وَّقَالُـوۡۤا اٰمَنَّا بِهٖ ۚ وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنۡ مَّكَانٍۢ بَعِيۡدٍ ۖۚ ۞- سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 52
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَّقَالُـوۡۤا اٰمَنَّا بِهٖ ۚ وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنۡ مَّكَانٍۢ بَعِيۡدٍ ۖۚ ۞
ترجمہ:
اور وہ (اس وقت) کہیں گے ہم اس (قرآن) پر ایمان لے آئے اور اتنی دور کی جگہ سے کیسے حصول ہوسکتا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ (اس وقت) کہیں گے ہم (قرآن) پر ایمان لے آئے اور اتنی دور کی جگہ سے کیسے حصول ہوسکتا ہے۔ وہ اس سے پہلے اس کا کفر کرچکے تھے اور بہت دور سے اٹکل پچو کی باتیں کرتے تھے۔ اور ان کے اور ان کی خواہشوں کے درمیان ایک حجاب ال دیا گیا ہے، جیسے پہلے بھی ان جیسے لوگوں کے ساتھ کیا گیا تھا، بیشک وہ بھی بہت بڑے شک میں مبتلا تھے۔ (سبا : ٥٤-٥٢)
تناوش کا معنی
اس آیت میں التناوش کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے کسی چیز کو سہولت اور آسانی سے حاصل کرنا، حضرت ابن عباس اور ضحاک نے کہا اس سے مراد ہے دنیا میں واپس لوٹنا، یعنی کفار جب حشر کے دن آخرت کا عذاب دیکھیں گے تو پھر دنیا میں واپس لوٹائے جانے کو طلب کریں گے کہ اس بار وہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں گے اور یہ بہت بعید ہے۔
سدی نے کہا وہ آخرت کا عذاب دیکھ کر اپنے کفر و شرک سے توبہ کریں گے اور اس توبہ کا قبول ہونا بہت بعید ہوگا، کیونکہ توبہ تو صرف دنیا میں قبول ہوتی ہے۔
علامہ قرطبی نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ کفار یہ کہیں گے کہ اب ہم اس قرآن پر ایمان لے آئے اور قیامت کے بعد حشر کے دن کسی کا ایمان کیسے قبول ہوسکتا ہے، کیونکہ ایمان وہ معتبر ہوتا ہے کہ کسی چیز پر بن دیکھے ایمان لایا جائے جو ایمان بالغیب ہو۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ٢٨٤ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 52