محقق عصر علیہ الرحمہ کی یادیں اور باتیں
ماہنامہ سوئے حجاز کی ستمبر 2020 کی اشاعت کا اداریہ ۔
محقق عصر علیہ الرحمہ کی یادیں اور باتیں
کورونا ایک بین الاقوامی وبا کی صورت میں نمو دار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر سے کئی جانوں کو نگھل گیا ۔ لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوئے اور ایک خاصی تعداد شفا یاب بھی ہوئی ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ ہر کہیں کاروبار حیات معطل ہو کر رہ گیا اور لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ۔ دفاتر ، تعلیمی ادارے ، مساجد و مدارس اور بڑی بڑی مارکیٹیں بند کر دی گئیں ۔ ذرائع نقل و حمل بند ہو گئے ، بین الاقوامی اسفار ممکن نہ رہے ۔ لوگوں کی ایک ہی ترجیح بنا دی گئی کہ وبا کے دنوں میں اس مہلک اور موذی وبا سے بچ نکلنا ہی فوز مبین ہے ۔ یہ وبا قدرت کی طرف سے آئی یا اسے زمینی ناخداوُں نے اپنے اہداف حاصل کرنے کیلئے خود تیار کیا اور پھیلایا یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا واضح اور محققہ جواب تلاش کرنا مشکل ہے ۔ پاکستان میں بھی مارچ کے مہینے سے حکومت نے لاک ڈاوُن شروع کیا جس میں وقتاً فوقتاً توسیع کی جاتی رہی ۔ عید الفطر کے موقع پر لاک ڈاوُن ختم کیا گیا تو شہری خریداری کیلئے بازاروں اور مارکیٹوں میں سیلابی ریلے کی طرح امڈ آئے ۔ اس وقت کورونا کے پھیلاوُ میں کمی آ گئی تھی لیکن شہریوں کے غیر محتاط رویے کی وجہ سے عید الفطر کے بعد اس کے پھیلاوُ میں اضافہ دیکھنے کو ملا ۔ لوگوں کی معاشی حالت کیلئے پیش نظر حکومت نے سمارٹ لاک ڈاوُن کا تصور پیش کیا جس کے تحت لاک ڈاوُن کو کورونا کے پھیلاوُ والے علاقوں تک محدود رکھا گیا ۔ باقی علاقوں کو اس شرط پر کھول دیا گیا کہ وہاں ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔ اب حکومتی اطلاعات کے مطابق کورونا میں خاطر خواہ کمی آ گئی ہے ۔ ملک بھر سے لاک ڈاوُن ختم کر دیا گیا ہے ۔ دفاتر اور بڑی مارکیٹیں کھل گئی ہیں ۔ شادی گھر بھی کھول دئیے گئے ہیں ۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور بین الاقوامی پروازیں بھی کھل گئی ہیں ۔ تعلیمی ادارے بھی پندرہ ستمبر تک کھلنے کا اعلان ہو چکا ہے . گویا زندگی واپس اپنے معمول پر آ رہی ہے ۔ یہ تقریباً پانچ ماہ کا عرصہ بندشوں اور احتیاطوں میں ہی گذرا ہے ۔ اس عرصے میں سوئے حجاز کی اشاعت بھی تعطل کا شکار رہی ہے ۔ یہ تازہ شمارہ پانچ ماہ کے تعطل کے بعد آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ اس عرصے میں ہمارا سب سے بڑا اور ناقابل تلافی نقصان تو 16 مارچ 2020 کو محقق عصر حضرت مفتی محمد خان قادری علیہ الرحمہ کے سانحہُ ارتحال کی صورت میں ہوا . 17 مارچ کو تین بجے دن انکی نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ کورونا کے باعث ابتدائی پابندیوں کے باوجود کثیر تعداد میں خواص و عوام نے نماز جنازہ میں شرکت کی ۔ علماء و مشائخ کرام کی بڑی تعداد بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئی ۔ انکی تدفین جامعہ سے متصل پلاٹ میں کی گئی ۔ اگلے روز پابندیوں کے باوجود جامعہ میں منعقد ہونے والی قل خوانی میں کافی لوگ شریک ہوئے جن میں بھاری تعداد اہل علم کی تھی ۔ تمام مکاتب فکر کے اہل علم بھی شریک ہوئے اور سبھی نے اپنے اپنے انداز میں انکی خدمات دینیہ کا کھلا اعتراف کیا ۔ اہلسنت کے علماء کرام اور مشائخ عظام بھی شریک ہوئے ۔
