سنت نبویؐ کو بدلنے والا یزید
سنت نبویؐ کو بدلنے والا یزید
(تحقیق رانا اسد فرحان الطحاوی)
امام ابن ابی عاصم اپنی سند سے روایت بیان کرتے ہیں :
63 – حدثنا عبيد الله بن معاذ، ثنا أبي، ثنا عوف، عن المهاجر بن مخلد، عن أبي العالية، عن أبي ذر، أنه قال ليزيد بن أبي سفيان: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أول من يغير سنتي رجل من بني أمية»
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو میری امت میں سنت کو بدلے کا وہ بنی امیہ کا شخص ہوگا
(الأوائل لابن أبي عاصم)
اس روایت کے سارے رجال ثقہ و صدوق ہیں راویان کا تعارف آگے آرہا ہے
اس روایت کو تفصیلی امام عبدالوھاب نے عوف سے المھاجر کےطریق سے بیان کیا ہے جسکو امام ابن عساکر نے نقل کیا ہے اپنی سند سے
أخبرنا أبو سھل محمد بن إبراہیم : أنا أبو الفضل الرازي : أنا جعفر بن عبد اللّٰہ : نا محمد بن ھارون : نا محمد بن بشار: نا عبد الوہاب : نا عوف: ثنا مھاجر أبو مخلد : حدثني أبو العالیۃ : حدثني أبو مسلم قال : غزا یزید ابن أبي سفیان بالناس فغنموا فوقعت جاریة نفیسة في سھم رجل ، فاغتصبھا یزید، فأتی الرجل أبا ذر فاستعان بہ علیہ فقال لہ : ردّ علی الرجل جاریة ، فتلکأ علیہ ثلاثًا، فقال: إني فعلت ذاک لقد سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول : أوّل من یبدّل سنتي رجل من بني أمیة ، یقال لہ یزید. فقال لہ یزید بن أبي سفیان: نشدتک باللّٰہ أنا منھم ؟ قال: لا. قال : فردّ علی الرجل جاریتہ
سند صحیح بحکم البانی وہابی و
زبیر زئی وہابی
(تاريخ دمشق جلد ۶۵ ص ۲۵۰)
ابو نے فرمایا: یزید بن ابی سفیان نے لوگوں کے ساتھ مل کر جہاد کیا پھر انھیں مال غنیمت حاصل ہوا تو ایک آدمی کے حصے میں ایک بہترین قیمتی لونڈی آئی۔ پھر اس لونڈی کو یزید بن ابی سفیان نے اپنے قبضے میں لے لیا تو وہ آدمی ابوذر ؓ کے پاس آیا اور اُن کے خلاف تعاون کرنے کی درخواست کی۔ پھر انھوں نے اُن(یزید)سے فرمایا: اس آدمی کو اُس کی لونڈی واپس دے دو۔ تو انھوں نے تین دفعہ عذر پیش کیا پھر ( ابو ذرؓ نے) فرمایا: میں نے یہ اس لئے کیا ہے، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری سنت کو سب سے پہلے بنو اُمیہ کا ایک آدمی تبدیل کرےگاجسےیزیدکہاجائےگا۔ یزید نے اُن (سیدنا ابو ذرؓ) سے پوچھا : اللہ کی قسم ! کیا میں وہ آدمی ہوں؟ انھوں نے فرمایا: نہیں۔
پھر اس(یزید) نےانکو لونڈی کو واپس کر دیا۔
سند کی تحقیق سند کا پہلا راوی أَبُو سَهْلٍ، مُحَمَّدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ بنِ مُحَمَّدِ بنِ سَعْدُويه
امام أبوسعدالسمعاني المروزي (المتوفى: 562هـ)
انکے بارے میں فرماتے ہیں : 657 – أبو سهل الأصبهاني
أبو سهل محمد بن إبراهيم بن محمد بن أحمد بن إبراهيم بن علي بن سعدويه الأصبهاني الأمين، والد شيخنا أبي الفضل عبيد الله، وأبي الفتوح عبد المنعم من أهل أصبهان.
