أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَ لۡحَمۡدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا اُولِىۡۤ اَجۡنِحَةٍ مَّثۡنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ؕ يَزِيۡدُ فِى الۡخَـلۡقِ مَا يَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞

ترجمہ:

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام آسمانوں اور زمینوں کو ابتداء پیدا کرنے والا (اور) فرشتوں کو رسول بنانے والا ہے جو دو ، دو اور تین تین اور چار چار پروں والے ہیں، وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافہ فرما دیتا ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام آسانوں اور زمینوں کو ابتداء پیدا کرنے والا (اور) فرشتوں کو رسول بنانے والا ہے جو دو ، دو اور تین، تین اور چار چار پروں والے ہیں، وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافہ فرما دیتا ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے (فاطر : ١)

حمد اور فاطر کا معنی 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اس کی کس طرح حمد کریں، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں، کیونکہ تعریف کسی کمال اور خوبی پر کی جاتی ہے، اور تمام کمالات اور تمام خوبیاں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں، ہر چیز میں بہ ظاہر جو کمال نظر آتا ہے رحقیقت وہ اللہ تعالیٰ ہی کا کمال ہے۔

فاطر کا لفظ، فطر سے بنا ہے، فطر کا معنی ابتداء اور اختراع ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا مجھے فاطر السموات والارض کے معنی کا اس وقت تک پتا نہیں چلا حتیٰ کہ میرے پاس دو اعرابیوں نے اپنے جھگڑے میں مجھے اپنا حاکم بنایا وہ ایک کنوئیں کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور ان میں سے ہر ایک یہ کہہ رہا تھا کہ انا فطر تھا میں نے اس کنوئیں کو ابتداء کھودا ہے۔ (نہایہ ج ٣ ص 39) جن فرشتوں کو رسول بنایا ہے وہ حضرت جبریل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل (علیہم السلام) ہیں۔

ملائکہ کی تعریف 

وہ فرشتے دو ، دو اور تین تین اور چار چار پروں والے ہیں، اس کا معنی ہے ان فرشتوں کے پر ہوتے ہیں اور اس آیت میں چار سے زائد پر والے فرشتوں کی نفی نہیں ہے، کیونکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافہ فرما دیتا ہے، اور حدیث میں ہے :

حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4856 صحیح مسلم رقم الحدیث :174، سنن الترمذی رقم الحدیث :3277)

جو فرشتے رسول ہیں ان کی دو جہتیں ہوتے ہیں ایک جہت سے وہ اللہ تعالیٰ سے نعمتیں وصول کرتے ہیں اور دوسری جہت سے وہ مخلوق تک ان نعمتوں کو پہنچاتے ہیں جیسے قرآن مجید میں ہے :

(الشعرائ :192-193) اس قرآن کو الروح الامین (حضرت جبریل) نے آپ کے قلب پر نازل کیا ہے تاکہ آپ (لوگوں کو) عذاب سے ڈرانے والوں میں سے ہوجائیں۔ فالمدبرات امرا کام کی تدبیر کرنے والے فرشتوں کی قسم !

بعض علماء نے یہ تعریف کی ہے کہ وہ اجسام لطیفہ نوریہ ہیں اور مختلف صورتوں میں متشکل ہونے پر اور سخت اور مشکل کاموں کے کرنے پر اللہ تعالیٰ کے اذن اور اس کی اجازت سے قادر ہیں۔

خوبصورت چہرے، خوب صورت آواز اور خوب صورت لکھائی 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافہ فرما دیتا ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : اللہ تعالیٰ فرشتوں کی بناوٹ میں اور ان کے پروں میں جس طرح چاہتا ہے اضافہ فرما دیتا ہے، اس کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی جسمانی بناوٹ میں یا اس کی خوش آوازی میں یا اس کی خوبصورت لکھائی میں یا اس کی آنکھوں، یا ناک یا چہرے کی ملاحت میں یا اس کے بالوں کے گھونگر میں یا اس کی عقل کی تیزی یا اس کے علم اور ادراک میں یا اس کے پیشے میں یا اس کے نفس کی پاکیزگی میں یا اس کی گفتگو کی شیرین میں جس طرح چاہتا ہے اضافہ فرما دیتا ہے، اور ان چیزوں کا بہ طور تمثیل ذکر کیا گیا ہے ان چیزوں میں منحصر کرنا مراد نہیں ہے، اور یہ آیت ان تمام چیزوں کو شامل ہے، بلکہ جن چیزوں کو ظاہری طور پر حسین کہا جاتا ہے اور جن چیزوں کو ظاہری طور پر قبیح کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا اضافہ کرنا ان سب کو شامل ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو بھی بنایا ہے وہ حسین ہے خواہ ہم کو اس کے حسن کی وجہ معلوم ہو یا نہ ہو۔

آواز کے حسن کا اس حدیث میں ذکر ہے :

حضرت البراء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی آوازوں سے قرآن کو مزین کرو۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث :1468، سنن النسائی رقم الحدیث :1014، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1342)

