أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ جَآءَ الۡحَـقُّ وَمَا يُبۡدِئُ الۡبَاطِلُ وَمَا يُعِيۡدُ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے حق آگیا ہے اور باطل نہ کسی چیز کو پیدا کرتا ہے اور نہ کسی چیز کو لوٹاتا ہے

تفسیر:

حق اور باطل کا فرق 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے کہ حق آگیا ہے اور باطل نہ کسی چیز کو پیدا کرتا ہے اور نہ کسی چیز کو لوٹا تا ہے۔ آپ کہیے اگر میں (بالفرض) گم راہ ہوں تو میری گمراہی کا ضرر صرف مجھ پر ہی ہوگا، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا رب میری طرف وحی فرماتا ہے، بیشک وہ بہت سننے والا بہت قریب ہے۔ اور کاش آپ وہ وقت دیکھتے جب یہ (کفار) گھبرا رہے ہوں گے، اور ان کے لئے کوئی جائے فرار نہیں ہوگی اور ان کو قریب کی جگہ سے پکڑ لیا جائے گا۔ (سبا : ٥١۔ ٤٩ )

اللہ تعالیٰ نے فرمایا حق آگیا ہے اس کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد توحید اور حشر پر دلائل ہیں اور تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلائل ہیں اور چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ کلام جو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے صادر ہوا وہ حق ہے۔ 

حق اس چیز کو کہتے ہیں جو موجود اور ثابت ہو اور جن چیزوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا ہے وہ موجود اور ثابت ہیں مثلاً توحید، رسالت، قرآن مجید اور حشر وغیرہ اس لئے یہ تمام چیزیں حق ہیں، اور شرک اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تکذیب یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا وجود ثابت نہیں ہے اس لئے یہ چیزیں باطل ہیں اور باطل کسی چیز کا فائدہ نہیں پہنچاتا، دنیا میں نہ آخرت میں، اس لئے فرمایا آپ کہیے حق آگیا ہے اور باطل نہ کسی چیز کو پیدا کرتا ہے اور نہ کسی چیز کو لوٹاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی آپ اس کو ان میں چبھو کر فرماتے : جاء الحق وزھق الباطل (الاسرائ : ٨١) حق آگیا اور باطل چلا گیا۔ (صحیح البخاری : ٢٤٧٨، صحیح مسلم : ١٧٨١، سنن ترمذی : ٣١٣٨)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 49