وَمَاۤ اَمۡوَالُـكُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُكُمۡ بِالَّتِىۡ تُقَرِّبُكُمۡ عِنۡدَنَا زُلۡفٰٓى اِلَّا مَنۡ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَاُولٰٓئِكَ لَهُمۡ جَزَآءُ الضِّعۡفِ بِمَا عَمِلُوۡا وَهُمۡ فِى الۡغُرُفٰتِ اٰمِنُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 37
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَاۤ اَمۡوَالُـكُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُكُمۡ بِالَّتِىۡ تُقَرِّبُكُمۡ عِنۡدَنَا زُلۡفٰٓى اِلَّا مَنۡ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَاُولٰٓئِكَ لَهُمۡ جَزَآءُ الضِّعۡفِ بِمَا عَمِلُوۡا وَهُمۡ فِى الۡغُرُفٰتِ اٰمِنُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جو تم کو ہمارا مقرب بنادیں ہاں جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے تو ان کو ان کے نیک اعمال کی وجہ سے دگنا اجر ملے گا اور وہ (جنت کے) بالا خانوں میں امن سے رہیں گے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جو تم کو ہمارا مقرب باندیں، ہاں جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمل کئے تو ان کو ان کے نیک اعمال کی وجہ سے دگنا اجر ملے گا اور وہ (جنت کے) بالا خانوں میں امن سے رہیں گے۔ اور جو لوگ ہماری آیتوں کے مقابلہ کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان کو کڑ کر عذاب میں حاضر کیا جائے گا۔ آپ کہیے بیشک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے اور تم جو کچھ بھی (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو گے، تو وہ اس کا بدل مہیا کردے گا، اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ (سبا : ٣٩۔ ٣٧)
مال اور اولاد کی محض کثرت باعث فخر اور پسندیدہ نہیں
کفار مکہ نے اپنے مال اور اپنی اولاد پر فخر کیا اور یہ سمجھا کہ مال اور اولاد کی کثرت ان کو اللہ تعالیٰ کا مقرب بنادے گی، حالانکہ محض مال اور اولاد کی کثرت اللہ تعالیٰ کے تقرب کا سبب نہیں ہے قرآن مجید میں ہے :
(المومنون : ٥٥۔ ٥٦) کیا وہ یہ گمان کررہے ہیں کہ ہم ان کے مال اور اولاد کو جو بڑھا رہے ہیں، تو اس سے ان کی بھلائیوں میں جلدی کررہے ہیں ؟ (نہیں) بلکہ یہ سمجھتے نہیں ہیں۔
(التوبہ : ٥٥) سو ان کے اموال اور ان کی اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں اللہ ہی چاہتا ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے اور حالف کفر میں ہی ان کی جانیں نکل جائیں۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ عزو جل تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے نہ تمہارے اموال کی طرف لیکن وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٦٤، سنن ابنماجہ رقم الحدیث : ٤١٤٣، مسجد احمد ج ٢ ص ٥٣٩، مسجد احمد رقم الحدیث : ١٠٩٠٢، دارالحدیث قاہرہ، ١٤١٦ ھ)
امام ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں کہ قتادہ نے کہا مال اور اولاد کی زیادتی کو لوگوں کی خری کا پیمانہ نہ بنائو، کیونکہ بعض اوقات کافر کو مال دیا جاتا ہے اور مومن کو مال سے محروم رکھا جاتا ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حتم رقم الحدیث : ١٧٨٩٨)
طائوس یہ کہتے تھے کہ اے اللہ ! مجھے ایمان اور اعمال صالحہ عطا فرما اور مجھے مال اور اولاد سے محفوظ رکھ کیونکہ تو نے فرمایا ہے : اور تمہارے اموال اور تمہاری اولا ایسی چیزیں نہیں ہیں جو تم کو مقرب بنادیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٧٨٩٩)
طائوس کے اس قول پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ مطلقاً مال اور اولاد ناپسندیدہ نہیں ہیں جس مال کو اللہ کی راہ میں اور عبادات میں خرچ کیا جائے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق قابل رشک ہے اور جو اولاد نیک ہو وہ ماں باپ کی مغفرت کا ذریعہ ہوجاتی ہے ہاں جس مال کو اللہ کی معصیت میں خرچ کیا جائے وہمال وبال ہے اور جو اولاد اللہ کی نافرمان ہو اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 37