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اپنی آوازوں کے حسن کے ساتھ قرآن مجید کی زینت کو ظاہر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس سے بہت بلند اور برتر ہے کہ مخلوق یہ ہے کہ اپنی آوازوں سے وہ مزین ہو، اور قرآن مجید کو خوش الحانی اور طرز کے ساتھ پڑھنا اس وقت تک مستحسن ہے جب تک کہ حروف کی ادائیگی میں کمی یا زیادتی سے قرآن مجید کا معنی متغیر نہ ہ۔

اور خوش خط لکھنے کے متعلق یہ ہحدیث ہے :

حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خوبصورت کتابت اور تحریر حق کو زیادہ واضح کرتی ہے۔ (مسند الفردوس للدیلمی ج ٢ رقم الحدیث :2816، الجامع الصغیر رقم الحدیث :4134 حافظ سیوطی نے اس حدیث کی سند کو ضعیف فرمایا ہے)

خوبصورت لکھائی ان چیزوں میں سے ہے جس کی طرف تمام شہروں کے لوگ رغبت کرتے ہیں اور اس فن میں کمال حاصل کرنا کمالات بشریہ میں سے ہے، ہرچند کہ اس فن میں زیادہ ترقی کرنا مقاصد میں سے نہیں ہے، اور کتنے درویش اپنے قلم کے ذریعہ روزی حاصل کرتے تھے، خوبصورت لکھائی سے پھڑنے والا محظوظ اور خوش ہوتا ہے، سبز پتوں میں پکے ہوئے پھل سفید کاغذوں میں خوبصورت لکھائی سے زیادہ خوش نما نہیں معلوم ہوتے اور خوبصورت لکھائی سے لکھا ہوا مسودہ نوخیز حسینائوں کے گلابی رخساروں سے زیادہ بھلا لگتا ہے، اور علمائے نے کہا ہے کہ خوب صورت لکھائی بھی ایک قسم کی فصاحت ہے۔

چھینک اور ڈکار کا نعمت اور بیماری ہونا 

اس آیت کے شرع میں الحمد اللہ کا ذکر ہے اور جس شخص کو چھینک آئے اس کو الحمد اللہ کہنا چاہیے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ الحمد اللہ کہے اور اس کے بھائی کو یرحمک اللہ کہنا چاہیے اور جب وہ یرحمک اللہ کہے تو چھینک والے کو یھدیکم اللہ ویصلح بالکم کہنا چاہیے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6224 سنن ابودائود رقم الحدیث :5031 سنن الترمذی رقم الحدیث :2740 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :599)

چھینک کا آنا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، کیونکہ جسم کے اندر سے بخارات دماغ کی طرف چڑھتے ہیں جس سے سر کے مسامات بند ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات سر میں درد ہوجاتا ہے، چھینک آنے سے سر کے مسامات کھل جاتے ہیں اور بخارات نکل جاتے ہیں اور دماغ کو راحت ملتی ہے سو بندہ کو چاہیے کہ وہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔

اسی طرح ڈکار آنے پر بھی الحمد اللہ کہنے کی ہدایت ہے :

حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی شخص کو ڈکار آئے یا چھینک آئے تو وہ ان کے ساتھ آواز بلند نہ کرے کیونکہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ ان کے ساتھ آواز بلند کی جائے۔ (کنز العمال رقم الحدیث :25532)

حضرت ابن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو چھینک آئے یا ڈکار آئے اور وہ کہے الحمد علی کال حال من الاحوال تو اس سے ستر بیماریوں کو دور کردیا جاتا ہے ان میں سب سے کم درجہ کی بیماری جذام ہے۔ (کنزالعمال رقم الحدیث :25542)

جب معدہ طعام سے بھر جاتا ہے تو وہ جگہ بنانے کے لئے طعام کو نیچے کرتا ہے، گویا ڈکار کا آنا اس بات کی علامت ہے کہ معدہ طعام سے بھر گیا سو اس نعمت پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرا چاہیے، تاہم زیادہ کھانا کھا کر ڈکاریں لینا ناپسندیدہ امر ہے، حدیث میں ہے :

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک شخص نے ڈکار لی تو آپ نے فرمایا تم اپنی ڈکار کو ہمارے سامنے سے بند کرو کیونکہ قیامت کے دن تم میں سب سے زیادہ بھوکا شخص وہ ہوگا جو تم میں سے بہ کثرت پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہوگا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2478 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3250)

انسان کبھی کبھار پیٹ بھر کر کھائے اور اس کو ڈکار آئے تو یہ نعمت ہے اور اس پر شکر ادا کرے، اور زیادہ ڈکاریں آنا بیماری ہے، جب معدہ میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے تو انسان کو زیادہ ڈکاریں آتی ہیں، اسی طرح ایک آدھ بار چھینک کا آنا تو نعمت ہے لیکن زیادہ چھینکوں کا آنا زکام کی بیماری ہے، حدیث میں ہے :

ایاس بن سلمہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں میں اس وقت موجود تھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس شخص کو چھین آئی تو آپ نے (اس کے الحمد اللہ کہنے کے جواب میں) فرمایا یرحمک اللہ، پھر جب اس شخص کو تیسری بار چھینک آئی تو آپ نے فرمایا اس شخص کو زکام ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث :2743، سنن ابو دائود رقم الحدیث :5037 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3714، مصنفابن ابی شیبہ ج ٨ ص 685 مسند امام احمد ج ٤ ص 46 سنن الدارمی رقم الحدیث :2664)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 1