابلیس نے کہا اے میرے رب چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، مجھے بھی قسم ہے کہ میں ضرور بہ ضرور ان کے لئے زمین میں گناہوں کو مزین کردوں گا اور میں ان سب کو ضرور بہ ضرور گمراہ کردوں گا سوا ان میں سے تیرے مخلص بندوں کے۔ 

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 20