أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اِنۡ ضَلَلۡتُ فَاِنَّمَاۤ اَضِلُّ عَلٰى نَـفۡسِىۡ ۚ وَاِنِ اهۡتَدَيۡتُ فَبِمَا يُوۡحِىۡۤ اِلَىَّ رَبِّىۡ ؕ اِنَّهٗ سَمِيۡعٌ قَرِيۡبٌ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے اگر میں (بالفرض) گمراہ ہوں، تو میری گم راہی کا ضرر صرف مجھ پر ہی ہوگا، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا رب میری طرف وحی فرماتا ہے، بیشک وہ بہت سننے والا بہت قریب ہے

اس کے بعد فرمایا : آپ کہیے اگر میں (بالفرض) گم راہ ہوں تو میری گم راہی کا ضرر صرف مجھ پر ہی ہوگا، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا رب میری طرف وحی فرماتا ہے، بیشک وہ بہت سننے والا بہت قریب ہے۔ 

سبا : ٥٠ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف گمراہی کی نسبت کا ذکر 

کفار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہتے تھے کہ آپ نے اپنے باپ دادا کا دین ترک کردیا ہے سو آپ گمراہ ہوگئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا : آپ کہیے کہ اگر (بالفرض) میں گم راہ ہوں تو اس کا وبال مجھ پر ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ایک اور جگہ ہے :

(حم السجدۃ : ٤٦ )

جوشخص نیک کام کرے گا تو وہ اس کے اپنے نفس کے لئے ہے اور جو برا کام کرے گا تو اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔ 

اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ اپنی طرف نسبت کرکے کہیں کہ اگر میں گم راہ ہوں تو میری گم راہی کا ضرر صرف مجھ پر ہوگا، تاکہ یہ معلوم ہو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنے عظیم مرتبہ کے ہیں اور اللہ کے بہت مقرب ہیں اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ کہلوایا ہے کہ (بالفرض) اگر میں گم راہ ہوں تو میری گم راہی کا ضرر صرف مجھ پر ہی ہوگا تو عام لوگ تو اس قاعدہ کے تحت بہ طریق اولیٰ داخل ہوں گے۔ 

بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ اس آیت کا یہ معنی ہے کہ میرا گم راہ ہونا تمہارے گم راہ ہونے کی مثل ہے کیونکہ یہ میرے نفس سے صادر ہوگا اور اس کا وبال بھی مجھ پر ہوگا لیکن میرا ہدایت پر ہونا تمہارے ہدایت پر ہونے کی مثل نہیں ہے کیونکہ تم دلائل میں غور و فکر کرکے ہدایت کو قبول کرتے ہو، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس کی وجہ یہ ہی کہ میرا رب میری طرف وحی فرماتا ہے، بیشک وہ بہت سننے والا بہت قریب ہے۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص ٢٣٠، دارالفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)

اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سمعی اور نقلی دلیل، عقلی اور فکری دلیل سے زیادہ قوی ہوتی ہے کیونکہ عام لوگوں کی ہدایت عقلی دلیل سے ہوتی ہے اور آپ کی ہدایت سمعی دلیل اور وحی سے ہوتی ہے۔ 

سبا : ٥٠ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف گم راہی کی …نسبت کے بعض دیگر تراجم اور مصنف کا ترجمہ 

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ اس آیت کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

تم فرمائو اگر میں بہکا تو اپنے ہی برے کو بہکا۔ 

سید محمد محدث کچھو چھوی متوفی ١٣٨٣ ھ لکھتے ہیں : 

کہہ دو کہ اگر میں گمراہ ہوتا تو بہکتا اپنے برے کو۔

سید احمد سعید کا ظمی متوفی ١٤٠٦ ھ لکھتے ہیں :

فرمادیجئے اگر میں بہک جائوں تو اپنے ہی ضرر کو بہکوں گا۔ 

پیر محمد کرم شاہ الازہری متوفی ١٤١٨ ھ لکھتے ہیں : 

فرمائیے (تمہارے گمان کے مطابق) اگر میں بہک گیا ہوں تو اس کا وبال میری جان پر ہوگا۔ 

اور ہم نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے : 

آپ کہیے اگر میں (بالفرض) گم راہ ہوں تو میری گم راہی کا ضرر صرف مجھ پر ہی ہوگا۔ 

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف گم راہی کی نسبت کی تحقیق 

ہم نے اپنے ترجمہ میں قوسین کے اندر بالفرض کو اس لئے لکھا ہے کہ نبی کا گمراہ ہونا عادۃ ممکن نہیں ہے کیونکہ نبی پیدائشی مومن ہوتا ہے اور ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو نہ صرف پیدائشی مومن بلکہ پیدائشی نبی ہیں، حدیث میں ہے : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ کے لئے نبوت کب ثابت ہوئی ؟ آپ نے فرمایا اس وقت آدم روح اور جسم کے درمیان تھے۔(سنن الترمی رقم الحدیث :3609 المستدرک ج ٢ ص 609، دلائل النبوۃ ج ٢ ص 130) 

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ اسماعیل حقی متوفی 1137 ھ نے حسب ذیل عبارت لکھی اور اس کا ترجمہ شیخ فیض احمد اویسی نے کیا ہے :

اس میں اشارہ ہے کہ ضلالت کا منشا خود اپنا نفس ہے، جب نفس کو اس کی طبیعت کی طرف سپرد کیا جائے تو اس سے صرف ضلالت و گم راہی ضلالت و گم راہی حاصل ہوتی ہے اور ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کے عطیات سے ہے اور نفس کو اللہ تعالیٰ کے عطیات سے کوئی عطیہ نصیب نہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ووجدک ضالا فھدی (فیوض الرحمٰن جز ٢٢ ص ٤٢٣، مکتبہ رضویہ بہاولپور) صاحب روح البیان اور روح البیان کے مترجم دونوں نے آیت (ووجدک ضالا فھدی) کا یہاں ذکر کردیا جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے نفس کو اپنی طبیعت کی طرف متوجہ کیا اس وجہ سے آپ میں گم راہی اور ضلالت حاصل ہوگئی، ہم ایسی نکتہ آفرینی سے ہزار بار اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 50