وہ کافی عرصہ سے علیل تھے لیکن وفات سے ایک دو ماہ قبل نقاہت اور کمزوری بہت بڑھ گئی تھی ۔ آخری دو تین ہفتے تو انکے لئےجامعہ میں تشریف لانا بھی ممکن نہ رہا تھا ۔ آخری ملاقات انکی رہائش گاہ پر ہوئی تھی ۔ فرمانے لگے کہ اب تو ہم صرف بستروں کیلئے رہ گئے ہیں ۔ اس ملاقات میں انکے بڑے صاحبزادے علامہ محمد فاروق قادری بھی موجود تھے ۔ ہم دونوں کے اصرار پر ہسپتال جانے کیلئے آمادہ ہو گئے لیکن طبیعت بگڑتی ہی چلی گئی اور پھر وہ خبر آ گئی جس پر آج بھی یقین نہیں آتا ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ ہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں اور اس عالم ناسوت میں ہماری سینتیس سالہ رفاقت بظاہر اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے ، بظاہر اس لئے کی بباطن تو وہ آج بھی ہر لمحہ ہمارے ساتھ موجود رہتے ہیں ۔ خوابوں میں ہی نہیں خیالوں میں بھی ۔ ابھی چند دن پہلے خواب میں زیارت ہوئی تو اپنی صاحبزادی عائشہ قادری کی شادی کا کارڈ تھامے ہوئے تھے ۔ اپنے ہاتھ سے میرے لئے ایک کارڈ لکھا اور فرمایا کہ بس مختصر سا پروگرام رکھا ہے ۔ ہم تو گنہگار لوگ ہیں لیکن اللہ کی رحمت سے قوی امید ہے کہ وہ ہمیں حشر میں اکھٹا کر دے گا ۔ انکے حسن انجام کے صدقے ہم بھی امید وار ہیں کہ اللہ ہماری معافی کی صورت بھی بنا دے گا اور انکی خلت ہمیں نفع دے گی ۔
واقفان حال جانتے ہیں کہ غم کا ایک کوہ گراں ہم پر ٹوٹ پڑا تھا ۔ یہ احساس ہی جانگسل تھا کہ جن کو دیکھے بنا قرار نہیں آتا تھا خود اپنے ہاتھوں سے انہیں آسودہُ خاک کر آئے ہیں ۔
چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
پھر سوچتے ہیں کہ یہ عالم ناپائیدار ہے ۔ یہاں سے جلد یا بدیر ہم سب نے چلے جانا ہے ۔ سب کا وقت مقرر ہے جس میں ایک ساعت کی تقدیم یا تاخیر ممکن نہیں ۔ بس ہم اس وقت سے بے خبر ہیں ۔ پھر یہ بھی سوچتے ہیں کہ انکا کام زندہ و تابندہ ہے ۔ ہمیں مل جل کر اس کام کو آگے بڑھانا چاہیے ۔ ماہنامہ سوئے حجاز کا آغاز انکی سرپرستی میں ہوا ، اسکی مسلسل اشاعت کے پچیس سال مکمل ہو چکے ہیں ۔ اسے جاری و ساری رکھیں گے ان شاء اللہ ۔ جامعہ اسلامیہ لاہور کی بنیاد انکی سرپرستی میں آج سے تقریباً چھبیس سال قبل رکھی گئی ۔ رجال دین کی تیاری کے اس عظیم مشن کو آگے بڑھایا جائے گا ان شاء اللہ ۔ تصنیف و تالیف کا کار خطیر اور اس کی طباعت و اشاعت کے عظیم کام کو جاری رکھا جائے گا ۔ حضرت نے طباعت و اشاعت کی ذمہ داری کا یہ کام اپنی زندگی میں ہی اپنے صاحبزادے علامہ محمد فاروق قادری سلمہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا تھا جسے وہ بحسن و خوبی سرانجام دے رہے ہیں . وہ پر عزم ہیں کہ وہ اس کام کو مرحلہ وار آگے بڑھائیں گے ۔ اللہ تبارک تعالیٰ انکی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور انکے لئے آسانیاں پیدا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
