خَطِّ تَواَم‌

لکھنے کے انداز کو ” خَطّ ” کہتے ہیں ۔

خَطّ کی مختلف قسمیں ہیں ، جن میں ایک قسم ” خَطِّ تَوْاَمْ ” بھی ہے ۔

خط توام میں جو لکھائی کی جاتی‌ ہے اُس کے لیے ایک نہیں ، دو ورقے استعمال ہوتے ہیں ، جن پر الفاظ کا ایک ایک حصہ لکھاجاتا ہے ، اور تحریر کے ارد گرد نَقش و نِگار بنا دیےجاتے ہیں ۔

دیکھنے والا پہلی نظر میں دیکھ کر انھیں نقش و نگار ہی سمجھتا ہے ، لیکن جب دونوں ورقے ملا کر غور کرتاہے تو پھر اُس پر عُقدہ کھلتا ہے کہ یہ تو خط توام میں ترتیب دی گئی تحریر ہے ۔

حدیث پاک میں ہے :

امام حَسن رضی اللہ عنہ سر سے لے کر سینے تک رسول اللہﷺ سے مشابہت رکھتے تھے ، اور امام حسین رضی اللہ عنہ سینے سے نچلے حصے میں رسول اللہ کے مُشابِہ تھے ۔

( ترمذی شریف ، ر 3779 )

امام عشق و محبت ، سیدی اعلیٰ حضرت کہتے ہیں ؎

صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے ملنے سے عِیاں

خَطِّ تَواَم میں لکھا ہے یہ دو وَرقہ نُور کا

خط توام کی تعریف آپ کو اچھی طرح ذہن نشین ہوگئی ، آپ نے حدیث پاک بھی پڑھ لی ، اور شعر بھی ملاحظہ کرلیا ۔

اب شعر سمجھیے!

حسن و حسین پاک کو ہر ایک نے اپنی اپنی نظر سے دیکھا ، اور اپنے اپنے لہجے میں بیان کیا ۔

لیکن جب میں نے دیکھا تو اش اش کر اٹھا کہ:

” یہ تو نور کے دو ورقے ہیں ، جن پر ” خط توام ” میں شکل مصطفیٰ بنائی گئی ہے ۔ “

اس شکل پاک کو سمجھنےکے لیے دونوں ورقے ملانا ضروری تھا ، جس کا شعور اللہ کریم ﷻ نے صرف اہل سنت کو بخشا ۔

اسی شعور سے اہل سنت نے جب نور کے دونوں ورقوں ( حسن و حسین پاک ) کو ، عقیدے کے پاکیزہ ہاتھوں سے ملایا ، تو انھیں رُخِ پاک ﷺ کا نظارا ہو گیا ؛ پھر انھوں نے کبھی بھی ان ورقوں کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا ؎

صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے ملنے سے عِیاں

خَطِّ تَواَم میں لکھا ہے یہ دو وَرقہ نُور کا

✍️لقمان شاہد

27-8-2020 ء