شيخ أمين، دين صالح، ثقة، صدوق، حسن السيرة، كثير السماع. سمع أبا الفضل عبد الرحمن بن أحمد بن الحسن الرازي المقرئ بلخ۔۔،
ابو سہل شیخ امین ، دین دار عبادتگزار ، ثقہ ، سچے اور اچھی سیرت رکھنے والے ہیں اور کثیر سماع کرنے والے ہیں انہوں نے ابو الفضل الرازی سے سنا ہے بلخ۔۔۔
(: التحبير في المعجم الكبير برقم ۶۵۷)
حافظ ذھبیؒ نے انکے مطلق سیر اعلام میں لکھا : ابن سَعْدُويه:
الثِّقَةُ العَالِمُ، أَبُو سَهْلٍ، مُحَمَّدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ بنِ مُحَمَّدِ بنِ سَعْدُويه، الأَصْبَهَانِيُّ, الأَمِيْنُ.
صَالِحٌ خَيِّرٌ صَدُوْقٌ مُكْثِرٌ. (برقم ۴۸۲۱)
سند کے دوسرے راوی کا نام عبد الرحمن بن أحمد بن الحسن بن بندار الرازي أبو الفضل العجلي، المقرئ ہے
امام ذھبیؒ انکے بارے فرماتے ہیں : عبد الرحمن بن أحمد بن الحسن بن بندار الرازي أبو الفضل العجلي، المقرئ أحد الأعلام وشيخ الإسلام.
ورد أن مولده بمكة ذكره أبو سعد بن السمعاني، فقال: كان مقرئا فاضلا كثير التصانيف، حسن السيرة، زاهدا
پھر آگے لکھتے ہیں : وقال يحيى بن منده في تاريخه: قرأ عليه جماعة، وخرج من أصبهان1 إلى كرمان2، وحدث بها، وبها مات، وهو ثقة ورع متدين، عارف بالقراءات والروايات، عالم بالأدب والنحو ،مزید لکھا وكان من الأئمة الثقات (برقم۴۳ معرفة القراء الكبار على الطبقات والأعصار)
روایت کے تیسرے راوی جعفر بن عبد اللَّه بن يعقوب الفنّاكي ، أَبُو القاسم الرازيّ.
امام ذھبیؒ انکے بارے تاریخ الاسلام میں فرماتے ہیں : جعفر بن عبد اللَّه بن يعقوب الفنّاكي ، أَبُو القاسم الرازيّ.
روى عنه: محمد بن هارون الرُّويَاني مُسْنَدَه، وسمع عبد الرحمن بن أبي خلف حاتم، وجماعة.
قال أَبُو يَعْلَى الخليلي: موصوف بالعدالة وحُسْن الديانة، وهو آخر من روى عن الرُّوياني، ثم ذكر وفاته في هذه السنة.
روى عنه: أَبُو القاسم هبة اللَّه اللالكائي، وَأَبُو الْفَضْلِ عَبْد الرَّحْمَن بْن أحْمَد الرازي المقرئ.
أخبرنا إسماعيل بن الفَرَّا، أنا عبد اللَّه بن أحمد الفقيه سنة ستّ عَشْرَةَ وَسِتِّمِائَةٍ، أَنَا محمد بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي، أنا أحْمَد بن علي الطُّرَيْثيثي، أنا هبة اللَّه بن الحسن الحافظ، ثنا جعفر بْن عَبْد اللَّه بْن جعفر بْن عَبْد اللَّه بن يعقوب، ثنا محمد بن هارون الرّوياني، ثنا أَبُو كريب، ثنا يحيى، عن أبي بكر، عن الْأعمش، عن خَيْثَمة قال: مُرَّ على خالد بن الوليد بزِقّ خمر، فقال: أي شيء هذا؟ فقالوا: خلّ. فقال: جعله اللَّه خلا، فنظروا فإذا هو خلّ، وقد كان خمرًا. وهذا إسناد صحيح.
