وَمَا كَانَ لَهٗ عَلَيۡهِمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ يُّـؤۡمِنُ بِالۡاٰخِرَةِ مِمَّنۡ هُوَ مِنۡهَا فِىۡ شَكٍّ ؕ وَ رَبُّكَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ حَفِيۡظٌ۞- سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 21
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا كَانَ لَهٗ عَلَيۡهِمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ يُّـؤۡمِنُ بِالۡاٰخِرَةِ مِمَّنۡ هُوَ مِنۡهَا فِىۡ شَكٍّ ؕ وَ رَبُّكَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ حَفِيۡظٌ۞
ترجمہ:
اور ابلیس کا ان پر کوئی تسلط نہ تھا مگر (اس کی ترغیب سے لوگوں نے جو کفر کیا) وہ اس لئے تھا کہ ہم آخرت پر ایمان لانے والوں کو ان سے الگ ممیز اور ممتاز کردیں جو آخرت کے متعلق شک میں ہیں اور آپ کا رب ہر چیز کا نگہبان ہے
اور اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا تھا کہ میرے خاص اور مخلص بندوں پر تیرا دائود نہیں چل سکے گا۔
(الحجر : ٢٤) بیشک میرے خاص بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں ہوگا سواگم راہ لوگوں کے جو تیری پیروی کریں گے۔
سبا : ۲۱ میں مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ کے ربط اور اللہ تعالیٰ کے علم پر اشکال کا جواب
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور ابلیس کا ان پر کوئی تسلط نہ تھا۔ یعنی ابلیس نے ان سے زبردستی کفر صادر نہیں کرایا تھا اس کا کام صرف برے کاموں کو خوش نما بنا کر پیش کرنا اور ان کی طرف رغبت دلانا اور ان کی دعوت دینا تھا، سلطان کا معنی تسلط اور قوت ہے، اور اس کا معنی حجت اور دلیل بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے شیطان کو ایسی قوت اور دلیل نہیں دی جس کی بناء پر وہ انسان کے اعضا پر متصرف ہو کر ان کی مرضی کے خلاف ان سے کوئی کام کراسکے۔ اس آیت سے ان لوگوں کا بھی رد ہوجاتا ہے جو کہتے ہیں کہ انسان پر جن چڑھ جاتا ہے اور جن اس شخص کی زبان سے بولتا ہے اور اس کے ہاتھوں اور پیروں پر متصرف ہوتا ہے، ہاتھ اور پیر انسان کے ہوتے ہیں اور ان سے جن کے تصرفات کا ظہور ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا مگر (اس کی ترغیب سے لوگوں نے جو کفر کیا) وہ اس لئے تھا کہ ہم آخرت پر ایمان لانے والوں کو ان سے الگ ممیز اور ممتاز کردیں جو آخرت کے متعلق شک میں ہیں۔ (سبا : ١٢) ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں استثنا منقطع ہے، اور اس آیت کا لفظی ترجمہ اس طرح : اور ابلیس کو ان پر کوئی غلبہ نہ تھا مگر تاکہ ہم اس شخص کو جان لیں جو آخرت پر ایمان لاتا ہے، اس شخص سے جو آخرت کے متعلق شک میں ہے، اس آیت پر دواشکال ہوتے ہیں، ایک یہ کہ اس آیت میں بہ ظاہر مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ میں ربط نہیں ہے، اس کی توجیہ میں بعض مفسرین نے کہا یہ مستثنیٰ منقطع ہے، دوسرا اسکال یہ ہے کہ اس آیت سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے علم نہ تھا کہ کون آخرت پر ایمان لائے گا اور کون نہیں، ابلیس نے لوگوں کو گمراہ کیا تو اس کو پتا چلا ہم نے اپنے ترجمہ میں ان دونوں اشکالوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے پہلے دیگر تراجم پڑھیں پھر ہمارا ترجمہ پڑھیں۔