آج انکے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں تو ان گنت یادیں میرے دماغ پر دستک دے رہی ہیں ۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں ۔ بلاشبہ وہ عالم ربانی تھے ۔ زہد و تقویٰ کا جو معیار انہوں نے پیش کیا اسے قائم رکھنا انکے بعد میں آنے والوں کیلئے خاصہ مشکل نظر آتا ہے ۔ وہ اللہ کا خوف رکھتے تھے اور حق بات بلا خوف ملامت کہہ دیتے تھے ۔ انکے دل میں کسی کیلئے کینہ نہیں تھا البتہ وہ اہل علم سے اصولی اختلافات رکھتے تھے ۔ ساری زندگی جہد مسلسل کی ۔ جب تفسیر کبیر کا ترجمہ شروع کیا تو رات دیر گئے تک اپنی نشست گاہ پر بیٹھے رہنے کے سبب انکے پاوُں متورم ہو جاتے تھے اور جسم پر مسلسل بیٹھے رہنے سے پھنسیاں نکل آتی تھیں ۔ انہوں نے دس صفحات کا ترجمہ کرنے کا یومیہ ہدف مقرر کیا ہوا تھا ، دیگر علمی تحریکی اور تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ وہ بہر صورت اس ہدف کو پورا کرتے تھے ۔ چھٹی کا انکی زندگی میں تصور ہی نہیں تھا ۔ عیدین کے موقع پر بھی وہ اپنے کاموں میں مشغول رہتے بلکہ انہوں نے ” اسلام میں چھٹی کا تصور ” کے عنوان سے ایک مقالہ قلمبند کیا تھا جس میں انہوں نے ہفتہ وار چھٹی کو بھی شرعاً بلا جواز قرار دیا تھا ۔
وہ بے حد ذہین اور فہیم تھے ۔ معاملہ فہم اور مردم شناس تھے ۔ گہرے مطالعہ میں یقین رکھتے تھے اور اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ حق گہرا ہے اور اسے پانے کیلئے سطحی انداز فکر اور مطالعہ کام نہیں آتا ۔ اللہ رب العزت نے انہیں اعلیٰ تحقیقی صلاحیتوں سے نوازا ہوا تھا ، چنانچہ وہ کثرت مطالعہ اور گہرے فکر و تدبر کے ذریعے ان صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور انکی طرف سے نادر تحقیقات سامنے آتی رہیں ۔ مجموعی طور پر انہوں نے تفسیر کبیر کے اردو ترجمہ کے علاوہ شمائل ، زیارت قبر نبوی ، ناموس رسالت ، اجتہادات نبوی ، فقہی و علمی مقالات کے تحت اور اس پر مستزاد عقائد و اعمال کی اصلاح کیلئے وقیع لٹریچر ، فتاویٰ جات ، شروحات ، درسی کتب وغیرہ کی صورت میں گرانقدر علمی خزانہ پیچھے چھوڑا ہے ۔
شہید پاکستان محترم ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی علیہ الرحمہ کے ہمراہ تحفظ ناموس رسالت محاذ کے پلیٹ فارم سے نعلین پاک کی بازیابی اور قانون تحفظ ناموس رسالت یعنی 295 سی تعزیرات پاکستان کے دفاع کیلئے منظم جدوجہد کی ۔ اس سلسلہ میں موُثر تحریکیں چلائیں ، حتیٰ کہ پرویز مشرف جیسے خود سر آمر کو میڈیا کے سامنے یہ یقین دہانی کرانی پڑی کہ قانون تحفظ ناموس رسالت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی ۔ تحریک کے دنوں میں اسیری بھی کاٹی اور حکومتی جبر و تشدد کا سامنا بھی کیا لیکن اپنے مقصد سے بال برابر بھی پیچھے نہ ہٹے ۔ قانون تحفظ ناموس رسالت کے دفاع کی غرض سے علمی راہنمائی برابر فراہم کرتے رہے ۔ غازی محمد ممتاز قادری علیہ الرحمہ کے مقدمہ کی پیروی کرنے والے وکلاء کی علمی سرپرستی فرماتے رہے . الغرض ساری زندگی اس مقصد جلیل کے ساتھ وفا کا حق خوب ادا کیا ۔ جب تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے کوئی بھی خدمت سر انجام دیتے تو اکثر سرشاری کے عالم میں کہا کرتے تھے کہ بھائی اس مسئلہ میں غفلت نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ اس کریم کی ناموس کا مسئلہ ہے جس نے قبر میں تشریف لانا ہے اور ہم نے جس کی شفاعت پانی ہے ۔