(تاریخ الاسلام برقم ج۲۷ ، ص ۶۱، برقم ترجمہ ۸۴)
امام خلیلی نے بھی انکے مذہب و عدالت پر حسن رائے دی اور امام ذھبی نے ان سے مروی ایک روایت کی سند کو صحیح قرار دیا۔ تو یہ ضمنی توثیق ثابت ہوتی ہے ۔
نیز یہ مسند الرویانی کے بنیادی راوی ہیں کیونکہ امام جعفر بن عبداللہ الفناکی ہی وہ بنیادی شاگرد ہیں امام ابو بکر الرویانی کے جو مسند الرویانی بیان کرتے ہیں
نیز امام المقدسی نے بھی مشہور تصنیف المختارہ میں درجنیوں روایات تخریج کی ہیں جعفر بن عبداللہ الفناکی سے
کچھ بطور نمونہ درج ذیل ہیں
735 – أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي نَصْرِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُؤَذِّنُ بِقِرَاءَتِي عَلَيْهِ بِأَصْبَهَانَ قُلْتُ لَهُ أَخْبَرَتْكُمْ أُمُّ الْبَهَاءِ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي سَعِيدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ الْبَغْدَادِيِّ قِرَاءَةً عَلَيْهِا قِيلَ لَهَا أخْبركُم أَبُو الْفضل عبد الرَّحْمَن بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ الرَّازِيُّ الْمُقْرِئُ قِرَاءَةً عَلَيْهِ أَنا أَبُو الْقَاسِم جَعْفَر بن عبد الله بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ فنَاكِي الرُّويَانِيُّ ثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الرُّويَانِيُّ بلخ ۔۔۔۔
وحکم محقق عبد الملك بن عبد الله بن دهيش (اسناد حسن)
1154 – وَأخْبرنَا أَبُو زرْعَة عبيد الله بْنُ مُحَمَّدٍ اللَّفْتُوَانِيُّ بِأَصْبَهَانَ أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عبد الْملك الْخلال أخْبرهُم قِرَاءَة عَلَيْهِ أَنا عبد الرَّحْمَن بن أَحْمد الرَّازِيّ أَنا جَعْفَر بن عبد الله بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ فَنَّاكِيٍّ الرَّازِيُّ أَنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الرُّويَانِيُّ بلخ
وحکم محقق عبد الملك بن عبد الله بن دهيش (اسناد حسن)
1182 – وَأخْبرنَا أَبُو زرْعَة عبيد الله بْنُ مُحَمَّدٍ اللَّفْتُوَانِيُّ بِأَصْبَهَانَ أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ الْخَلالَ أَخْبَرَهُمْ قِرَاءَةً عَلَيْهِ أَنا عبد الرَّحْمَن بن أَحْمد الرَّازِيّ أَنا جَعْفَر بن عبد الله بْنِ يَعْقُوبَ أَنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الرُّويَانِيُّ بلخ
وحکم محقق عبد الملك بن عبد الله بن دهيش (اسناد حسن)
اسکے علاوہ درجنوں اور روایات موجود ہیں
(الأحاديث المختارة أو المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما ،
المؤلف: ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ)
اسکے علاوہ امام اسماعیل الاصبھانی (المتوفى: 535هـ)
اپنی تصنیف : الحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة
میں امام جعفر بن عبداللہ الفناکی سے روایات نقل کر کے اسناد کی تصحیح کی ہے متعدد جگہوں پر
جیسا کہ ایک جگہ فرماتے ہیں :
124 – قَالَ: وَأَخْبَرَنَا هِبَةُ اللَّهِ أَنا جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ، أَنا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الرُّويَانِيُّ، بلخ۔۔۔۔
هَذَا إِسْنَاد صَحِيح عَلَى شَرط مُسلم يلْزمه إِخْرَاجه.
(الحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة)
تو یہ راوی صدوق درجے کا ہے
سند کے چوتھے راوی کا نام ابو بکر محمد بن ہارون ہے
جو صاحب مسند الرویانی ہیں اور جید ثقہ امام ہیں انہی سے انکے شاگرد امام جعفر بن عبداللہ الفناکی مسند الرویانی روایت کرتے ہیں جنکا تعارف اور توثیق اوپر بیان کر آئے ہیں
امام ابن عبد الغنی البغدادی الحنبلی (المتوفیٰ 629ھ) لکھتےہیں
: مُحَمَّد بن هَارُون الرَّوْيَانِيّ أَبُو بكر صَاحب الْمسند طَاف الْبِلَاد وَسمع بِالْبَصْرَةِ من بنْدَار وَعَمْرو بن عَليّ وَغَيرهمَا وبالكوفة من أبي كريب وطبقته وبمصر من الرّبيع ابْن سُلَيْمَان وَابْن اخي ابْن وهب وَابْن عبد الحكم وببغداد من مُحَمَّد بن إِسْحَاق الصغاني روى عَنهُ جَعْفَر بن عبد الله بن يَعْقُوب بن فناكي توفّي سنة سبع وثلاثمائة ثِقَة إِمَام
(إكمال الإكمال (تكملة لكتاب الإكمال لابن ماكولا برقم ترجمہ 2653)
امام خلیلی فرماتے ہیں
: مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الرُّويَانِيُّ ثِقَةٌ، وَلَهُ مُسْنَدٌ سَمِعَ بِالْعِرَاقِ بُنْدَارًا بلخ۔۔ ّ
(الإرشاد في معرفة علماء الحديث ج ۲ ص ۸۰۱)
سند کے پانچھوے راوی کا نام ابو بکر محمد بن بشار بن عثمان العبدی
یہ بخاری و مسلم کے بنیادی راوی ہے انکی توثیق پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں یہ متفقہ ثقہ روی ہیں ۔
سند کے چھٹے راوی :
اور چھٹے راوی ابو محمد عبد الوہاب بن عبد المجید بن الصلت
یہ بھی بخاری و مسلم کی بنیادی راویوں میں سے ایک ہیں اور مفقہ ثقہ راوی ہیں
امام ذھبی فرماتے ہیں :
67 – عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي ** (ع)
هو الإمام الأنبل، الحافظ، الحجة، أبو محمد عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت بن عبد الله ابن صاحب النبي -صلى الله عليه وسلم- الحكم بن أبي العاص الثقفي، البصري.
یہ امام حافظ اور حجت ہیں
یہ اعتراض اگر کوئی کرے کہ امام ابن معین و امام ابی داود نے فرمایا کہ انکو اختلاط ہو گیا تھا
تو اسکا جواب یہ ہے کہ :
امام ذھبی انکے اختلاط کے بارے ذکر کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں :
وقال أبو داود: تغير.
وقال العقيلي: تغير في آخر عمره.
امام ابی داود نے فرمایا کہ انکو تغیر ہو گیا تھا
اور امام عقیلی کہتے ہیں کہ کہ انکی عمر کے آخری حصے میں انکو تغیر ہو گیا تھا
ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی فرماتے ہیں :
قلت: لكن ما ضره تغيره، فإنه لم يحدث زمن التغير بشيء.
میں (الذھبی) کہتا ہوں کہ لیکن انکا تغیر (انکی حدیث ) کے مضر نہیں کیونکہ انہوں نے اختلاط کی حالت میں انہوں نے کچھ بھی بیان نہیں کیا
(سیر اعلام النبلاء)
ساتویں راوی:
عوف بن ابى جميلة الاعرابي
یہ بھی متفقہ علیہ ثقہ اور صحیحین کے راویان میں سے ہیں
ان پر قدری کی ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے اور رافضیت کی تہمت بھی لگائی گئی ہے
لیکن یہ اعتراض امام بندار نے ان پر جڑا تھا جسکو کسی نے بھی قبول نہیں کیا بلکہ متقدمین سے متاخرین تک تمام محدثین نے فقط یہی کہا ہے کہ انکو تشیع کی طرف موصوف کیا گیا ہے یعنی رمی بلتشیع جیسا کہ
امام الاعمش ،
امام حاکم
وغیرہم تھے
امام ذھبی سیر اعلام میں میں بندار کا قول نقل کرتے ہوئے اسکا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وقال بندار: كان قدريا، رافضيا.