شیخ محمود حسن دیوبندی متوفی ٩٣٣١ ھ لکھتے ہیں :
اور اس کا ان پر کچھ زور نہ تھا مگر اتنے واسطے کہ معلوم کرلیں ہم اس کو جو یقین لاتا ہے آخرت پر جداکرکے اس سے جو رہتا ہے آخرت کی طرف سے دھوکے میں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ٠٤٣١ ھ لکھتے ہیں :
اور شیطان کا ان پر کچھ قابو نہ تھا، مگر اس لئے کہ ہم دکھادیں کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس سے شک میں ہے۔
شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ٤٦٣١ ھ لکھتے ہیں :
اور ابلیس کا ان لوگوں پر (جو) تسلط ( بطور اغوا ہے) بجز اس کے اور کسی وجہ سے نہیں کہ ہم کو (ظاہری طور پر) ان لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ان لوگوں سے (الگ کرکے) معلوم کرنا ہے جو اس کی طرف سے شک میں ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی متوفی ٩٩٣١ ھ لکھتے ہیں :
ابلیس کو ان پر کوئی اقتدار حاصل نہ تھا مگر جو کچھ ہوا وہ اس لئے ہوا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کون آخرت کا ماننے والا ہے اور کون اس کی طرف سے شک میں پڑا ہوا ہے۔
اور ہمارے شیخ سید احمد سعید کاظمی متوفی ٦٠٤١ ھ نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے :
اور شیطان کو ان پر کوئی غلبہ نہ تھا لیکن اس لئے کہ ہم ان لوگوں کو ممتاز کردیں جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں ان لوگوں سے جو اس کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
اور پیر محمد کرم شاہ الازہری متوفی ٨١٤١ ھ نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے :
اور نہیں حاصل تھا شیطان کو ان پر ایسا قابو (کہ وہ بےبس ہوں) مگر یہ سب اس لئے ہوا کہ ہم دکھانا چاہتے تھے کہ کون آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور کون اس کے متعلق شک میں مبتلا ہے۔
اور ہم نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے :
اور ابلیس کا ان پر کوئی تسلط نہ تھا مگر (اس کی ترغیب سے لوگوں نے جو کفر کیا) وہ اس لئے تھا کہ ہم آخرت پر ایمان لانے والوں کو ان سے الگ ممیز اور ممتاز کردیں جو آخرت کے متعلق شک میں ہیں۔
علامہ قرطبی نے اس اشکال کے حسب ذیل جواب دیئے ہیں :
١۔ تاکہ ہم جان لیں اس سے مراد علم شہادت ہے جس پر ثواب اور عقاب مرتب ہوتا ہے اور رہا علم غیب تو وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو معلوم ہے۔
٢۔ فراء نے کہا اس کا معنی ہے تاکہ تمہارے نزدیک ہمیں معلوم ہو۔
٣۔ شیطان کو ان پر کوئی تسلط نہ تھا لیکن ہم نے شیطان کو ان پر اس لئے مسلط کیا تاکہ ابتلاء مکمل ہو۔
٤۔ ہمارے علم ازلی میں شیطان کا ان پر کوئی تسلط نہ تھا مگر یہ اس لئے ہوا تاکہ ہم ظاہر کریں۔
٥۔ مگر یہ اس لئے ہواتا کہ تم کو معلوم ہوجائے۔
٦۔ اس میں مضاف محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے تاکہ اللہ کے رسول کو معلوم ہوجائے یا اللہ کے اولیاء کو معلوم ہوجائے۔
٧۔ یہ اس لئے ہوا تاکہ اللہ آخرت پر ایمان لانے والوں کو دوسروں سے ممتاز کردے۔
نیز فرمایا : اور آپ کا رب ہر چیز کا نگہبان ہے۔ یعنی وہ ہر چیز کا عالم ہے اس لئے وہ بندوں کو جزا اور سزا دیتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 21