بلیم گیم میں مصروف ہونا اہلِ کراچی کے ساتھ سنگ دلی ہے، مفتی منیب الرحمن
بلیم گیم میں مصروف ہونا اہلِ کراچی کے ساتھ سنگ دلی ہے، مفتی منیب الرحمن
اہلِ کراچی پر ایک قیامت گزر گئی ،جبکہ وفاقی ،صوبائی اور مقامی حکومتیں ایک دوسرے پر بلیم گیم یعنی الزامات اور جوابی الزامات میں مصروف ہیں، یہ اہلِ کراچی کے ساتھ نہایت سنگ دلانہ رویہ ہے ۔ حکومتوں کی نا اہلی تو ہمارے ہاں ایک مسلّم امر ہے ، لیکن اس سال مون سون بارشوں کا سلسلہ غیر معمولی رہا ، ایک اخبار کے مطابق نوّے سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سب حکومتیں مل کر ایک مرکزی نظم کے تحت فوری نوعیت کے مسائل کو حل کریں ، جن میں پانی کی نکاسی ، نالوں کی صفائی ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی فوری مرمت (ورنہ چند دنوں میں یہ سڑکیںکھنڈرات میں تبدیل ہوجائیں گی) اور کراچی سے کچرا اٹھانے کا مستقل انتظام شامل ہیں ، نیز گھروں کے آگے ،سڑکوں کے کنارے ، پارکوں میں اورجا بجاکچرا پھینکنے کو قانونی جرم قرار دیا جائے اور اس کے لیے تعزیر کا کوئی نظام ہو ۔ سڑکوں پر بہت سی جگہ گہرے گڑھے بن چکے ہیں ،حادثات کے امکانات بڑھ گئے ہیں ، سیوریج لائن کے مین ہولوں کی مرمت کر کے فوری طور پر ڈھکن رکھنے کی ضرورت ہے۔پس بغیر کسی آئینی ترمیم اور قانون سازی کے جو فوری کرنے کے کام ہیں، انہیں کیا جائے اور دیرپا کاموں کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے ۔کراچی کو آفت زدہ قرار دے کر وفاقی حکومت بحالی کے لیے فوری فنڈز جاری کرے۔
نیز جب تک حکومتِ سندھ تیسر ٹائون ، شاہ لطیف ٹائون ، ہاکس بے اور اسکیم 33کے ترقیاتی کام مکمل نہ کرے ، نئی ہائوسنگ اسکیم بنانے پر مکمل پابندی عائد کی جائے ، کیونکہ ایسی اسکیمیں صرف عوام سے پیسے بٹورنے کا ذریعہ ہوتی ہیں ۔ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے آج تک برسوں پرانی تیسر ٹائون اورلیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ہاکس بے ہائوسنگ اسکیم میں بنیادی ترقیاتی کام بھی نہیں کیےاورنہ رہنے کے قابل بنایااوردوسال پہلے لوگوں سے نئی اسکیم کے نام پر پیسے بٹورلیے ہیں ، یہ قانونی واخلاقی جرم ہے۔
کراچی صوبہ بنانابہت سے لوگوں کی خواہش ہے ، لیکن یہ آسان کام نہیں ہے ، اس کی سخت مزاحمت ہوگی اور اس کے لیے آئینی ترمیم بھی درکار ہوگی جوانتہائی مشکل کام ہے، کراچی صوبے کا مسئلہ وقتاً فوقتاً صرف حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھایا جاتا ہے اور بس!۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض حسین سے جو چار سو ساٹھ ارب روپے وصول کرنے اور سپریم کورٹ میں جمع کرنے کے لیے کہا ہے، چونکہ یہ پیسا کراچی کی زمین سے متعلق ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد کا تعلق بھی کراچی سےہے، میری ان سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ ایک ٹرسٹ قائم کر کے یہ رقم کراچی کے انفرااسٹرکچر کی بحالی پر خرچ کی جائے۔ (26اگست2020ء)