قلت: لكنه ثقة، مكثر.
النسائي: ثقة، ثبت.
بندار نے کہا وہ قدری اور افضی تھا
امام ذھبی فرماتے ہیں میں کہتا ہوں لیکن وہ مکثر ثقہ تھا جیسا کہ امام نسائی فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ و ثبت تھا
اور امام ذھبی خود فرماتے ہیں :
قلت: كان يدعى عوفا الصدوق.
وثقه: غير واحد، وفيه تشيع.
میں (الذھبی) کہتا ہوں کہ انکو عوفا سچا کہا جا تا تھا
انکو ہر ایک نے ثقہ قرار دیا ہے ان میں تشیع تھی
(سیر اعلام النبلاء)
اور متقدمین میں تشیع کے بارے امام ذھبی منہج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أن يقول: كيف ساغ توثيق مبتدع وحد الثقة العدالة والإتقان؟ فكيف يكون عدلا من هو صاحب بدعة؟ وجوابه أن البدعة على ضربين: فبدعة صغرى كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق.
فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة. ثم بدعة كبرى، كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة.
وأيضا فما أستحضر الآن في هذا الضرب رجلا صادقا ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والتقية والنفاق دثارهم، فكيف يقبل نقل من هذا حاله! حاشا وكلا.
امام ذھبی لکھتے ہیں :
کہا گیا کہ بدعتی کی توثیق ہی کیوں جائز ہوئی؟
حالانکہ توثیق کی تعریف میں عدالت اور اتقان آتے ہیں ، تو کوئی بدعتی کیسے عادل ہو سکتا ہے ؟
اس اعتراض کو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی اسکا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
بدعت کی دو قسمیں ہوتی ہیں :
بدعت صغریٰ :
جیسے غالی شیعہ ہونا ، یا ؓغیر غلو اور تحریف کے شیعہ ہونا ،
یہ قسم بہت سے تابعین اور تابع تابعین میں تھی باوجود یہ کہ وہ دیندار ، متقی صادق تھے ، لہذا اگر ایسوں کی حدیث بھی رد کردی جائے تو ذخیرہ احادیث سے ایک بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا اور یہ بڑا فساد ہے ،
دوسری قسم: بدعت کبریٰ
جیسا کہ پورا رافضی ہونا ، اور رفض میں غالی ہونا ۔
حضرات شیخین کی شا ن میں گستاخی کرنا اور اس پر دوسروں کو ابھارنا ۔ اس قسم والے کی روایت قابل احتجاج نہیں اور نہ ہی اسکی کوئی عزت و تکریم ہے ۔ اس قسم میں اب مجھے کوئی یاد نہیں جو صادق اور مامون ہو ، کیونکہ ان کا شعار جھوٹ بولنا، تقیہ کرنا ، اور معاملات میں نفاق کا مظاہرہ کرنا ہے ۔
لہذا جس کا حال ایسا ہو اس کی روایت بھلا کیسے قبول کی جائی گی ؟
ہرگرقبول نہیں کی جائے گی
(میزان الاعتدال ص ۵)
اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں اس راوی کے متعلق فرماتے ہیں :
