أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيۡرًا وَّنَذِيۡرًا وَّلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور ہم نے آپ کو (قیامت تک کے) تمام لوگوں کے لئے ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے آپ کو (قیامت تک کے) تمام لوگوں کے لئے ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو ؟ آپ کہیے تمہارے وعدہ کا ایک دن مقرر ہے جس سے تم ایک گھڑی موخر ہوسکو گے نہ مقدم ہوسکو گے (سبا : ۳۰۔ ۲۸)

کافۃ کا معنی 

سبا : ۲۸ میں کافۃ کا لفظ ہے، علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٢٠٥ ھ اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 

الکف انسان کی ہتھیلی کو کہتے ہیں جس کو انسان پھیلاتا ہے اور سکیڑتا ہے، کففتہ کا معنی ہے میں نے اس کو اپنی ہتھیلی سے روکا اور دور کیا، مکفوف اس شخص کو کہتے ہیں جس کی بینائی روک لی گئی ہو۔ اس آیت (سبا : ٨٢) میں کافۃ کا معنی ہے لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا، اور اس میں تامبالغہ کے لئے ہے جیسے علامہ میں ہے، قرآن مجید میں ہے قاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلو نکم کافۃ (التوبہ : ٦٣) اس آیت کا معنی ہے تم مشرکین کو روکتے ہوئے اور ان کو منع کرتے ہوئے قتال کرو جیسا کہ وہ تمہیں روکتے ہوئے اور منع کرتے ہوئے قتال کرتے ہیں، ایک قول یہ ہے کہ تم ان کی پوری جماعت کے ساتھ قتال کرو جیسا کہ وہ تمہاری پوری جماعت کے ساتھ قتال کرتے ہیں کیونکہ جماعت کو بھی الکافۃ کہتے ہیں۔ (المفردات ج ٢ ص ٩٥٥، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ٨١٤١ ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ لکھتے ہیں : 

کافۃ کا معنیٰ ہے عامۃ، یعنی ہم نے آپ کو عام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکربھیجا ہے، زجاج نے کہا اکلافۃ کا معنی ہے الجامع یعنی ہم نے آپ کو ڈرانے اور تبلیغ میں تمام لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بھیجا ہے، ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی ہے منع کرنے والا، یعنی ہم نے آپ کو اس لئے بھیجا ہے کہ آپ تمام لوگوں کو کفر سے منع کریں اور اسلام کی دعوت دیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٤١ ص ٠٧٢، دارالفکر بیروت، ٥١٤١ ھ)

تمام مخلوق کے لئے آپ کی رسالت پر دلائل 

اس آیت میں فرمایا ہے ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بنایا ہے اور ایک اور آیت میں فرمایا ہے :

(الفرقان : ١)

وہ بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے مکرم بندے پر الفرقان کو نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔ 

اور ایک اور آیت میں فرمایا : 

(الانبیاء : ٧٠١)

اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے۔ 

ان مقدام الذکر آیتوں سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام جہانوں کے لئے رسول ہیں اور اس عموم کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے : 

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھ کو پانچ ایسی چیزیں دی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے نبیوں میں کسی کو نہیں دی گئیں (١) ایک ماہ کی مسافت سے میرا رعب طاری کردیا گیا ہے (٢) اور میرے لئے تمام روئے زمین کو مسجد اور آلہ تیمم بنادیا گیا ہے، میری امت میں سے جس شخص پر جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہ وہیں نماز پڑھ لے (٣) اور میرے لئے غنیمتوں کو حلال کردیا گیا ہے (٤) اور پہلے نبی ایک مخصوص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں (٥) اور مجھے شفاعت دی گئی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٣٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٥، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٣٤)

اس حدیث کو امام مسلم نے دوسری جگہ روایت کیا ہے اس میں یہ الفاظ ہیں : 

وارسلت الی الخلق کافۃ : اور مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد : ٥، رقم الحدیث بلاتکرار : ٣٢٥، الرقم المسلسل : ٧٤١١)

اس حدیث میں خلق کا لفظ ہے اور مخلوق کا لفظ انسانوں، جنات، فرشتوں، حیوانات، درختوں اور پتھروں سب کو شامل ہے۔ 

علامہ جلال الدین سیوطی نے الخصائص الکبریٰ میں اس کو ترجیح دی ہے کہ آپ فرشتوں کے بھی رسول ہیں، اور شیخ تقی الدین سبکی نے یہ لکھا ہے کہ آپ حضرت آدم سے لے کر قیامت تک کے تمام نبیوں اور ان کی امتوں کے رسول ہیں، اور علامہ البارزی نے لکھا ہے کہ آپ تمام حیوانات اور جمادات کے رسول ہیں۔ 

علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ٧٣١١ ھ فرماتے ہیں کہ تمام موجودات کے لئے آپ کی بعث کے عموم پر یہ دلیل ہے کہ آپ مخلوقات میں سب سے افضل ہیں اسی وجہ سے آپ کی پیدائش پر تمام زمین والوں اور آسمانوں والوں نے خوشی منائی اور پتھروں نے آپ کو سلام عرض کیا سو آپ رحمۃ اللعالمین ہیں اور تمام مخلوق کی طرف رسول ہیں۔ (روح البیان ج ٧، ص ٧٤٣، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٢٤١ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ٠٧٢١ ھ فرماتے ہیں : 

الفرقان : امین ہے کہ آپ العلمین کے لئے نذیر ہیں اور مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک العٰلمین سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ سے لے کر قیامت تک کے انسان اور جنات ہیں، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان سب کی طرف مبعوث ہونا ضروریات دین سے ہے اور اس کا منکر کافر ہے اور علامہ سبکی اور ان کے موافق دیگر محققین کے نزدیک العٰلمین میں فرشتے بھی داخل ہیں اور انہوں نے اس موقف کے مخالفین کا رد بھی کیا ہے اور بعض محققین نے اس پر یہ دلیل قائم کی ہے کہ عالم اللہ کی ذات اور اس کی صفات کے ماسوا کو کہتے ہیں لہٰذا العٰلمین کا لفظ فرشتوں کو بھی شامل ہے، اور علامہ البارزی نے کہا ہے کہ صحیح مسلم کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جمادات کی طرف بھی مبعوث کئے گئے ہیں اور وہ بھی مدرک ہیں، کیونکہ حدیث میں ہے کہ میں تمام مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہوں اور آپ نے اس میں کوئی تخصیص نہیں فرمائی، باقی رہا یہ کہ فرشتے معصوم ہیں اور جمادات اور نباتات وغیرہ غیر مکلف ہیں تو آپ کو ان کی طرف مبعوث کرنے کا کیا فائدہ ہوا، اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کسی حکم شرعی یا عمل شرعی کے مکلف نہیں ہیں بلکہ ان سے صرف یہ مطلوب ہے کہ وہ صرف آپ کی رسالت کی تصدیق کریں، اور آپ کی دعوت اور آپ کے متبعین میں داخل ہوں تاکہ تمام رسولوں پر آپ کا شرف اور امتیاز اور آپ کی خصوصیت اور فضیلت ظاہر ہو۔ (روح المانی جز ٢٢ ص ٠٤٢، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ٩١٤١ ھ)

پتھروں، پہاڑوں اور جانوروں کا آپ کی رسالت …

کی تصدیق کرنا اور ہر چیز کا آپ کی رسالت کو پہچاننا 

پتھر آپ کی رسالت کی تصدیق کرتے ہیں اس کی دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں مکہ کے ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو میرے مبعوث ہونے سے پہلے مجھ پر سلام عرض کیا کرتا تھا میں اس کو اب بھی پہچانتا ہوں۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل : ١، رقم الحدیث بلاتکرار : ٦٧٢٢، الرقم المسلسل : ٨٢٨٥)

اور پہاڑ اور درخت دونوں کی تصدیق کے متعلق یہ حدیث ہے : 

حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ کے کسی راستہ میں جارہا تھا آپ کے سامنے جو بھی پہاڑ یا درخت آتا وہ کہتا تھا السلام علیک یا رسول اللہ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٢٦٣، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٢، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ٤٥١۔ ٣٥١، شرح السنہ رقم الحدیث : ٠١٧٣)

اور جانوروں کی تصدیق کے متعلق یہ حدیث ہے :

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں ایک بھیڑیے نے بکری پر حملہ کرکے اس کو پکڑ لیا، اس کے چرواہے نے اس بکری کو بھیڑیے سے چھڑالیا وہ بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھ کر کہنے لگا : اے چرواہے ! کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو اللہ کے دیئے ہوئے رزق کو مجھ سے چھین رہے ہو ؟ تو اس چرواہے نے کہا کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ایک بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھا ہوا مجھ سے کلام کررہا ہے، بھیڑیے نے کہا کیا میں تم کو اس سے زیادہ حیرت انگیز بات نہ بتائوں (سید نا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یثرب میں لوگوں کو گزشتہ زمانہ کی خبریں بیان کررہے ہیں۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٤٨۔ ٣٨، مسند البزاررقم الحدیث : ١٣٤٢ )

نیز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : 

ہرچیز کو علم ہے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں، ماسوا کافر یا فاسق جن اور انس کے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٧٦، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٤٣٥)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 28