بڑے مقاصد ذہن میں رکھ کر جامعہ اسلامیہ لاہور کی بنیاد رکھی اور اسے ایک معیاری درسگاہ بنانے کیلئے شبانہ روز محنت کی ۔ اب تک اس عظیم درسگاہ سے سینکڑوں علماء فارغ التحصیل ہو کر مختلف شعبہُ ہائے زندگی کیلئے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
دعوتی محاذ پر بھی انتھک محنت کی ۔ خطبہُ جمعہ کو عقائد و اعمال کی اصلاح کا ذریعہ بنایا اور بڑی درد مندی اور دلسوزی کے ساتھ اپنے سامعین کی تربیت فرماتے رہے ۔ شدید علالت میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھا ۔ جامع مسجد رحمانیہ لاہور میں تقریباً چالیس سال سے زائد عرصہ تک یہ خدمت سر انجام دی ۔ مختلف مواقع پر منعقد ہونے والے اجتماعات سے بھی خطاب فرمایا کرتے تھے ۔ اس سلسلہ میں بعض دفعہ دور دراز کے سفر بھی کرتے ۔ انکے خطابات فکری ، تربیتی اور اصلاحی نوعیت کے ہوتے تھے ۔ ٹی وی چینلز پر مذہبی پروگراموں میں بھی شرکت فرماتے ۔ وقت چینل پر ان کا طویل المدت پروگرام خاصہ مقبول ہوا تھا ۔ فیملی میگزین میں کئی سالوں تک قارئین کے علمی استفسارات کے جوابات دیتے رہے ۔ دروس قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور بڑے قیمتی دروس دئیے ۔ جامعہ رحمانیہ شادمان لاہور میں نوجوانوں کو ترجمہُ قرآن سکھاتے رہے ۔
اتحاد اہلسنت کیلئے سر توڑ کوششیں کیں جو ایک حد تک بار آور بھی ثابت ہوئیں لیکن مجموعی طور پر وہ اس حوالے سے قریب قریب مایوس ہی ہو چکے تھے ۔ عمر کے آخری حصے میں بڑی دلجمعی سے ایک سنجیدہ کوشش کی لیکن کثیر قائدین کی سرد مہری اور غیر سنجیدگی دیکھتے ہوئے اسے سمیٹ دیا ۔
بین المسالک ہم آہنگی اور تقرب کے فروغ کیلئے ملی مجلس شرعی کے پلیٹ فارم سے مثبت پیش رفت کی ۔ لاہور کی سطح پر تمام مسالک کے ممتاز علماء کرام انہیں ان کاوشوں کی وجہ سے احترام دیتے تھے ۔
الغرض انکی پوری زندگی ایک جہد مسلسل تھی ۔ انکی تمام کوششیں شعوری ہوتی تھیں اور انکے پیچھے اخلاص اور للہیت کا جذبہ پوری آب و تاب سے کار فرما ہوتا تھا ۔ جس کام پر شرح صدر نہیں ہوتا تھا اس کو ہاتھ نہیں ڈالتے تھے ۔ اکثر اپنے خطابات میں فرماتے تھے کہ مسلمانو ! بلا شبہ یہ مقام شکر ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں مسلمان گھرانوں میں پیدا کیا لیکن ہم شعوری مسلمان کب بنیں گے ؟
اپ کا مزاج تجدیدی اور اصلاحی تھا ۔ معاشرے کی خرابیوں کی بھر پور طریقے سے نشاندہی فرماتے تھے ۔ اصلاح احوال کیلئے متعدد راستے تجویز فرماتے تھے ۔ دعوت و تبلیغ کے شعبے کی اصلاح کیلئے ایک فارمولا پیش کیا جسے اہل علم نے بہت سراہا ۔ محافل نعت کی اصلاح کیلئے بھی وقیع تجاویز مرتب کیں ۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جو خرافات دیکھنے میں آتی ہیں انکی نشاندہی فرماتے اور لوگوں کو متنبہ فرماتے کہ ان سے باز آ جائیں ورنہ یہ عمل اللہ اور اسکے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا موجب بن سکتا ہے ۔ امرا اور اہل ثروت کو تلقین کرتے کہ وہ اللہ کی راہ میں مسحقین پر اپنا مال خرچ کرکے اللہ کے قرب کو پا لیں ۔ انکے حلقہُ اثر کے کئی اہم افراد کے من میں یہ مقصد اتر گیا اور انہوں نے خدمت انسانیت کو اپنا شعار بنا لیا ۔ حجاز ہسپتال کے صدر محترم الحاج شیخ سہیل اقبال اور محترم شیخ ثاقب اقبال انکے قریبی رفقاء میں سے ہیں جنہیں حضرت کی طویل رفاقت حاصل رہی اور انہوں نےحضرت سے بہت کچھ سیکھا ۔ انہوں نے آپکی فکر سے متاُثر ہوکر یہ راستہ اختیار کیا ۔ مغل آئی ہسپتال کے منتظمین بھی ان کی ہی فکر سے متاُثر تھے ۔
انکی سوچ یہ تھی کہ مسجد پر بڑے بڑے مینار ، گنبد اور اسکے محراب و منبر کی تزئین و آرائش پر بے محابہ خرچ کرنے کی بجائے اس محراب و منبر میں کھڑے شخص کے معاشی تعطل کو رفع کرنے پر خرچ کریں تاکہ وہ آزادی کے ساتھ شریعت کا حقیقی پیغام آپ تک پہنچا سکے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ درست ہے کہ مسجد بنانے والے کو جنت میں گھر ملنے کی بشارت دی گئی ہے لیکن غریب کو چھت فراہم کرنے والے کے دل میں جنت کا مالک خود گھر کر جاتا ہے ۔ دعوت و تبلیغ کے حوالے سے انکا مشاہدہ یہ تھا کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے مستحبات اور مباح امور کو فرائض و واجبات پر ترجیح حاصل ہو گئی ہے ۔ سال بعد محفل میلاد سجانے والا اگر پورا سال فرائض و واجبات سے منہ موڑے رکھنےکے باوجود یہ سمجھتا ہے کہ اس کا یہ تنہا مستحب عمل تماتر فرائض و واجبات پر بھاری ہے تو وہ سخت دھوکے میں ہے ۔ جو لوگ نماز روزہ کا تو اہتمام کرتے لیکن حقوق العباد کی پرواہ نہ کرتے ، انکو بھی خوب جھنجھوڑتے تھے ۔ وہ بلا خوف ملامت حق بات کرتے تھے ۔ کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے ۔ آپ کا یہ تجدیدی اور اصلاحی مزاج ان لوگوں کو نہیں بھاتا تھا جن کی عادتیں چاپلوسی کر کے ہمارے روایتی مذیبی طبقے نے خراب کر دی ہیں ۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ محافل میلاد کی صدارت کیلئے کسی باعمل عالم دین کو دعوت دیں ، قبضہ گروپ اور دنیا پرستی کے نشے میں چور شخص اگر ساری محفل کے اخراجات بھی اٹھائے تو اسے اس منصب پر نہ بٹھائیں ۔ اہل علم سے حدود آداب میں رہتے ہوئے جہاں ضروری سمجھتے اختلاف کا اظہار کرتے ۔ ایک دفعہ میں نے عرض کی کہ کیا یہ ضروری ہے کہ اختلاف کا کھلا اظہار کیا جائے ؟ فرمانےلگے کہ جاننے والے کیلئے یہ ضروری ہے کیونکہ اس کا سکوت دوسرے کے موُقف کی تائید سمجھا جائے گا اگرچہ وہ موُقف غلط ہی کیوں نہ ہو ۔ یہ بھی فرمایا کہ اعلانیہ اظہار سے یہ بھی ہوتا ہے کہ خطا کرنے والا فریق رجوع کر سکتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر آپ کا موُقف درست نہیں تو آپ کیلئے بھی موقع ہوتا ہے کہ آپ اپنے موُقف پر نظر ثانی کر لیں لیکن اظہار کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کا ڈھنڈورا پیٹا جائے اور دوسرے کا استخفاف کیا جائے ۔ اسی لئے آپ نے جن اہل علم سے اختلاف کیا انہیں سب سے پہلے بالمشافہ یا بذریعہ خط اس سے مطلع کیا ۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کسی صاحب علم کو اختلاف کی بنیاد پر بد نیت نہ سمجھیں ۔ حق کو پانے کیلئے ہر کوئی اخلاص سے کوشش کرتا ہے ، ہاں اس کے دلائل کمزور ہو سکتے ہیں یا استنباط غلط ہو سکتا یے ۔ لہذا اس پر اس کے دلائل کا ضعف آشکار کر دیا جائے کیونکہ اللہ رب العزت نے دلیل کو فیصلہ کن قرار دیا ہے ۔ سورہ الانفال آیت 42 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
لِّيَـهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَّيَحْيٰى مَنْ حَىَّ عَنْ بَيِّنَةٍ ۗ
ترجمہ تاکہ جس نے ہلاک ہونا ہے وہ واضح دلیل پر ہلاک ہو اور جس نے زندہ رہنا ہے وہ بھی واضح دلیل پر زندہ رہے ۔
وہ کھلے دل سے یہ اعتراف کیا کرتے تھے کہ ضد میں ہم سے ذکر باری تعالیٰ اور توحید کے حوالے سے کچھ تفریط ہوئی ہے حالانکہ ذکر باری تعالیٰ مقصود بالذات ہے اور باقی سب کے اذکار بالتبع ہیں البتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو اللہ رب العزت نے اپنے ذکر کے ساتھ معیت عطا کر دی ہے اور یہ رفعت ذکر حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی کی صورت ہے لیکن ہم نے یہاں بھی ٹھوکر کھائی ہے کہ ہم نے الا ما شاء اللہ ذکر الہی چھوڑ دیا ہے اور صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر پر اکتفاء کر لیا ہے ، یہ ہر گز منشاء الہی نہیں ہے ۔ وہ محفل میلاد کے عنوان میں بھی محفل شکر الہی کے ذکر کو مقدم رکھنے کی تلقین فرماتے ۔ محافل کا آغاز تلاوت کلام پاک کے بعد حمد سے شروع کرواتے ۔ لوگوں کو یہ نکتہ سمجھاتے کہ آپ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کیلئے نعتیں پڑھتے ہیں تو یہ بھی جان لیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زیادہ خوشی ذکر الہی سے ہوتی ہے ۔ ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ ایک طویل عرصہ تک ہم نے لوگوں کو محافل کے مروجہ نظم پر پختہ کیا ہے اب یکایک وہ اس تبدیلی کو کیسے قبول کریں گے ؟ انہوں نے فرمایا حق واضح ہونے کے بعد اس کا اخفا صرف اس اندیشے سے نہ کرنا کہ لوگ اسے قبول نہیں کریں گے ایک طرح کا کتمان حق ہے ۔ ہمیں اصلاح کیلئے آواز اٹھانی چاہیے ۔ حق میں یہ تاثیر یے کہ وہ اپنی جگہ بنا لیتا ہے ۔ کس کس بات کا تذکرہ کیا جائے ۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے ۔ اگر زندگی نے وفا کی تو حتی الوسع انکے عالی افکار اور گرانقدر خیالات کو منظر عام پر لائیں گے ۔ سوئے حجاز کا ماہ دسمبر کا شمارہ حضرت محقق عصر علیہ الرحمہ پر خصوصی نمبر ہو گا ۔ حضرت کے جملہ تلامذہ ، معتقدین اور معاصرین سے التماس ہے کہ وہ حضرت کے حوالے سے اپنی یادیں تاُثرات و مشاہدات قلمبند فرما کر ہمیں جلد ارسال کر دیں ۔ ہم کوشش کریں گے کہ تمام معقول تحریریں شامل اشاعت کر دی جائیں ۔
آہ کہ ہم ان صحبتوں سے محروم ہو گئے ۔ وہ گوہر نایاب ہمیں داغ مفارقت دے گیا ۔ ہم اور تو کچھ نہیں کر سکتے البتہ بار دیگر تجدید عہد کرتے ہیں کہ انکے مشن کو جاری و ساری رکھیں گے ۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنی تائیدات اور انکے فیوضات سے نوازے اور انکے درجات بلند فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
محمد خلیل الرحمٰن قادری
مدیر اعلیٰ