5215- عوف ابن أبي جميلة بفتح الجيم الأعرابي العبدي البصري ثقة رمي بالقدر وبالتشيع من السادسة مات سنة ست أو سبع وأربعين وله ست وثمانون ع
عوف بن ابی جمیلہ یہ بصری ہیں ثقہ ہیں انکو قدری اور تشیع کی طرف منسوب کیا گیا ہے
(تقریب التہذیب)
اور امام ابن حجر عسقلانی تشیع کے بارے محدثین ومتقدمین کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليهآله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة
عرف متقدمین میں تشیع سے مراد شیخن کو دگر صحابہ پر فضیلت دینے کے ساتھ سید نا علی کی عثمان غنی پر فضیلت ماننے کو کہا جاتا تھا ، اگرچہ حضرت علی اپنی جنگوں میں مصیب اور انکا مخالف خطاء(اجتیہادی) پر تھا ، بعض کا یہ نظریہ بھی ہے کہ حضرت علی رسولﷺ کے بعد سب سے مخلوق سے افضل ہیں ،
اگر ااس طرح کا اعتقاد رکھنے والا متقی ، دیندار اور سچا ہو تو محض اس وجہ سے اس کی روایت ترک نہیں کیا جا سکتی ہے ، جب تک کوہ اپنے اس اعتقاد کا داعی نہ ہو ،
جبکہ عرف متاخرین میں تشیع سے مراد محض رفض ہے
لہذا غالی رافضی کی روایت مقبول نہیں نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کی کرامت ہے
(تہذیب التہذیب ص 94)
آٹھواں راوی : المھاجر بن مخلد ابو مخلد ہے
متشدد ناقد امام ابن حبان انکو الثقات میں درج کرتے ہیں
11085 – مهاجر بن مخلد أبو مخلد مولى البكرات من أهل البصرة يروي عن أبي العالية وعبد الرحمن بن أبي بكرة روى عنه البصريون وهو الذي يقول عوف عن مهاجر أبي خالد إنما هو مهاجر بن مخلد
(الثقات ابن حبان)
اور اپنی صحیح میں بھی ان سے احتجاج کیا ہے ابن حبان نے
(اور اسکی توثیق میں ابن حبان منفرد نہیں ہیں )
امام ترمذی نے المھاجر کی منفرد روایت کی تحسین کی ہے (اور تحسین میں منفرد نہیں )
(برقم روایت : 3769 ، السنن الترمذی)
امام بغوی نےشرح السنہ میں انکی منفرد روایت کی تصحیح کی ہے
237 – أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْكِسَائِيُّ، أَنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَحْمَدَ الْخَلالُ، نَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ.
ح وَأَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّالِحِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْعَارِفُ، قَالا: أَنا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْحِيرِيُّ، نَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ، أَنا الرَّبِيعُ، أَنا الشَّافِعِيُّ، أَنا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنِي الْمُهَاجِرُ أَبُو مَخْلَدٍبلخ۔۔۔۔
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ الرَّبِيعُ إِلَى قَوْلِهِ: «وَلِلْمُقِيمِ يَوْمًا وَلَيْلَةً» .
(: شرح السنة ، امام بغوی (المتوفیٰ 516ھ)
امام ابن خذیمہ نے اپنی صحیح میں انکی روایت کی تخریج کی ہے
192 – نا بُنْدَارٌ، وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ قَالُوا: نا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، نا الْمُهَاجِرُ وَهُوَ ابْنُ مَخْلَدٍ أَبُو مَخْلَدٍ، بلخ۔۔۔
اور انہوں نے کتاب کے شروع میں تصریح کی ہے :
مُخْتَصَرُ الْمُخْتَصَرِ مِنَ الْمُسْنَدِ الصَّحِيحِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَقْلِ الْعَدْلِ،
(صحیح ابن خزیمہ )
امام بزار اس راوی کی روایت سے مروی سند کی تحسین کرتے ہیں
3621 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، قَالَ: نَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: نَا الْمُهَاجِرُ أَبُو مَخْلَدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّهُ رَخَّصَ لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ وَلِلْمُقِيمِ يَوْمًا وَلَيْلَةً إِذَا تَطَهَّرَ فَلَبِسَ خُفَّيْهِ» وَكَانَ أَبُو بَكْرَةَ إِذَا أَحْدَثَ تَوَضَّأَ فَخَلَعَ خُفَّيْهِ
وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنْ أَبِي بَكْرَةَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ
امام بزار کہتے ہیں میرے علم مین نہیں اس حدیث کو ابی بکرہ سے کسی نے بیان کیا ہو سوائے اس طریق کے اور یہ سند حسن ہے
(مسند البزار 3621)
امام ابن عبدالبر امام الساجی سے ابو مخلد کی توثیق نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قال أبو يحيى الساجي مهاجر أبو مخلد هذا صدوق ومعروف وليس قول من قال فيه مجهول بشيء
ابو یحییٰ الساجی مھاجر او مخلد کے بار کہتے ہیں یہ صدوق اور معروف ہے اور کسی کا بھی ایسا قول نہیں جس نے اسکو مجھول قرار دیا ہو
(المتھید ، ابن عبدالبر ، ص جدل 11، ص 155)
امام ابن حجر تہذیب میں انکا مکمل ترجمہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
563 – “ت س ق – مهاجر” بن مخلد أبو مخلد ويقال أبو خالد مولى البكرات2 روى عن عبد الرحمن بن أبي بكرة وأبي العالية الرياحي وعنه عوف الأعرابي ووهيب وخالد الحذاء وحماد بن زيد وأخوه سعيد بن زيد
وعبد الوهاب الثقفي قال محمد بن المثنى عن أبي هشام كان وهيب يعيبه ويقول لا يحفظ
وقال بن معين صالح
وقال أبو حاتم لين الحديث ليس بذلك وليس بالمتقن يكتب حديثه
وذكره بن حبان في الثقات
قلت وقال الساجي هو صدوق معروف وليس من قال فيه مجهول بشيء
وقال الدوري عن بن معين عوف يروي عن أبي خالد وهو أبو مخلد الذي يروي عنه حماد بن زيد وعبد الوهاب الثقفي.
امام ساجی کہتے ہیں کہ ابن وھب اس پر عیب لگاتے کہ اسکا حافظہ نہیں
امام ابن معین کہتے ہیں کہ یہ صالح ہے
ابن حبان نے الثقات میں انکو درج کیا ہے
میں کہتا ہوں
ساجی نے اسکو صدوق قرار دیا ہے اور یہ کہا کہ کسی نے بھی اس کے مجھول ہونے کا نہین کہا
ابو حاتم (متشدد) کہتے ہین کہ یہ متقن نہیں ہے قوی نہیں ہے حدیث میں کمزور ہے اور اسکی روایت لکھی جائے
بس یہ ہلکی پھکلی جرح ملتی ہے اتنے سارے امامون کی تعدیل کے مقابل اور ابو حاتم کی تشدید سے کون واقف نہیں
راوی اتفاق محدثین کے مطابق صدوق درجے کا ہے
جیسا کہ غیر مقلدین کے محقق البانی صاحب لکھتے ہیں :
المهاجر وهو ابن مخلد
أبو مخلد، قال ابن معين: ” صالح “. وذكره ابن حبان في ” الثقات “. وقال
الساجي: ” صدوق “. وقال أبو حاتم: ” لين الحديث ليس بذاك وليس بالمتقن،
يكتب حديثه “.
قلت: فمثله لا ينزل حديثه عن مرتبة الحسن
البانی صاحب ابی حاتم کی جرح کے مقابل ابن حبان و ساجی کی توثیق بیان کرکے کہتے ہیں میں کہتا ہوں اسکی روایت حسن درجے سے نیچے نہیں گرتی
(سلسلہ الصیحیہ )
نوٹ: اس روایت پر سند کے اعتبار سے جسکو اعتراض ہو وہ کر سکتا ہے متن پر اعتراض پر اعتراض کا جواب بعد والی پوسٹ میں ہوگا
(دعاگو: رانا اسد فرحان الطحاوی الحنفی )